سعودی عرب

سعودی عرب میں انقلاب کی رفتار اطمینان بخش ہے

shiitenews_saudi_flagقطیف کی باشندوں کے مظاہرے جاری ہیں / چار سال حبس بے جا کے بعد بعض اصلاح پسندوں پر مقدمہ چلایا جارہا ہے / پاکستانی وزیر داخلہ کی عبداللہ بن عبدالعزیز سے ملاقات / ہیومین رائٹس واچ نے آل سعود کے اذیتکدوں سے سیاسی قیدیوں کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق سعودی عرب میں انقلاب کی رفتار بڑے اطمینان سے پرسکون انداز میں آگے بڑھ رہا ہے  گو کہ برسر اقتدار آل سعود خاندان علاقائی انقلاب کی لہریں حجاز و نجد کی سرزمین میں انقلاب کی لہروں کے داخلے سے فکرمند اور خائف ہے اور سرکوبی کے تمام وسائل سے استفادہ کرتے ہوئے اس لہر کے داخلے کو روکنے کی کوشش کررہا ہے مگر راستہ کھل گیا ہے اور لہر سرحدیں پار کرچکی ہے اور عرصہ دراز سے مقدس سرزمین پر مسلط آل سعود خاندان چاہے یا نہ چاہے، انقلاب کی یہ لہر پوری مقدس سرزمین میں پھیل جائے گی اور انقلابی تحریک سے اٹھتی ہوئی دھول آل سعود کی آنکھوں کو بھی اندھا کردے گی۔
آل سعود کے قلمرو میں انقلابی تحریک کے نئے واقعات:
ــ قطیفی عوام کے مظاہرے
آل سعود کے ادیتکدوں میں حبس بے جا کے ایام گذارنے والے سیاسی اسیروں کی رہائی کے لئے قطیفی عوام نے اپنے مظاہروں کا سلسلہ جاری رکھا۔ انھوں نے آل سعود کی گماشتوں کی شدید سیکورٹی انتظامات کے باوجود بحرین سے آل سعود کی فوجوں کے انخلاء کے مطالبے پر مبنی نعرے لگائے۔
آل سعود کی بکتر بند گاڑیوں کو سڑک کے درمیان تعینات کیا گیا اور یوں مظاہرین کا راستہ مکمل طور پر بند کیا گیا جبکہ پولیس والوں نے مظاہرین کی جامہ تلاشی کی۔
قطیفی مظاہرین پرامن تھے اور سعودیوں کو ان کی جامہ تلاشی سے بھی کوئی ہتھیار نہیں ملا لیکن اس کے باوجود یہ سوال اپنی جگہ باقی ہے کہ خلیج کے عرب حکمران پرامن مظاہروں کا مقابلہ کرنے کے لئے ٹینکوں اور بکتربند گاڑیوں کو کیوں میدان میں لاتے ہیں؟
دوسری طرف سے نجد و حجاز کے انقلابی نوجوانوں نے گذشتہ روز بحرین کے شہداء کے لئے عموم سوگ بھی بھی منایا۔
ــ چار سال حبس بے جا کے بعد بعض اصلاح پسندوں پر مقدمہ
سعودی عرب کے ایک وکیل نے اعلان کیا ہے کہ مقدمہ چلائے بغیر آل سعود کے اذیتکدوں میں 4 سال کا طویل عرصہ حبس بے جا میں گذارنے کے بعد 16 سیاسی کارکنوں پر "سلامتی کے خلاف فتنہ بپا کرنے” کا الزام لگا کر مقدمہ چلایا جارہا ہے۔
ملزمان کے وکیل "باسم عالم” نے جدہ سے ٹیلی فون پر رائٹرز کو بتایا ہے کہ ان کے موکلین کی اکثریت قانوندانوں، جامعات کے اساتذہ اور طلبہ نیز سیاسی کارکنوں پر مشتمل ہے اور یہ لوگ 2007 میں جدہ شہر میں اصلاحات کے مسئلے پر غور کے لئے ایک میٹنگ میں شریک ہونے کے بعد قدامت پسند حکمرانوں کے حکم پر گرفتار کرلئے گئے تھے۔
انھوں نے کہا کہ یہ افراد مقدمہ چلائے بغیر 4 سال کے عرصے تک قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر چکے ہیں اور ان سے مختلف قسم کی روشوں سے تفتیش کی گئی ہے جبکہ انہیں کسی وکیل سے رابطہ کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔
انھوں نے ان افراد پر آل سعود کی طرف سے لگائے گئے الزامات یوں گنوائے ہیں:
• ان افراد نے اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کی ہے!
• ان لوگوں نے بادشاہ کے خلاف سازش کی ہے!
• ان افراد نے دہشت گردوں کی مالی مدد کی ہے!
وکیل نے یہ نہیں بتایا کہ سعودی عرب کی سلامتی امور کے سربراہ بندر بن سلطان دنیا جہاں میں دہشت گردوں کی مالی امداد کرتے ہیں اور بعض ممالک میں حتی القاعدہ کے ذمہ داروں کا تعین تک کیا کرتے ہیں اور دہشت گردی کے بعض بڑی کاروائیوں میں براہ راست شرکت بھی کرتے ہیں۔
سیاسی قیدیوں پر مزید الزامات کچھ یوں ہیں:
• انھوں نے الیکٹرانک جرائم کا ارتکاب کیا ہے!
• اور یہ کہ ان لوگوں نے منی لانڈرنگ جیسے جرم کا ارتکاب کیا ہے!
انھوں نے یہ بھی نہیں کہا کہ نجد و حجاز کی پوری دولت آل سعود کے شہزادوں کے کنٹرول میں ہے اور کوئی بھی اس ملک میں منی لانڈرنگ کا سوچ بھی نہیں سکتا کیونکہ عوام میں سے صرف ان لوگوں کے پاس دولت ہوتی ہے جو آل سعود کے منظور نظر ہوتے ہیں اور انہین لامحالہ منی لانڈرنگ کی بھی کھلی اجازت ہوتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ وہ ان سیاسی اسیروں کے وکیل تو ہیں لیکن انہیں کیس کے حوالے سے معلومات کے حصول کے لئے اب تک آل سعود کی "وزارت انصاف؟!” کے ترجمان سے رابطہ کرنے کی سہولت نہیں دی گئی ہے۔
ــ پاکستانی وزیر داخلہ کا عبدالله بن عبدالعزیز سے تبادلۂ خیال
پاکستان کے وزیر داخلہ نے کل سعودی عرب کا ایک روزہ دورہ کیا اور سعودی بادشاہ سے ملاقات کرکے انہیں صدر پاکستان آصف علی زرداری کا خصوصی پیغام پہنچایا، اور دوطرفہ دلچسپی کے امور نیز مشرق وسطی کے مسائل پر ان سے تبادلہ خیال کیا۔
انھوں نے اس سے قبل بندر بن سلطان سے بھی ملاقات کی تھی اور علاقے کے مسائل پر ان سے گفتگو کی تھی۔
پاکستانی وزیر داخلہ کی سعودی بادشاہ کی ساتھ ملاقات میں فریقین نے پاکستان اور آل سعود کے درمیان سیکورٹی اور فوجی تعاون کے فروغ پر زور دیا۔
یادرہے کہ سعودی نیشنل سیکیورٹی کونسل کے سربراہ بندر بن سلطان نے ـ جو 20 سال تک واشنگٹن میں سعودی عرب کے سفیر بھی رہے ہیں ـ حال ہی میں بحرین اور سعودی عرب کی اندرونی سلامتی کے لئے فوجی مانگنے کی غرض سے پاکستان کا دورہ کیا تھا جس کے بعد بحرین کے وزیر خارجہ نی بھی پاکستان کا دورہ کیا اور کئی ہزار فوجی بھرتی کروا کر بحرین پہنچادیئے۔
کہا جاتا ہے کہ عبداللہ بن عبدالعزیز کے نام آصف علی زرداری کا پیغام بن لادن کی موت کی خبر کی اشاعت سے متعلق تھا جبکہ بعض مبصرین نے کہا ہے کہ امریکہ پاکستان اور آل سعود کے درمیان تعلقات کے فروغ کا خواہاں ہے اور پاکستانی وزیر داخلہ کا ایک روزہ دورہ اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔
دریں اثناء بعض ذرائع نے بتایا ہے کہ پاکستانی وزیر داخلہ کا یہ دورہ در حقیقت بحرین کے مسائل پر غور کرنے کے لئے تھا۔
مؤخر الذکر ذرائع کی رائے زیادہ درست نظر آتی ہے کیونکہ آل سعود نے بحرین پر باقاعدہ جارحیت کی ہے اور بحرینی انقلابیوں کو کچلنے میں اس کا کردار واضح ہے جبکہ پاکستان کے ہزاروں فوجی اور پولیس والے بھی بحرین کے نہتے عوام کو کچلنے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں اور حال ہی میں اس نے ایک ہزار سے لے کر تین ہزار تک مزید فوجی بحرین بھجوادیئے ہیں اور خیال رکھا گیا ہے کہ نئی نفری میں کوئی بھی شیعہ فوجی بحرین نہ جانے پائے۔ یوں آل سعود اور پاکستانی حکومت آل خلیفہ کی امداد اور عوام کے جائز مطالبات دبانے میں برابر کے شریک ہیں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button