سعودی عرب

سعودی عرب کی فتوی ساز فیکٹریاں اور غریب مسلمان

whabi womenسعودی عرب کے درباری مفتی اپنے عجیب و غریب فتووں کی بناپر ماضی میں عالم اسلام جگ ہنسائی کا سبب بنتے رہے ہیں لیکن جب سے سوشل میڈیا اور سیٹلائٹ ٹی وی چینلوں نے گھر گھر رخنہ کیا ہے اس وقت سے سعودی درباری مفتیوں کے فتوے آئے دن اسلام اور مسلمانوں کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں چنانچہ محمد عبدالرحمان العریفی کے جہاد النکاح سے متعلق فتوے کے حوالے سے عالم اسلام کا ایک بڑا اور معتبر طبقہ اس بات کو ماننے کے لۓ تیار ہی نہیں کہ کسی سعودی مفتی نے ایسا کوئی فتوی صادر کیا ہے وہ تو اسے ایک پرو پگنڈا سمجھتے ہیں جس کا مقصد سعودی عرب کے اسلامی تشخص کو نقصان پہنچانا ہے۔ تاہم اس سلسلے میں کثرت کے ساتھ شائع ہونے والی خبروں اور خواتین کے ساتھ زیادتی کے واقعات سے متعلق رپورٹوں نے لوگوں کو سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔
مصرکے کثیرالاشاعت عربی اخبار النہار کی یہ خبر پوری دنیا میں تہلکہ مچا گئی کہ شام کے شہر حلب میں شامی دہشت گرد گروہ جبہۃ النصرہ کے ایک مرکزی لیڈر نے قطر کے الجزیرہ ٹی وی چینل کی اینکر پرسن غادہ عویس کے ساتھ جنسی زیادتی کی ہے۔ یہ ایسی خبر تھی کہ جس کو جٹھلایا نہیں جاسکتا تھا تاہم قطر کی حکومت کی مداخلت پر اس معاملے کو دبا دیا گیا اور عودہ عویس کو ڈرا دھمکا کر چپ کرادیا گیا لیکن اس دوران جانب جبہۃ النصرۃ کی جانب سے بیان میڈیا پر جاری کیا گیا کہ غادہ عویس نے رضاکارانہ طور پر اپنے آپ کو جہاد النکاح کیلئے پیش کیا تھا۔ جہاد النکاح کی اصطلاح سعودی مفتی محمد عبدالرحمان العریفی نے ایجاد کی ہے، سعودی عرب کی شاہ سعود یونیورسٹی کے استاد العریفی نے شامی دہشت گردوں کی حمایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ دو سال سے شام کے محاذ پر مصروف مجاہدین کی جنسی خواہشات پوری نہیں ہورہی ہیں لہٰذا ان کی جنسی تسکین کے لئے خواتین خود کو جہاد النکاح کے لئے پیش کریں۔
اس فتوے کے بعد بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں تیونس سے خبر آئی کہ ایک درجن سے زائد لڑکیاں جہاد النکاح کے لئے شام روانہ ہوگئیں اور ان کے والدین ان کے لئے پریشان ہیں۔ اس فتوے کے ذریعے سنی مسلمان خواتین کو اس کام کی جانب راغب کیا گیا ہے تاکہ بیرون ملک تعینات نیٹو فورسز کی طرز پر جوان جوان مسلمان لڑکیاں نام نہاد مجاہدین کی جنسی تسکین کے ساتھ ساتھ ان کے حوصلوں کو بڑھاتی رہیں۔ چار اپریل سال 2013ء کو ایک برطانوی اخبار میں خبر شائع ہوئی کہ تیونس کی 13 جوان لڑکیاں جنسی جہاد کے لئے شام روانہ ہوگئی ہیں جبکہ دیگر ممالک میں بعض عناصر اس رجحان کو بڑھا وا دے رہے ہیں۔ اس افسوسناک صورتحال کے پیش نظر تیونس کے وزیر مذہبی امور کو اپنے ملک کی خواتیین اور لڑکیوں سے یہ اپیل کرنا پڑی کہ وہ جنسی جہاد کے فتوے پر کان نہ دھریں۔
انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں نے اسے زنا اور جبری شادی کا نام دیا ہے جبکہ جہاد النکاح کو سیکس جہادکی اصطلاح سے یاد کیا جارہا ہے۔ جہاد سیکس پر تنقید کرنے واوں کا کہنا ہے کہ اگر یہ فتوی صرف رضا کار خواتین کے شامل ہوتا تو بھی اس سے صرف نظر کیا جاسکتا تھا لیکن بے یار و مددگار خواتین اور لڑکیاں دیگر ممالک میں قائم مہاجر کیمپوں میں مقیم شامی خواتین بھی نام نہاد جہادیوں کی جنسی درندگی کا نشانہ بن رہی ہیں۔ شام کی سرحد پر واقع ترکی میں قائم شامی مہاجرین کے کیمپوں اور اردن کے زعتری کیمپ اور لبنان کے شامی مہاجر کیمپوں میں شام کی نوجوان خواتین کے ساتھ مسلح دہشت گردوں اور وہاں تعینات مسلح گارڈز کی جانب سے جنسی زیادتی کی مسلسل شکایات موصول ہورہی ہیں حتی بعض رپورٹوں کے مطابق ترکی میں قائم ایک کیمپ میں نام نہاد جہادیوں کے ہاتھوں متعدد لڑکیوں کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ تک بنایا گیا ہے۔ یہی اطلاعات اردن کے کیمپوں سے بھی آئی ہیں۔
شام کے وہ علاقے جو دہشت گردوں کے قبضے میں تھے وہاں سے خواتین کی نقل مکانی کا ایک بڑا سبب ہی یہی تھا کہ وہاں ان کی عزتیں محفوظ نہیں تھیں اور جہاد النکاح کے نام پر ان کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی جارہی تھی۔شام میں ادلیب کے علاقے عریف میں بھی لڑکیوں اور بچوں کو جنسی ہوس کا نشانہ بنایا گیا۔ انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی نے بھی اپنی رپورٹ میں اجتماعی زیادتی کی نشاندہی کی تصدیق کی ہے۔ اقوام متحدہ کی شعبہ پناہ گرین کی ایک اعلی افسر ایریکافیلر نے بھی خواتین سے بدسلوکی کے واقعات کو تسلیم کیا تھا۔
سلفی مفتیوں کی پوری تاریخ جاہلانہ اور منحرف نظریات کی پیروی سے بھری پڑی ہے۔ برطانوی سامراج سے امریکی سامراج تک سبھی ان درباری مفتیوں اور ان کے سرپرست سعودی عرب کو اپنے لئے قیمتی اثاثہ سمجھتے ہیں۔ حال ہی میں سعودی عرب کے ایک درباری مفتی سے منسوب ایک اور عجیب و غریب اورانتہائی شرمناک فتوی سامنے آیا جس کے تحت محرم خواتین کو بھی جہاد النکاح کے لۓے مجاز ٹھرایا گیا ہے۔ مفتی شیخ ناصر العمر نے شامی دہشتگردوں کے لئے اپنی بہنوں کے ساتھ "جہادالنکاح” کی اجازت کا فتویٰ جاری کر دیا ہے۔ اس تکفیری شیخ کا کہنا ہے کہ جہادالنکاح” کے فتاویٰ کو بہت تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، لیکن شام میں جو بیگناہ عورتیں اور بچے ہلاک ہو رہے ہیں، ان کے بارے میں کوئی بات کرنے کو بھی تیار نہیں۔
بعض معتبر ذرائع کے مطابق مفتی شیخ ناصر العمر نے سٹیلائیٹ ٹی وی چینل "وصال” پر خطاب کرتے ہوئے جہادالنکاح” کے فتوے پر تنقید کرنے والوں سے شدید گلہ کیا۔ یاد رہے کہ سٹیلائیٹ ٹی وی چینل "وصال” شام کے تکفیری اور شدت پسند دہشتگرد گروہوں کا ہم خیال تصور کیا جاتا ہے۔ مفتی شیخ ناصر العمر کا مزید کہنا تھا کہ بعض افراد ان فتاویٰ پر شدید تنقید کر رہے ہیں جو بقول ناصر العمر کے مجاہدین کو جہاد نکاح کی اجازت دیتے ہیں، لیکن یہی افراد شامی فوجوں کی طرف سے شام میں قتل عام کیخلاف بات نہیں کرتے اور نہ ہی اس کی مذمت کرتے ہیں۔
اسلام ٹائمز کے مطابق ناصر العمر نے مزید کہا ہے کہ شام میں مجاہدین نامحرم مجاہد خواتین کی عدم موجودگی کی صورت میں اپنی محرم خواتین کے ساتھ جہاد نکاح کرسکتے ہیں۔ اس وہابی شیخ نے اپنے اس عجیب و غریب فتوے میں واضح اعلان کیا ہے کہ نامحرم خواتین تک دسترسی نہ ہونے کی صورت میں شامی مجاہدین اپنی محرم خواتین اور بہنوں سے "جہاد نکاح” کرسکتے ہیں۔دیگر ذرائع نے بھی یہ خبر دی ہی کہ سعودی عرب کے درباری تکفیری شیوخ نے ایک نیا فتویٰ دیا ہے، جس کی رو سے شام میں سرگرم عمل دہشتگرد اپنے محرم افراد جہاد النکاح کے ذریعے جنسی تعلقات قائم کرسکتے ہیں۔ بہر حال جیسا کہ عرض کیا گیا کہ سعودی درباری مفتی اپنے جاہلانہ فتووں کی وجہ سے مشہور ہیں اور نہ جانے کب تک وہ اپنے ان فتووں کے ذریعے اسلام کی بدنامی کا باعث بنتے رہیں گے۔ البتہ یہ بات مسلم ہے کہ ان فتووں کا ماخذ قرآن و سنت نہیں ہے بلکہ یہ فتوے وھائیٹ ہاؤس کے احکامات کی روشنی میں تیار کئے جاتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button