سعودی عرب

سعودی عرب : کارچلانےکےجرم میں خاتون کو دس کوڑوں کی سزا

shiitenews saudi womenایمنیسٹی انٹر نیشنل کے نائب "فلپ لوتھر” نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے: کوڑے نہایت سخت سزا ہے لیکن کسی کو بھی یقین نہیں آتا کہ سعودی حکام نے ایک بے بنیاد بہانے یعنی گاڑی چلانے کی پاداش میں ایک خاتون کو کوڑوں کی سزا کیوں سنائی ہے۔
 رپورٹ کے مطابق ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق سعودی بادشاہ کی طرف سے خواتین کو حق رائے دہی دینے کے اعلان کے صرف دو روز بعد ایک خاتون کو اس جرم میں 10 کوڑوں کی سزا سنائی گئی ہے جس کو گاڑی چلاتے ہوئے گرفتار کیا گیا تھا۔ 
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے نائب "فلپ لوتھر” نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے: کوڑے نہایت سخت سزا ہے لیکن کسی کو بھی یقین نہیں آتا کہ سعودی حکام نے ایک بے بنیاد بہانے یعنی گاڑی چلانے کی پاداش میں ایک خاتون کو کوڑوں کی سزا کیوں سنائی ہے۔
لوتھر صاحب کو یقین کیوں نہیں آتا یہ تو وہ خود بتائیں گے لیکن اگر وہ سعودی حکومت کے کرتوتوں کا صحیح جائزہ لیتے اور امریکہ کے زیر اثر سعودی عرب اور دیگر اسلامی ممالک میں سعودیوں کے ہاتھوں بالواسطہ اور بلاواسطہ ہزاروں اور لاکھوں انسانوں کے قتل عام کی داستانوں کو توجہ دیتے تو شاید اس بات کا بھی وہ آسانی سے یقین کرلیتے! اب تو انھوں نے جس انداز سے سوال اٹھایا ہے اس سے تو یوں ظاہر ہوتا ہے کہ گویا مطلق العنان سعودی استبداد ایک نہایت معصوم انسان دوست اور انسانوں بالخصوص عورتوں کے تمام حقوق دینے والی حکومت ہے بس یہ چھوٹی سی غلطی اس سے سرزد ہوئی ہے جس کی آل سعود سے توقع نہیں تھی!۔
لوتھر صاحب بھی شاید عورتوں کے حق رائے دہی سے تھوڑے بہت جذباتی ہوکر کہتے ہیں: ” بادشاہ سلامت کا یہ فرمان خوشایند اور خوشی کا باعث ہے” لیکن ان کے بقول اگر یہ اعلان ہونے کے دو ہی روز بعد ایک خاتون کو ڈرائیونگ کے جرم میں کوڑوں کی سزا سنائی جائے تو بادشاہ کا یہ فرمان بے اثر ہوگا۔ جبکہ دو دیگر خواتین اسی جرم میں گرفتار ہوئی ہیں اور ان کو بھی اسی قسم کی سزا کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
یاد رہے کہ سعودی عرب میں خواتین کی ڈرائیونگ پر پابندی کا کوئی قانون موجود نہیں ہے لیکن عورتوں کو ڈرائیونگ لائسنس نہیں دیا جاتا یہ الگ مسئلہ ہے کہ کیا بغیر لائسنس ڈرائیونگ کی پاداش میں کوڑوں کی سزا دینی چاہئے کیا وہابی قاضیوں کے پاس اپنے ان غیر انسانی احکام کے لئے کوئی خاص منبع ہے جو دوسروں کے پاس نہیں ہے؟
رائٹرز نے رپورٹ دی ہے کہ خاتون کو یہ سزا ایسے حالات میں سنائي گئي ہے کہ سعودی بادشاہ عبداللہ بن عبدالعزیز نے خواتین کو سنہ دو ہزار تیرہ میں ہونے والے انتخابات میں نامزد ہونے اور حق رائے دہی استعمال کرنے کی اجازت دے دی ہے۔
واضح ر ہے کہ سعودی عرب کے قوانین کے مطابق خواتین اپنے سرپرست کی اجازت سے ہی کچھ فعالیت انجام دے سکتی ہیں بلکہ غیر ملکی سفر اور آپریشن کرانے کے لئے بھی ان کو اپنے سر پرست کی اجازت لینی پڑتی ہے۔ 
قابل ذکر ہے کہ سعودی حکام نے بائيس مئی کو ایک خاتون ڈرائیور منال شریف کو اس وجہ سے گرفتار کرلیا تھا کہ سعودی عرب کے مشرقی شہر الخبر میں ڈرائیونگ کرتے ہوئے اس کی تصویر یو ٹیوب پر نشر ہوگئي تھی۔

متعلقہ مضامین

Back to top button