سعودی عرب

سعودی حکام آیت اللہ شیخ باقر النمر کی اسپتال منتقلی کی مخالفت کررہے ہیں

al shiaرپورٹ کے مطابق سعودی حکام کی قید میں ہیں؛ 500 دنوں سے مسلسل قید تنہائی کاٹ رہے ہیں اور اب وہ دائمی معذوری کے خطرے کا سامنا کررہے ہیں کیونکہ ان کا علاج معالجہ نہیں ہوتا جو آل سعود کی درندگی اور غیر انسانی خصلت کا عملی ثبوت ہے۔
آیت اللہ شیخ نمر کے خاندانی ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ سعودی حکام ڈاکٹروں کی طبی رپورٹوں اور انہیں اسپتال منتقل کرنے کے مشورے کے باوجود ان کی اسپتال منتقلی کی مخالفت کررہے ہیں۔
ان ذرائع نے کہا ہے کہ آیت اللہ نمر کی طبی نگرانی کرنے والے ڈاکٹر نے ان کی عمومی حالت پر مبنی ایک رپورٹ تیار کرکے اپنی درخواست سے منسلک کردی ہے اور حکام سے درخواست کی ہے کہ انہیں فوری طور پر اسپتال منتقل کیا جائے۔
ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ آیت اللہ نمر کی جسمانی حالت نازک ہے اور انہیں مسلسل طبی نگرانی کی ضرورت ہے جو کسی اسپتال میں ہی ممکن ہے۔
ادھر سعودی وزارت داخلہ کے ایک سینئر اہلکار احمد السالم نے ڈآکٹر کی درخواست اور رپورٹ کے جواب میں کہا ہے کہ ڈاکٹر کی رپورٹ کے پیش نظر انہیں اسپتال منتقل کرنے کی کوئی ضرورت نہيں ہے۔
واضح رہے کہ آیت اللہ شیخ نمر باقر النمر جولائی 2012 میں سعودی جلادوں کی فائرنگ سے زخمی ہوئے اور انہیں زخمی حالت میں ہی اسپتال کے بجائے جیل منتقل کیا گیا اور حالیہ رپورٹوں کے مطابق انہیں مستقل معذوری کے خطرے کا سامنا ہے۔
آل سعود کے مجرمانہ خصلت کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہوسکتا ہے کہ کہ ایک انسان کو زخمی حالت میں مسلسل 500 دنوں تک ایک تنگ و تاریک کمرے میں قید تنہائی میں رکھا جائے اور اس کے زخموں کا علاج نہ کیا جائے بلکہ اذیت و آزار دے کر مزید زخمی کیاجائے؟
العہد نیوز ویب سائٹ کے مطابق "شیخ تیسیر آل نمر” نے ٹویٹر میں اپنے ذاتی پیج پر ٹکھا ہے کہ آیت اللہ نمر باقر آل نمر ابتدائے گرفتاری سے اب تک قید تنہائی میں ہیں اور گرفتاری کے دن سے لے کر اب تک انھوں نے سورج کی روشنی کا مشاہدہ نہیں کیا ہے۔
انھوں نے اپنے بھائی کی جسمانی حالت کے بارے میں لکھا ہے: میرے بھائی کو ابھی تک ضروری علاج معالجے کی سہولت نہيں دی گئی ہے اور اب وہ اپنے گھٹنوں کو مکمل طور پر خم نہیں کرسکتے اور ابھی تک ان کے ران پر لگی گولی نکالنے کے لئے کوئی اقدام نہيں کیا گیا ہے اور ان کے بدن سے گولی خارج نہ کرنے کی وجہ سے متعدد سوالات اٹھائے جاسکتے ہیں کہ آل سعود کا اس سے کیا مقصد ہے؟ اور ۔۔۔
ادھر جیل کے اندر بعض باخبر ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ ڈاکٹروں کو آیت اللہ نمر کے مناسب علاج کی اجازت نہيں دی جارہی ہے جس کی وجہ سے ان کی زخمی ٹانگ کی لمبائی میں دو سینٹی میٹر کمی آئی ہے اور وہ اپنا گھٹنا خم کرنے سے عاجز ہیں۔
ادھر بلاد الحرمین کے سیاسی راہنماؤں نے کہا ہے کہ سعودی حکومت آیت اللہ نمر کو معذوری سے دوچار کرنے کا منصوبہ رکھتے ہیں اور یہ در حقیقت ٹارچر کی ایک قسم ہے جس کی رفتار کم ہے لیکن اس کے نتیجے میں ٹارچر کا شکار انسان دائمی معذوری سے دوچار ہوجاتا ہے۔
آل سعود نے سات جولائی 2012 کو آیت اللہ نمر باقر آل نمر کی حق پسندانہ صدا کو بجھانے کی غرض سے انہیں گولی مارنے کے بعد گرفتار کیا تھا اور تب سے وہ سعودی اذیتکدے میں بند ہیں۔
ایک پورٹ کے مطابق آیت اللہ نمر کو زخمی حالت میں گرفتار کرنے کے بعد غیر انسانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں ان کے دانت بھی ٹوٹ گئے ہیں جب کہ ان کی ران اور ایک بازو بھی ـ جو گولی لگنے سے زخمی ہوا تھا ـ تشدد کرکے توڑ دیا گیا ہے اور انہیں لاعلاج چھوڑ دیا گیا ہے۔
شیخ باقر النمر کا مختصر تعارف
وہ ایک مجاہد عالم دین ہیں جنہوں گذرے ہوئے وزیر داخلہ و ولیعہد نائف بن عبدالعزیز کو ـ سعودی عوام پر ظلم و سنگدلی پر انتہا کرنے اور بطور خاص اہل تشیع کو تمام شہری حقوق سے محروم کرنے کی بنا پر ـ طاغوت اور ستمگر کا لقب دیا اور کہا کہ وہ قبر میں اللہ کی سزا پائے گا۔ اور خدا کی آگ اس کو جلا دے گی اور کیڑے اس کا بدن کھا لیں گے اور وہ نائف کی موت کی خبر سن کر خوش ہوجائیں گے اور جب اس کی موت واقع ہوئی تو آیت اللہ نمر نے اپنے وعدے پر عمل کرتے ہوئے جمعہ کے خطبوں میں خوشی کا اظہار کیا۔
شیخ نمر باقر آل نمر 1379 ہجری بمطابق 1968 عیسوی صوبہ قطیف کے شہر العوامیہ میں ایک علمی اور دیندار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کے چچا آیت اللہ شیخ محمد بن ناصر آل نمر رحمہ اللہ اسی خاندان کے چشم و چراغ تھے اور اس خاندان میں کئی نمایاں علماء و ذاکرین ہوگذرے ہیں جن میں ان کے دادا الحاج علی بن ناصر آل نمر قابل ذکر ہیں۔
انھوں نے ابتدائی تعلیم العوامیہ میں مکمل کرنے کے بعد سنہ 1400 ہجری (1989) کو انقلاب اسلامی کو بہتر سمجھنے اور اعلی دینی تعلیم کے حصول کی غرض سے اسلامی جمہوریہ ایران ہجرت کی اور تہران کے حوزہ علمیہ حضرت قائم(عج) میں حاضر ہوئے جو اسی سال آیت اللہ سید محمد تقی مدرسی نے تاسیس کیا تھا۔
شیخ نمر نے حوزہ علمیہ حضرت قائم(عج) میں 10 سال تک تعلیم جاری رکھی اور اس کے بعد شام میں حوزہ علمیہ سیدہ زینب سلام اللہ علیہا پہنچے اور وہاں تعلیم جاری رکھی۔
انھوں نے اصول الفقہ میں اصول المظفر، رسائل شیخ انصاری اور آخوند خراسانی کی کتاب کفایۃالاصول کے ساتھ ساتھ علم فقہ میں شہید اول کی کتاب اللمعۃ الدمشقیہ، خوانساری کی کتاب جامع المدارک، شیخ انصاری کی کتاب المکاسب اور سید حکیم کی کتاب مستمسک عروۃ الوثقی مکمل کرلی۔
انھوں نے اس عرصے میں کئی نامور ایرانی، عراقی، شامی اور افغانی علماء سے فیض حاصل کیا اور مشہد میں بھی کافی عرصے تک آیت اللہ شیرازی کے درس میں حاضر ہوئے جبکہ قم میں بھی درس اخلاف کے مراتب طے کئے جس کے بعد انہیں علمی مراکز میں تدریس کی اجازت مل گئی۔
آیت اللہ شیخ نمر باقر النمر اس وقت حوزات علمیہ کے نمایان ترین اساتذہ میں شمار ہوتے ہیں اور ایران اور شام میں بھی لمعہ، جامع المدارک، مستمسک العروۃ الوثقی اور شہید آیت اللہ محمد باقر الصدر کی کتاب الحلقات کی تدریس کرتے رہے ہیں اور کئی سالوں تک تہران اور دمشق میں حوزہ علمیہ حضرت قائم(عج) کے منتظم رہے ہیں اور ان مراکز کی ترقی میں شاندار کردار ادا کرتے رہے ہیں۔
وہ سعودی عرب جاکر العوامیہ میں مذہبی مرکز "الامام القائم(عج)” کی بنیاد رکھی اور اس مرکز کا سنگ بنیاد 2001 میں رکھا گیا۔
اخلاقی حوالے سے نہایت اعلی خصلتوں کے مالک ہیں اور دینی اقدار کے تحفظ کے حوالے سے کسی قسم کی سودے بازی کے قائل نہیں ہیں اور یہ خصلتیں آل سعود کی فاسد اور ظالم ملوکیت کے خلاف ان کی جہادی تحریک میں نمایاں ہیں۔
آیت اللہ نمر سعودی عرب کے اندر اور خطے کی سطح پر گرد و پیش کے حالات کا بخوبی ادراک رکھتے ہیں جس کے باعث ان کا نظریہ علاقائی اور بین الاقوامی حالات کے حوالے سے مدلل تجزیئے پر مبنی ہے اور وہ خود کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ قرآن اور اہل بیت(ع) کے ساتھ مسلسل تعلق کا نتیجہ ہے۔
شیخ باقر نمر آل نمر اس سے پہلے بھی 2006 اور 2008 میں آل سعود کے اذیتکدوں میں پابند سلاسل رہے ہیں۔ ایک بار بحرین میں قرآن کریم بین الاقوامی سیمینار میں شرکت کے بعد وطن واپسی پر گرفتار کئے گئے تھے اور الزام یہ تھا کہ انھوں نے اس سے قبل آل سعود سے جنت البقیع کی تعمیر اور مذہب اہل بیت(ع) کو سرکاری طور پر تسلیم کرنے کی درخواست کی تھی اور مطالبہ کیا تھا کہ سعودی طرز تعلیم کو تبدیل کیا جائے یا پھر اس کو سرے سے منسوخ کرکے نیا نظام تعلیم متعارف کرایا جائے۔
اس کے بعد 23 اگست 2008 کو القطیف شہر میں گرفتار کئے گئے اور ان پر الزام لگایا گیا کہ انھوں نے منطقۃالشرقیہ کے شیعہ اکثریتی شہروں کے عوام کو ہدایت کی تھی ہ وہ اپنے اور اپنے معاشروں کے دفاع کی تیاری کریں! اور یہ کہ وہ الشرقیہ کے عوام کو حکومت کے خلاف بغاوت کرنے اور اپنے علاقے آل سعود کی عملداری سے جدا کرنے کی دعوت دے رہے ہیں!
بہر حال سعودی حکام جانتے تھے کہ الزامات جھوٹے ہیں چنانچہ انہيں 24 گھنٹے قید کرکے رہا کیا گیا اور ایک بار 2009 میں بھی مختصر مدت تک قید کئے گئے۔
آل سعود کے بارے میں آیت اللہ نمر کے خیالات:
٭ نجد و حجاز اور مشرق و جنوب پر ایک صدی سے مسلط آل سعود نامی خاندان کی ملوکیت پورے میں ملک میں منظم فرقہ وارانہ امتیازات پر استوار ہے اور خاص طور پر الشرقیہ کے دو علاقوں الاحساء اور القطیف کے عوام کے ساتھ سوتیلی ماں کا رویہ اپنائے ہوئے ہے۔
٭ میں کلمۂ حق کے اظہار سے کبھی خوفزدہ نہیں ہوتا خواہ سعودی خاندان مجھے گرفتار کرے، خواہ مجھے تشدد کا نشانہ بنایا اور اذیت و آزار دے اور حتی مجھے شہید کردے۔
٭ ہم آل سعود کی طرف سے عوام اور بالخصوص شیعیان آل رسول(ص) کی عزت و حیثیت پر تجاوز اور انہیں تمام شہری حقوق سے محروم کرکے انہیں دوسرے درجے کے شہریوں کا درجہ دیئے جانے کو یکسر مسترد کرتے ہیں اور ہم اس ملک میں رہنے والے شیعیان آل محمد(ص) کا بہرصورت، تحفظ کریں گے۔
٭ میں آل سعود کے خلاف جدوجہد کے اگلے مورچے میں خود ہی بیٹھا ہوا ہوں، کیونکہ مجھے یقین ہے کہ جدوجہد کے بغیر کسی مقصد تک پہنچنا ممکن نہیں ہے۔ اور مقاصد کے حصول کے لئے ایثار اور شجاعت وجہاد کی ضرورت ہے؛ اور ہم پرامن جدوجہد پر اصرار کرتے ہیں کیونکہ ہمارے خیال میں مسلح تحریک کبھی بھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوا کرتی، اور ملک میں عدل و انصاف قائم نہیں ہوا کرتا اور ملک کے باشندے حریت کے ساتھ نہيں جی سکتے؛ امیرالمؤمنین علیہ السلام کے خطبہ جہاد میں بھی زور دیا گیا ہے کہ عدل جہاد کے سوا قائم نہیں کیا جاسکتا اور حق ایثار، جہاد اور شجاعت کے بغیر نہیں لیا جاسکتا۔
٭ شیعیان آل رسول(ص) آل سعود کے ظلم و تجاوز کے سامنے خاموش نہيں رہیں گے؛ اے آل سعود! ہم خاموش نہیں رہیں گے، تم جو ظلم بھی چاہو ہم پر روا رکھو، جو بھی چاہتے ہو کرو اور ہماری شخصیت اور ہماری حیثیت کو پامال کرو۔
٭ سعودی عرب کے تمام ذرائع ابلاغ اور اخبارات و جرائد آل سعود سے وابستہ ہونے کی وجہ سے حکمران خاندان کی تشہیری مہم کا حصہ بنے ہوئے ہیں اور ان کا رویہ آزاد صحافت سے کوسوں دور ہے۔
٭ سعودی مفتی آل سعود کے بنے بنائے افراد ہیں؛ سعودی حکام انہیں پیسہ دیتے ہیں اور تاکہ وہ فرقہ وارانہ اور مذہبی اختلافات کو ہوا دے کر شیعہ اور سنی مسلمانوں کو آپس میں الجھائے رکھیں اور یوں سعودی شہزادے پورے چین و سکون کے ساتھ ملکی وسائل لوٹتے رہیں۔
٭ اے آل سعود! میں جاتنا ہوں کہ آج نہیں تو کل مجھے گرفتار کرنے کے لئے آؤگے؛ میں تمہیں خوشامدید کہتا ہوں کیونکہ تمہاری منطق ہی یہی ہے: "گرفتاری، ٹارچر اور قتل و غارت”۔ لیکن ہم قتل و غارت سے نہيں ڈرتے، ہم کسی بھی مصیبت سے نہيں ڈرتے۔
٭ اگر آل سعود کے حکام ہیں پرامن مظاہروں کی مخالفت کرتے ہيں اور دھرنوں پر پابندی لگاتے ہیں تو ہم اپنا احتجاج جاری رکھنے کے لئے نئے نئے راستے اختیار کریں گے اور اپنے جائز حقوق لے کر رہیں گے۔ اور مظاہرے اور دھرنے ہمارے احتجاجی طریق کار کا ایک ہی جزو ہے۔
آیت اللہ شیخ نمر آل نمر سعودی حکام کے ساتھ ساتھ دوسرے ممالک میں بھی استبدادی اور آمر حکمرانوں پر تنقید کرتے رہے ہیں اور خاص طور پر بحرین پر مسلط آل خلیفہ کو کڑی نکتہ چینی کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button