سعودی عرب

سعودی جیلوں میں موت کی سزا پانے والے قاتلوں کو شام میں جاکر لڑنے کی پیشکش کی جاتی ہے

dehsatgardسعودی جیلوں میں موت کی سزا پانے والے قاتلوں کو شام میں جاکر لڑنے کی پیشکش کی جاتی ہے اور اگر وہ یہ پیشکش قبول کریں تو وہابی عدالتیں لوگوں کا خون انہيں بخشتے ہوئے انہيں معاف کرتے ہيں اور شام کے عوام کا قتل عام کرنے کے لئے ترکی کے راستے شام میں بھجوادیا جاتا ہے۔
 رپورٹ کے مطابق، سعودی وزارت داخلہ کی ایک نہایت خفیہ (Top Secret) دستاویز فاش ہوئی ہے جس میں اس وزارتخانے کے خفیہ شعبے میں سرگرم سعودی اہلکار "میجرجنرل سعود الثيان” نے ان قاتلوں، ڈاکؤوں، جرائم پیشہ افراد اور زنائے محصنہ کے مرتکبین کے لئے عام معافی کی منظوری دی گئی ہے جو سرکاری پیشکش پر درندگی کا شوق پورا کرنے اور عوام کا قتل عام کرنے یا فوج کے خلاف لڑنے کے لئے شام جانے کے لئے تیار ہوتے ہیں۔
اس دستاویز کا تعلق 17 اپریل 2012 سے ہے اور اس میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ وزارت خارجہ کے متعلقہ اہلکار ان قیدیوں سے رابطے کرچکے ہيں جنہیں منشیات اسمگلنگ، قتل اور زنا بالجبر کے جرم میں پھانسی کی سزا سنائی جاچکی ہے اور اس حوالے سے مفاہمت بھی ہوچکی ہے۔ یہ مجرمین مختلف ممالک سے تعلق رکھتے ہیں۔
اس فہرست میں 105 یمنی شہری، 21 فلسطینی، 212 سعودی، 96 سوڈانی، 254 شامی، 82 اردنی، 68 صومالیائی، 32 افغانی، 194 مصری، 203 پاکستانی، 23 عراقی اور 44 کویتی شامل ہیں اور اس دستاویز کے مطابق ان افراد سے مفاہمت ہوئی ہے کہ وہ شام بھجوائے جانے کے لئے دہشت گردی کی تربیت حاصل کرنے کی شرط پر موت کی سزا سے چھٹکارا پائیں گے۔
ادھر ان افراد کے اہل خانہ کو بھی یرغمال کے طور پر سعودی عرب میں ہی رکھا جارہا ہے اور اس دستاویز میں لکھا گیا ہے کہ شام جانے والے افراد کو اہل خانہ کو ماہانہ اخراجات ادا کئے جاتے رہیں گے بشرطیکہ وہ سعودی عرب میں قیام پذیر رہیں؛ بالفاظ دیگر ان افراد کو بلادالحرمین میں یرغمال رکھا جائے گا حتی کہ سعودی وزارت خارجہ کو یقین ہوجائے کہ ان کے عزیز شام میں لڑرہے ہیں اور آل سعود کے ساتھ کئے ہوئے عہد کے پابند ہیں۔

paper

متعلقہ مضامین

Back to top button