سعودی عرب

شیعہ عالم دین کے گھر پر فائرنگ/ سیاستدان کے اہل خانہ گرفتار

Shiite Muslims in Saudi Arabia Under Critical Conditionsعربستان کے مشرقی علاقے میں احتجاج جاری ہے تو ساتھ ساتھ گرفتاریوں کا سلسلہ بھی جاری ہے اور آل سعود سے وابستہ افراد نے ایک عالم دین کے گھر پر فائرنگ کردی۔
آل سعود کے خلاف 2011 کے آغاز سے شروع ہونے والی عوامی تحریک اور آل سعود کے کرتوتوں کی  مفصل معلومات و اطلاعات قارئین اور صارفین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں:
ـ شیعہ عالم دین کے گھر پر نامعلوم مسلح افراد کی فائرنگ
منطقۃالشرقیہ کے شہر القطیف میں منگل (27 دسمبر 2011) کو نامعلوم مسلح افراد نے اس علاقے میں واقع "الجش” نامی بستی میں ایک شیعہ عالم دین "شیخ منصور الطاہر” کے گھر پر فائرنگ کردی۔
رپورٹ کے مطابق شیخ الطاہر کے قریبی ذرائع نے العالم کو بتایا ہے کہ منگل کے روز رات بارہ بجے مسلح افراد نے مختلف قسم کے ہتھیاروں سے شیخ الطاہر کے گھر پر فائرنگ کردی اور شیخ الطاہر کے بیٹے کی کار کو بھی فائرنگ کا نشانہ بنایا۔ 
اطلاعات کے مطابق آل سعود کی سیکورٹی فورسز سے وابستہ افراد کے اس حملے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا
دریں اثناء آل سعود کی سیکورٹی فورسز کے افسر لیفٹننٹ کرنل زیاد رقیطی نے کہا کہ "ایک شہری نے شکایت کی ہے کہ ان کے بیٹے کی گاڑی نامعلوم افراد کی فائرنگ کا نشانہ بنی ہے، انھوں نے کہا کہ مذکورہ گاڑی شکایت کرنے والے شہری کے گھر کے سامنے رکی ہوئی تھی اور یہ کہ اس شکایت پر سرکاری کاروائی عمل میں آگئی ہے۔”۔
سعودی افسر نے سرکاری کاروائی کی تفصیل نہیں بتائی اور یہ بھی نہیں بتایا کہ آل سعود کی عملداری میں سرکاری فورسز کے سوا کسی کے پاس ہتھیار نہیں ہوتے۔
بعض مبصرین نے کہا ہے کہ یہ حملے سرکاری فورسز کی طرف سے منظم انداز میں ہورہی ہیں اور ان کا مقصد علماء اور عوام میں خوف و ہراس پھیلانا اور عوام کو آل سعود کے خلاف احتجاج کرنے سے روکنا ہے۔
ــ سعودی عرب: آل سعود کے مخالفین بیرون ملک جانے سے محروم / سیاستدان کے اہل خانہ گرفتار
آل سعود مخالف سیاستدان کے اہل خانہ کو منطقۃالشرقیہ کے شہردمام کے ملک فہد بین الاقوامی ہوائی اڈے سے گرفتار کرکے بیرون ملک سفر کرنے سے روکا گیا۔
اطلاعات کے مطابق آل سعود مخالف اور ملک میں سیاسی اصلاحات اور تبدیلیوں کے حامی سیاستدان احمد محمد آل الربح کے اہل خانہ کو الدمام ائیرپورٹ سے بیرون ملک جاتے ہوئے گرفتار کیا گیا اور انہیں بیرون ملک نہیں جانے دیا گیا۔ 
احمد محمد آل الربح نے ٹویٹر سماجی ویب سائٹ پر اس خبر کی تصدیق کی ہے۔
ابھی تک آل سعود کی طرف سے آل الربح کی اہلیہ سے ہونے والی تفتیش کی نوعیت اور اہہیں ممنوع الخروج قرار دینے والے سعودی فرمان کے بارےی میں تقصیلات سامنے نہیں آئي ہیں۔ 
احمد آل ربح اس عرب ملک کی ایک سیاسی جماعت "جمعیت ترقی و تغییر” کے سربراہ ہیں اور اب ہزاروں دیگر عربوں کی مانند ان کے گھر والے بھی اس طویل و عریض فہرست میں درج ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں جن کو آل سعود نے مختلف حیلوں بہانوں ميں بیرون ملک چلے جانے سے منع کیا ہے۔ 
ذرائع کے مطابق سعودیوں نے لاکھوں افراد کو ای سی ل میں قرار دیا ہے اور یہ مسئلہ اس ملک کے پیجيدہ کیسز میں شمار کیا جاتا ہے کیونکہ اي سی ایل میں شامل افراد کو کبھی یہ معلوم نہیں ہوسکا ہے کہ وہ بیرون ملک سفر سے منع کیوں کئے گئے ہیں۔
احمد محمد آل الربح نے اپنی جماعت حال ہی میں بیرون ملک تشکیل دی ہے۔
ــ سعودی عرب میں انسانی حقوق کی پامالی؛ بین الاقوامی ادارے مداخلت کریں
ایک سیاسی راہنما نے نے آل سعود کی سیکورٹی ایجنسیوں کی طرف سے معترضین پر تشدد کے حوالے سے بین الاقوامی اداروں اور بیرونی ذرائع ابلاغ سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنی نگران ٹیمیں اس ملک میں روانہ کریں تا کہ وہ قوم پر آل سعود کے مظالم کا قریب سے مشاہدہ کریں۔
اطلاعات کے مطابق جزیرہ نمائے عرب کے سیاستدان اور جمعیت ترقی و تغییر کے سربراہ، احمد آل ربح نے کہا ہے کہ آل سعود کی فورسز نے ایک بار پھر العوامیہ کے عوام پر اندھادھند فائرنگ کی ہے۔
آل الربح نے العالم کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آل سعود کی حکومت نہتے اور بےگناہ شہریوں کو قتل کرنا چاہتی ہے جبکہ یہ شہری اور احتجاجی مظاہروں میں شرکت کرنے والے شہریوں کے پاس خالی ہاتھوں کے سوا کوئی ہتھیار نہیں ہے۔
انھوں نے کہا: ال سعود کی فورسز احتجاجی تحریک کو خاموش نہیں کرسکتیں اور کبھی وہ عوام کو مشتعل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔
انھوں نے کہا: آل سعود کا خیال ہے کہ بڑی تعداد میں مسلح افواج اور مختلف ہتھیاروں کی تعیناتی، چیک پوسٹس اور ناکے لگانے نیز رہائشی علاقوں کا محاصرہ کرنے کے ذریعے العوامیہ میں احتجاجی تحریک کو دبایا جاسکے گا اور انھوں نے یہی کام دارالحکومت ریاض میں بھی کیا ہے تا کہ عوام کوئی مظاہرہ نہ کرسکیں اور اپنے حقوق کا مطالبہ نہ کرسکیں۔
انھوں نے آل سعود کو واقعات و حادثات کو سنسر کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا: سعودی فورسز العوامیہ کے عوام کے گھروں پر حملے کرتی ہیں، چادر اور چاردیواری کے تقدس کو پامال کرتی ہيں اور لوگوں کی ناموس پر مجرمانہ حملے کرتی ہیں اور ان کے گھروں سے چوری کرتی ہیں۔ 
انھوں نے کہا: آل سعود کی حکومت ان حقائق کی تردید کرتی ہیں لیکن اگر وہ سچ بولتی ہے تو بین الاقوامی اداروں اور ذرائع ابلاغ کو اپنی سرزمین میں آنے کی اجازت کیوں نہیں دیتی تا کہ وہ آکر حقائق کی درست عکاسی کریں اور دنیا والے بھی جان لیں کہ سعودی حکومت عوام کے ساتھ کیا سلوک روا رکھ رہی ہے۔
انھوں نے کہا: آل سعود نے دارالحکومت میں فوج تعینات کرکے وقتی طور پر عوام کی صدا بند کردی ہے لیکن العوامیہ کے عوام موت سے ڈرنا بھول گئے ہیں چنانچہ اس علاقے میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ گذشتہ گیارہ مہینوں سے جاری ہے اور لوگ اپنے جائز مطالبات پر اصرار کررہے ہیں۔ 
انھوں نے کہا: حال ہی میں 60 مفکرین اور دانشوروں نے اپنے مفصل بیان میں واضح طور کہا ہے کہ سعودی وزارت داخلہ کے گماشتے عوام کو گولیوں کا نشانہ بناتے ہیں۔
آل ربح نے العالم چینل کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے برطانیہ کے انسانی حقوق کمیشن کے نائب سربراہ ـ جو اسی وقت سعودی عرب میں انسانی حقوق کی پامالی کے حوالے سے العالم کو انٹرویو دے رہے تھے ـ سے اپیل کی کہ وہ انسانی حقوق کے سرگرم افراد اور ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کی ایک ٹیم کے ساتھ مل کر منطقۃ الشرقیہ کے مختلف شہروں کا دورہ کریں اور اپنی آنکھوں سے سڑکوں اور راستوں پر تعینات ٹینکوں، بکتر بند گاڑیوں اور بھاری فوجی گاڑیوں کا قریب سے مشاہدہ کریں۔
آل ربح نے الشرقیہ کے علاقے میں مذہبی اور قومی امتیازات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ العوامیہ اور القطیف اور منطقۃ الشرقیہ کے دیگر شیعہ اکثریتی علاقوں میں اہل تشیع کو ایک بھی سرکاری عہدہ نہیں دیا جاتا، کسی ادارے یا وزارتخانے کی ذمہ داری اہل تشیع کو نہیں دی جاتی حتی کہ اسکولوں کے پرنسپل اور ہیڈماسٹر کا عہدہ بھی انہیں دینے سے گریز کیا جاتا ہے۔
آل الربح نے شیخ یوسف الاحمد اور شیخ توفیق العامر کی اسارت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: بہت سے افراد گذشتہ 16 برسوں سے پابند سلاسل ہیں اور ان پر ابھی تک مقدمہ نہیں چلا ہے جبکہ ان افراد کا واحد جرم یہ ہے کہ وہ ملک میں پارلمانی نظام کے قیام اور سرکاری اہلکاروں کے براہ راست عوامی انتخاب کے خواہاں ہیں۔ 
انھوں نے کہا: ہمیں یقین ہے کہ آل سعود کے حکمران برطانیہ کے انسانی حقوق کمیشن کے وفد کو اپنے ملک میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دیں گے کیونکہ سعودی حکومت ہرگز قبول نہیں کرتی کہ کوئی آ کر ان کے ہاتھوں پامال ہونے والے انسانی حقوق کی نگرانی نہ کرسکے تاہم عوامی اپنی احتجاجی تحریک کو جاری رکھنے کا عزم کئے ہوئے ہیں اور یہ تحریک مقاصد کے حصول تک جاری رہے گی۔ 
انھوں نے آل سعود سے مطالبہ کیا کہ سیاسی جماعتوں کی آزادہ فعالیت کے لئے قانون سازی کرے اور ہماری درخواست یہ ہے کہ ایسا قانون نافذ ہوجائے جس میں سیاسی جماعتوں کو آزادانہ کام کرنے کا حق دیا جائے اور بیرون ملک سے آنے والے سیاستدانوں کو گرفتار نہ کیا جائے۔ 
ــ سعودی عرب: العوامیہ میں مسجد سے نکلتے ہوئے جوانوں پر فائرنگ بچے سمیت تین افراد زخمی
آل سعود کے اہلکاروں نے منطقۃالشرقیہ میں سات افراد کی رہائی کا اعلان کرنے کے صرف ایک دن بعد، فائرنگ کرکے ایک بچے سمیت تین افراد کو زخمی کردیا۔
اطلاعات کے مطابق آل سعود کے گماشتوں نے مسجد ابوالفضل علیہ السلام میں نماز ادا کرکے باہر نکلنے والے افراد پر بلااشتعال فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں دو نوجوان اور "زکریا عریف” نامی ایک بچہ زخمی ہوئے۔
زکریا عریف مسجد میں نماز پڑھنے کے بعد اسکول جانے کے لئے باہر نکلا تھا لیکن سعودیوں نے اس کو اسپتال بھجوادیا۔
زکریا عریف کی حالت نازک بتائی گئی ہے گو کہ ڈاکٹروں نے اس کے پیٹ سے گولی خارج کردی ہے۔
بچے کے گھر والوں نے بتایا کہ آل سعود کے گماشتے زخمی بچے کو ظہران منتقل کرنا چاہتے تھے کیونکہ بچے کے خلاف اس وحشیانہ اقدام سے سعودی گماشتوں کی اپنی جان کو خطرہ لاحق ہوسکتا تھا لیکن بچے کے والدین کے اصرار پر اس کو القطیف کے مرکزی اسپتال منتقل کیا گیا۔ 
اطلاعات کے مطابق دو نوجوانوں کو پیٹ اور پیروں میں گولیاں لگی ہیں انہیں ابتداء میں القطیف کے اسپتال میں منتقل کیا گیا تھا لیکن سعودی گماشتے انہیں اٹھا کر فوجی اسپتال میں لے گئے ہیں۔ 
آل سعود کے گماشتوں کی طرف سے ظلم و جبر اور انسانی حقوقی کی اعلانیہ پامالی کی وجہ سے علاقے کے نوجوانوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔
آل سعود کی سیکورٹی فورسز نے اکتوبر کی ابتداء سے اب تک کئی مرتبہ منطقۃالشرقیہ میں اندھادھند فائرنگ کی ہے اور یہ سلسلہ ہر روز اور ہر شب جاری ہے اور الشرقیہ کا علاقہ راتوں کو تو باقاعدہ وارزون لگتا ہے اور بچوں اور بوڑھوں کو خاص طور پر آزار و اذیت کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ 
جمعیت ترقی و تغییر نے اس صورت حال پر احتجاج کی غرض سے علاقے کے نوجوانوں کو ریلیوں اور مظآہروں کی دعوت دی ہے۔ ان مظاہروں میں العوامیہ کے سرکاری محاصرے اور نہتے باشندوں پر سعودیوں کی فائرنگ کے خلاف احتجاج کرنا ہے۔ 
ــ سعودی عرب: آل سعود کے ہاتھوں شیعہ علاقوں میں گرفتاریاں جاری 
آل سعود کے گماشتوں "مفید حمد آل ہنیدی” کو اغوا کرکے خفیہ مقام پر منتقل کردیا ہے۔ 
اطلاعات کے مطابق آل سعود کے گماشتوں نے منگل کے روز علاقے کے ایک فعال سیاسی و سماجی کارکن "مفید حمد آل ہنیدی” کو اغوا کرکے کسی خفیہ مقام پر منتقل کیا ہے۔ عین شاہدین کے مطابق انہیں اغوا کرنے سے قبل شہریوں کے لباس میں ملبوس سعودی گماشتوں نے ان کی گاڑی کی تلاشی لی اور پھر انہیں اپنی گاڑی میں ڈآل کر چلے گئے۔ 
آل سعود نے معمول کے مطابق اس نوجوان کے اہل خانہ کو ان کی گرفتاری کے اسباب اور مقام اسارت کے بارے میں کچھ بتانے سے پہلو تہی کی اور نوجوان کو بھی اپنے اہل خانہ سے رابطہ کرنے کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔ 
آل ہنیدی کی گرفتار کی خبر بدھ کے روز ان کے ایک رفیق کار نے شائع کی ہے جو گرفتاری سے قبل ان کے ہمراہ تھا۔ 
دریں اثناء بعض اس شخص نے بتایا ہے کہ آل سعود کے گماشتوں نے آل ہنیدی کو شہر سے بہت دور ایک سنسان سڑک پر گاڑی سے پھینک دیا جبکہ شدید سردی پڑ رہی تھی اور الہنیدی بڑی مشکل سے رات کی تاریکی میں پائے پیادہ العوامیہ کی طرف روانہ ہوئے اور رات گئے العوامیہ پہنچ گئے۔
آل ہنیدی کے العوامیہ لوٹنے کی خبر کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔
ــ آل سعود عوامی تحریک اور بیرونی مداخلت کا مضحکہ خیز دعوی
جزیرہ نمائے عرب کے عوام کو بھی اپنا حق مانگنے کا پورا پورا حق ہے چنانچہ وہ اٹھ چکے ہیں لیکن گویا سعودی حکمران اب بھی جھوٹ کے سہارے عوام کو دھوکہ دینے کی امید لئے بیٹھے ہیں اگرچہ 2012 کی آمد پر عرب عوام کا سیاسی شعور 2011 کے آغاز سے قابل قیاس ہی نہیں ہے۔
ذرائع کے مطابق سعودی خاندان کی عملداری میں رہنے والے کروڑوں عوام بھی عرب دنیا کی بہار انقلاب سے الہام لے کر اپنے حقوق حاصل کرنا چاہتے ہیں اور ان میں وہ لوگ تو ابتدائے سال سے بیٹھے ہی نہیں ہیں جو موت سے ڈرنا گویا جانتے ہی نہیں ہیں لیکن آل سعود نے احتجاجی تحریک کو کـچلنے کی غرض سے، دستاویز حاصل کرنے کے لئے اس تحریک میں بیرونی مداخلت کا دعوی کیا ہے۔
الشرق الاوسط لیگل اور اسٹریٹجک مرکز کے سربراہ نے بھی ایسے ہی دعوے کئے اور کہا کہ سعودی عرب میں تناؤ امت اسلامی کی تباہی و بربادی کا سبب بنے گا۔
اس سے قبل آل خلیفہ خاندان نے بحرین کے عوامی انقلاب کو بیرونی مداخلت کا نتیجہ قرار دینے کی کوشش کی تھی لیکن حتی اس دعوے کی تصدیق بادشاہ کی اپنی تحقیقاتی ٹیم بھی نہ کرسکی۔ 
الشرق الاوسط کے سعودی سربراہ "انور عشقی” کا کہنا تھا کہ القطیف اور العوامیہ کی تحریک بیرونی مداخلت کا نتیجہ ہے اور الشرقیہ کے عوام ملک میں تناؤ کے خواہاں ہیں۔ 
نام نہاد "لیگل اینڈ اسٹریٹجک مرکز” کے سربراہ نے منطقۃالشرقیہ میں آل سعود کی فورسز کے تشدد، قتل و غارت اور گرفتاریوں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ "بعض موٹر سائیل سواروں نے سرکاری فورسز پر فائرنگ کی تھی”۔ 
انھوں نے سعودی اذیتکدوں میں 30 ہزار سے زائد سیاسی قیدیوں کے بارے میں کچھ کہنے سے انکار کیا اور سیاسی آزادیوں کے مطالبے پر قید کئے جانے والے اسیروں کو فتنہ انگیزی کے حوالے سے مورد الزام ٹہرایا اور دسیوں برسوں سے بغیر مقدمے حبس بے جا میں رہنے والے قیدیوں کو بھی مجرم قرار دیا۔
ان سے اسیر عالم دین شیخ توفیق العامر جیسے متعدد راہنماؤوں کو مقدہ چلائے بغیر قید میں رکھنے کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں ان راہنماؤں پر بھی فتنہ انگیزي کا الزام لگایا لیکن جب ان سے القطیف، العوامیہ، الصفوان اور دوسرے شہروں اور قصبوں میں عوام کے پر امن مظاہروں کے اسباب کیا ہیں اور یہ کہ الشرقیہ کے مختلف علاقوں میں مساجد کی بندش اور حجاز و نجد و الشرقیہ کے شیعیان آل محمد (ع) اور آل سعود کے مخالفین کے خلاف وہابی مفتیوں کے عجیب و غریب فتووں کے بارے میں پوچھا گیا تو عشقی صاحب کی زبان بند ہوگئی اور کچھ نہ کہہ سکے۔ 
انور عشقی نے دعوی کیا کہ "آل سعود کی حکومت نے گذشتہ پانچ برسوں کے دوران 4500 شیعہ افراد کو شہریت عطا کی ہے!!” جبکہ آل سعود نے 30 لاکھ شیعیان آل محمد (ص) کو ہر قسم کے سماجی حقوق سے محروم کررکھا ہے اور شیعہ اکثریتی علاقوں کے تیل سے سعودی شہزادے ارب پتی ہوگئے ہیں؛ اور تو اور، ایک سعودی مفتی الحذیفی نے اکتوبر 2011 میں شیعیان حجاز کو عراق ہجرت کرنے کا مشورہ دیا تھا:

متعلقہ مضامین

Back to top button