سعودی عرب

سعودی عرب کوجمہوریت کی حمایت زیب نہيں دیتی

shiite news saudi wahabi democracyسعودی عرب کےبادشاہ ملک عبداللہ نےایسےعالم میں شام میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی پراعتراض کیاہےکہ خود سعودی شہری بنیادی ترین انسانی، سماجی اورمذہبی حقوق سےمحروم ہيں ۔ کوئی اورنہيں خود سعودی عرب کااتحادی ملک امریکہ بھی اس سنگین مسئلےکوچھپانہيں پارہاہے جواس ملک کےپورےآمرانہ نظام کواپنااسٹریٹیجک اتحادی بنائےبیٹھا ہے اوراس کی حمایت وتائید کررہاہے۔ امریکی ماہنامہ فارن پالیسی نےاپنی حالیہ اشاعت میں لکھاہےکہ سعودی عرب ایک ایساملک ہےجس میں باقاعدہ منصوبہ بندی سےانسانی حقوق پامال کئےجاتےہیں۔
انسانی حقوق ایک ایسی اصطلاح ہےجس کادائرہ نہایت وسیع ہے۔ انسانی افکارو نظریات اوراس پرعمل انسان کاایک فطری عمل ہے جسےہرمعاشرےکابنیادی حق سمجھاجاتاہے لیکن سعودی عرب ایک ایساملک ہےجہاں اس ملک کی سب سےبڑی اقلیت کواپنےمذہبی فرائض انجام دینےکی آزادی حاصل نہيں ہے چاہےوہ مسجدکی تعمیر اور اس ميں نمازکی ادائگی ہی کیوں نہ ہو جبکہ اسلام نےآج سےتقریباساڑھےچودہ سوبرس قبل جزیرۃ العرب میں ہی یہ اعلان کردیاتھاکہ تمھارےلئےتمھارا دین ہمارےلئےہمارا دین قرآن کریم کےاس جملہ سےصاف ظاہرہےکہ اسلام نےدین کی تبلیغ کابےشک حکم دیاہےلیکن زور زبردستی کےذریعےکسی دین ومذہب کےماننےوالوں کواپنےدین پرعمل کرنےسےنہيں روکا ہےایسےعظیم اوروسیع النظردین کی پیروی کےدعویدار، کسی مذہب کےماننےوالوں کودینی فرائض پرعمل کرنےسےکس طرح روک سکتےہیں ۔لیکن ساری دنیاجانتی ہےکہ سعودی عرب میں شیعہ مسلمانوں کونہ صرف یہ کہ مسجدیں بنانےکی اجازت نہيں ہےبلکہ ان کی قدیمی مساجد کوبھی بعض اوقات شہیدکردیاجاتاہے اورنمازجماعت پرپابندی توعام بات ہے۔ ابھی گذشتہ مہینوں میں متعدد خبریں موصول ہوئی تھیں جن میں شیعہ مساجد میں نمازجماعت پرپابندی عائدکردی گئی ہے۔ سعودی عرب میں مذہبی پابندی ہی نہيں بلکہ سماجی اورسیاسی سرگرمیوں پربھی پابندی ہےجس کی متعدد مثالیں موجودہیں۔ابھی گذشتہ مہینے ایک خاتون کوگرفتارکرکےاس لئےجیل میں ڈال دیاگیاتھاکہ اس نےاپنی گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پربیٹھ کراسےڈرائیو کرنےکی جرات کی تھی۔ پولیس نےاس خاتون کےاس اقدام کوسعودی معاشرےکےمنافی اور خواتین کےتحفظ کےلئےضروری قراردیاتھاجبکہ خواتین کاکہناہےکہ وہ خود ڈرائیونگ کی صورت میں زیادہ محفوظ ہیں۔ 
ایک ایسا ملک جہاں پرانسانی حقوق کایہ عالم ہےوہاں کےبادشاہ نےچند روز پہلے شام پرانسانی حقوق کی پامالی کاالزام لگاتےہوئےنہ صرف اپنا سفیرواپس بلالیابلکہ اپنےزيراثربعض عرب ملکوں پربھی اپنےسفیروں کوواپس بلانےکادباؤ ڈالا ۔ سعودی عرب کے بادشاہ نےشام کےصدربشاراسد کونصیحت کی ہےکہ وہ شہریوں کےحقوق کااحترام کریں۔بشاراسد کوسعودی بادشاہ نےیہ نصیحتیں اور ہدایات ایسےعالم میں کی ہیں کہ سعودی عرب میں انسانی حقوق کی پامالی عروج پرہے۔ سعودی عرب ایک ایسا ملک ہے جہاں صرف ایک الیکشن ہوتاہے اور وہ بھی بلدیہ کا، بلدیہ کےانتخابات بھی آزادانہ نہيں ہوتےاورتمام شہری اس میں حصہ نہيں لیتےجبکہ خواتین کواس میں امیدوار ہونےکی اجازت ہی نہيں ہے۔ سعودی عرب میں سارااقتدار واختیار بادشاہ کےہاتھ میں ہوتاہے اور صرف بادشاہ کوافراد کومختلف عہدوں پرمنصوب کرنےکاحق ہوتاہےاور کسی بھی مسئلےمیں صرف بادشاہ کوآخری فیصلہ کرنےکاحق ہوتاہے۔اورصرف آل سعود خاندان کےافراد ہی اہم عہدوں پرفائزہونےکاحق رکھتےہیں۔
اگرچہ سعودی عرب میں پارلیمنٹ موجود ہےلیکن اس ملک میں پارلیمانی انتخابات نہيں ہوتےبلکہ پارلیمنٹ کےتمام ایک سوپچاس اراکین کوبادشاہ منصوب کرتاہے دوسرےلفظوں میں یہ کہاجاسکتاہےکہ سعودی عرب میں پارلیمنٹ کاتقسیم اقتدار اورملک کےسیاسی سماجی واقتصادی فیصلوں میں کوئي کردار نہيں ہوتا۔آل سعود کےتمام مخالفین صرف ملک سےباہرہی رہ کرسیاسی سرگرمیاں انجام دےسکتےہيں انھیں ملک میں کسی طرح کی فعالیت کی اجازت نہيں یعنی درحقیقت سیاسی طورپرمخالف ہونےکی بناپر ہی وہ جلاوطنی کی زندگی گذارنے پرمجورہیں ۔ سعودی عرب میں کوئی سیاسی پارٹی نہيں یعنی سیاسی پارٹی تشکیل دینےکی کسی کواجازت نہيں ہے ۔اس ملک کی سب سےبڑی شیعہ اقلیت کوطرح طرح کےمسائل ومشکلات کاسامناہے انھیں نہ صرف ہرسطح پرنظراندازکیاجاتاہےبلکہ مذہبی امور بھی کھل کرانجام دینےکی اجازت نہيں ہے جبکہ وہ معاشی طور پربھی پسماندہ بنادیئےگئے ہیں ۔
احتجاج ، تنقید ، وغیرہ کی سعودی عرب میں کوئي گنجائش نہيں ہے اس ملک کی شاہی حکومت معمولی احتجاج اورتنقید پربھی شدیدردعمل ظاہرکرتی ہے اوراحتجاج ومظاہرہ کرنےوالوں کوفورا گرفتارکرلیتی ہےخواتین کومعمولی انسانی حقوق بھی حاصل نہيں ہیں۔ خواتین کو ڈرائیونگ اوراپنےشوہروں کےبغیرسفریا سیروتفریح کی اجازت نہيں ہے، انھیں ووٹ دینے اور اپنی من پسندشادی کرنےتک کی اجازت نہيں ہے۔
سعودی عرب میں انسانی حقوق کی منظم خلاف ورزی کی ایسےعالم میں فارن پالیسی ماہنامہ نےرپورٹ شائع کی ہےکہ سعودی عرب مشرق وسطی کےعلاقےمیں امریکہ کا ایک اسٹرٹیجک اتحادی ہے۔ اس بنا پروہاؤٹ ہاؤس انسانی حقوق کےافسوس ناک مسئلےپر سعودی عرب کونہ صرف تنقید کانشانہ نہيں بناتابلکہ بحرین میں اس کی لشکرکشی اوربےگناہ نہتھےعوام کےقتل عام اورسرکوبی کوکھلی چھوٹ دےرکھی ہے لیکن شام جوتحریک آزادی فلسطین میں آگےآگےہے اور ہرطرح سےمظلوم فلسطینی عوام کی مدد کررہاہے وہاں اگرکچہ عناصر بیرونی طاقتوں کےاشارےپربدامنی پھیلائيں اورایک ہی حملےمیں سوسےزیادہ سیکورٹی اہلکاروں کوہلاک کردیں اورحکومت امن وامان بحال کرنےکےلئےاقدامات کرےتو سعودی عرب اپنےسفیروں کوواپس بلالیتاہے جواس بات کاثبوت ہےکہ یہ اقدام انھیں طاقتوں کےاشارےپرانجام پایاہے جن کےمفادات بشاراسد کی حکومت کاتختہ الٹنےمیں ہیں اور یہ سبھی پرعیاں ہےکہ شام میں حکومت کی تبدیلی کاسب سےزیادہ فائدہ سامراج بالخصوص صیہونی حکومت کوپہنچےگا۔کیاایک ایسی حکومت کوکمزورکرناجوصیہونی حکومت کےخلاف مسلسل استقامت ومزاحمت کامظاہرہ کررہی، صیہونیوں کومضبوط بنانانہيں ہےوہ بھی ایسےملک کی جانب سےجہاں خود انسانی حقوق کی پامالی اپنےعروج پرہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button