دنیا

میانمار کے مسلمانوں دریاؤں اور سمندروں میں سرگرداں

mayanmar1ہزاروں کي تعداد ميں روہنگيا مسلمانوں کے بے گھر ہونے کي خبريں موصول ہوئي ہيں۔

ہزاروں کي تعداد ميں روہنگيا مسلمانوں کے بے گھر ہونے کي خبريں موصول ہورہي ہيں۔ مغربي ميانمار کے صوبےراخين ميں گزشتہ سال روہنگيا مسلمانوں کے خلاف انتہا پسند بدھسٹوں کے حملوں سيکڑوں مسلمان جانبحق اور ہزاروں کي تعداد ميں اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوگئے تھے- ہزاروں کي تعداد ميں مسلمان پناہ گزين کيمپوں ميں اتنہائي کس مہ پرسي کي زندگي گزار ہے ہيں جبکہ ہزاروں کي تعداد ميں روہنگيا مسلمان بنگلاديش، ملائشيا، تھائي لينڈ ميں پناہ لينے پر مجبور ہوگئي ہے- ان ملکوں کي جانب سے مزيد پناہگزينوں کو قبول کرنے سے انکار کے بعد روہنگيا مسلمانوں کي بہت بڑي تعدا کشتيوں ميں پناہ ہوئے اور ان ملکوں کے درميان واقع پانيوں ميں بھٹک رہي ہے۔
ذرائع ابلاغ کي رپورٹوں کے مطابق دسمبر اور جنوري کے مہينے ميں روہنگيا مسلمانوں کي ہجرت ميں زبردست اضافہ ہوگيا ہے کيونکہ انکے خلاف انتہا پسند بودہسٹوں کے حملے بدستوري جار ہيں اور حکومت ميانمار نے بھي روہنگيا مسلمانوں کے مستقبل کے بارے ميں کسي واضح پاليسي کا کوئي اعلان کيا ہے۔
حکومت ميانمار کا دعوي ہے کہ روہنگيا مسلمان بنگلا ديش کے شہري ہيں اور وہ انہيں اپنے ملک کي اقليت کے طور پر تسليم کرنے کے لئے تيار نہيں ہے۔
روہنگيا کہلائے جانے والے ميانمار کے اسي لاکھ مسلمانوں نے بھي فوجي آمريت کے دوران اس ملک ميں آباد ديگر قوموں کي طرح فوجي حکمرانوں کے ظلم ستم برداشت کئے ہيں اور انہيں تعصب کا نشانہ بنايا جاتا رہا ہے ليکن انساني حقوق کي تنظيموں کا کہنا ہے کہ شہري حقوق سے محروم ہونے کي وجہ اس ملک کے مسلمانوں کو دہر ظلم اور زيادتيوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
اقوام متحدہ نے روہنگيا مسلمانوں کو دنيا کي مظلوم ترين اقليت قرار ديتے ہوئے کہا ہے کہ ميانمار ميں مسلمانوں کو شديد ترين دباؤ کا سامنا ہے۔
يہي وجہ سے کہ صوبہ راخين ميں مسلمانوں کے خلاف فوج کے حمايت يافتہ بودہسٹوں کے حملوں کي خبريں سامنے آنے کے بعد ميانمار کي حکومت کو عالمي برداري کي جانب سے سخت تنقيد کا نشانہ بنايا گيا ہے۔
اگرچہ بعض مبصرين ميانمار کے صدر کي جانب سے تيسرے مرحلے کي اصلاحات کے اعلان اور اپني انتطامي خاميوں کے اعتراف کو مسلمانوں کے حوالے انکي حکومت کي پاليسي ميں تبديلي کي علامت قرار دے رہے ہيں ليکن جو بات واضح ہے وہ ہے کہ ميانمار کے مسلمانوں کو اس ايسے وقت فوري اور قانوي اقدامات کي ضرورت ہے جو انہيں موجودہ افسوسناک اور تباہ کن صورتحال سے نجات دلاسکے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button