سعودی عرب

” سعودی عرب کی استعمار نوازی کی انتہا”

shiitenews_saudi_istamarقطر اورسعودی عرب سے ۳۲کلومیٹر جبکہ ایران کی بندرگاہ بو شہر سے ۳۱۰ کلومیٹر کے فاصلے پر "بحرین ” کے نام سے ایک ایسی مقدس اسلامی سرزمین واقع ہےجہاں پر ۱نیسویں صدی میں برطانیہ نےایک بحرینی قبیلے "آل خلیفہ "کےساتھ یہ معائدہ کیا تھاکہ اگر” آل خلیفہ ” خطّے میں برطانوی مفادات کا تحفظ کرئے تو اسے بحرین کا حاکم بنا دیا جائے گا۔اس دن سے لے کر آج تک بحرین میں مسلسل” آل خلیفہ” کی بادشاہت قائم ہے اوربحرینی عوام عدل و انصاف کے حصول ،جمہوری اقدار،انسانی حقوق اور آئین و قانون کی خاطر تختہ مشق بنی ہوئی ہے۔
گزشتہ کئی سالوں سے بحرینی عوام کے مسمارگھر اورجلی ہوئی لاشیں ،انسانی حقوق کی تنظیموں اور میڈیا کو دکھائی نہیں دیتیں۔بین الاقوامی برادری کی بے حسی اور میڈیا کی مجرمانہ خاموشی کے دوران جب عرب دنیا میں اسلامی و عوامی انقلاب کی لہر اٹھی تو ایک آدھ دن کے لئے میڈیا نے اپنی نظریں بحرین کے حالات پر بھی جمائیں۔جب میڈیا نے بحرین کو فوکس کیا تو ہمیشہ کی طرح اس روز بھی بحرینی عوام امریکہ و برطانیہ کے خلاف سڑکوں پر سراپااحتجاج بنے ہوئے تھے،لوگ آل خلیفہ کے خلاف غم و غصّے کا اظہار کر رہے تھے جبکہ سعودی فوج اپنےپرچم پر "لاالہ الااللہ ” لکھے اور ہاتھوں میں امریکی اسلحہ تھامے نہتے بحرینی مسلمانوں پر یلغار کرنے بڑھتی ہی چلی جارہی تھی۔
یہ مناظر دیکھتے ہی دنیا بھر کے مسلمانوں نے سعودی عرب کی فوجی جارحیّت،آل خلیفہ کی ڈکٹیٹر شپ اور امریکہ و برطانیہ کی ہلہ شیری کے خلاف صدای احتجاج بلند کی۔اس صدائے احتجاج کا بلند ہونا تھا کہ میڈیا نے دوبارہ اپنی آنکھیں موند لیں اور سعودی فوج نے بحرین میں وحشت و بربریت کی ایک نئی داستان رقم کی۔اس وقت بھی بحرینی عوام سڑکوں پر سعودی فوج کے محاصرے میں ہے،لوگ امریکہ و برطانیہ کے خلاف نعرے لگا رہے ہیں اور” آل خلیفہ "عوامی مظاہروں کو "آل سعود” کی طاقت سے کچلنے میں مصروف ہے۔
ہمارے وطن عزیز پاکستان کے سادہ دل لوگ جب یہ سنتے ہیں کہ سعودی فوج نہتّے بحرینی مسلمانوں کا قتل عام کرنے میں مصروف ہے تو وہ حیرت سے چونک جاتے ہیں۔ان چونک جانے والے بھائیوں کی خدمت میں عرض ہے کہ وہ سعودی عرب کی فوج کے بارے میں چونکنے سے پہلے اپنے ملک کی فوج پر چونکنا شروع کریں۔وہ اس لئے کہ بحرین میں امریکی و برطانوی مخالفین کو کچلنے کے لئے اس وقت تک فوجی فاونڈیشن اور بحریہ کے تعاون سے ایک ہزار سے زائد پاکستانیوں کو بھرتی کر کے بحرین روانہ کردیاگیاہے۔یعنی بڑے میاں بڑے میاں چھوٹے میاں سبحان اللہ،سعودی عرب تو سعودی عرب پاکستان بھی اس ظلم میں شریک ہو گیا۔البتہ یہ بھی تعجب کی بات ہے کہ جہاں پر سعودی حکومت اپنے پاوں رکھتی ہے وہاں پاکستانی حکومت اپنا سر رکھ دیتی ہے۔مثلا آپ طالبان اور القائدہ کی تشکیل ،فتح اور شکست کو ہی لے لیں۔
جب افغانستان میں امریکہ کو طالبان کی ضرورت تھی تو سعودی عرب نے ریّال اور فکر جبکہ پاکستان نے اپنے مدارس اور نوجوان امریکہ کے قدموں میں لاکر رکھ دیئے۔جب امریکہ کا مطلب پورا ہوگیا تو سعودی عرب نے بھی طالبان اور القائدہ سے آنکھیں پھیر لیں اور پاکستان نے بھی انہیں دہشت گرد کہنا شروع کردیا۔
یہ تو تھی ہماری سعودی محبت کی ایک مثال اب ذرا ایک اور مثال سےسعودی عرب کی نگاہ میں اسلامی برادری کی اوقات کا اندازہ بھی لگائیے:
قیام پاکستان سے لے کر اب تک پاکستان مسلسل سعودی عرب اور امریکہ کی نوکری بھی کر رہا ہے اور مسئلہ کشمیر کے سلسلے میں سعودی عرب سے تعاون کا طالب بھی ہے ۔سعودی عرب نے نہ صرف یہ کہ مسئلہ کشمیر پر پاکستان کو تنہا چھوڑاہوا ہےبلکہ اس نے نہایت حساس موقعوں پر بھارت کی حوصلہ افزائی کر کے کروڑوں پاکستانیوں کے دینی جذبات کی بے احترامی بھی کی ہے۔یہ ۱۹۵۶ ء کی بات ہے کہ ابھی مسئلہ کشمیر پوری آب و تاب کے ساتھ منظر عام پر تھااورپاکستانی مسلمان کشمیر کی آزادی کے لئے سراپا احتجاج بنے ہوئے تھے کہ ایسے میں جواہر لال نہرو نے سعودی عرب کا دورہ کیا۔ خود کوتوحید پرست کہنے والی اور توحید کی آڑ میں صحابہ کرام کے مزارات مقدسہ کومنہدم کرنے والی سعودی حکومت نے پاکستانیوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے لئے نہرو کا شاندار استقبال کرنے کے ساتھ ساتھ ” مرحبا یا رسول الاسلام "کے نعرے لگائے۔
اس واقع کے اگلے روز "روزنامہ ڈان ” نے نہرو کو رسول الاسلام کہنے پر سعودی حکومت کی مذمت کرتے ہوئے اس واقع پر اظہار افسوس کیا۔جس پر سعودی ایمبیسی نے یہ وضاحت کی کہ "رسول الاسلام”سے مراد امن کا پیغامبر ہے،جس کے جواب میں روزنامہ ڈان نے لکھا کہ ملت پاکستان اس جملے کے معانی اچھی طرح جانتی ہے اور یہ بھی جانتی ہے کہ دین اسلام کے ظہور کے بعد یہ جملہ پیغامبر اسلام [ص]سے مخصوص ہوگیاہے۔یادرہے کہ ملت پاکستان کو اس بات پر بھی حیرانگی تھی کہ ہزاروں ہندوستانی اور کشمیری مسلمانوں کا قاتل سعودی عرب کے لئے "امن کا پیغامبر”کیسے بن گیاہے۔
تاریخ شاہد ہے کہ سعودی حکومت افغانستان و بحرین سمیت پوری دنیا میں مسلمانوں کے خون کو مباح سمجھتی ہے اور اسلامی ممالک کے خلاف اغیار کا ہاتھ بٹاتی ہے۔
دیگر عرب ریاستوں کی طرح سعودی عرب کی استعمارنوازی کی کڑیاں بھی انیسویں صدی سے جاکر ملتی ہیں۔صاحبان علم و شعور کے لئے تحقیق کے دروازے کھلے ہیں وہ بلا تعصب علمی و فنّی طریقوں سے اس بارے میں تحقیق کر سکتے ہیں کہ پہلی جنگ عظیم کے اختتام پر جب برطانیہ و فرانس کو تیل کی طاقت کا ندازہ ہوا تو انہوں نے ۱۹۱۹ میں مشرق وسطی کو دو حصّوں میں تقسیم کیا۔اس تقسیم کے نتیجے میں عراق،اردن اور سعودی عرب سمیت کچھ ممالک برطانیہ کے جبکہ ایران،ترکی اور شمالی افریقہ، فرانس کے حصّے میں آئے۔
استعماری طاقتوں نے سعودی عرب میں آل سعود سے،کویت میں آل صباح سے،قطر میں آل ثانی سے،امارات میں آل نہیان سے اور بحرین میں آل خلیفہ سے اس طرح کے معائدے کئے کہ اگر انہیں حکومت دی جائے تو وہ خطے میں استعماری مفادات کا تحفظ کریں گئے۔
ان معائدوں کے باعث مذکورہ خاندانوں کو مذکورہ ریاستوں میں حکومتیں سونپی گئیں اور مذکورہ حکومتوں نے اپنی بقاء اور استحکام کی خاطر استعمار کی ڈٹ کر حمایت اور مدد کی۔
تاریخی شواہد سے یہ بات ثابت ہے کہ۱۹۳۰ تک سعودی عرب براہ راست برطانوی مفادات کا محافظ تھا۔۱۹۳۰ میں امریکہ نے کو اپنے ایک کارندے ارنسٹ فیشر کے ذریعے خریدا۔ John Fillby ایک برطانوی جاسوس ” جان فیلبی”
یہ شخص ۱۹۱۷ میں برطانیہ کی وزارت خارجہ میں ملازم ہواتھا اور تقریباً ۳۵ سال تک سعودی عرب میں ابن سعود کا مشیر رہاتھا۔اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ نجد میں قدم رکھنے والا یہ پہلا یورپی باشندہ ہے۔یہ اپنے زمانے کا ایک بہترین لکھاری اور مصنف بھی تھا اور اس کی کئی کتابیں بھی منظر عام پر آئی تھیں۔
اسے مشرق وسطی کے بارے میں حکومت برطانیہ کی پالیسیوں سے اختلاف تھا جب یہ اختلاف شدید ہوگیا تو ۱۹۳۰ میں اس نے برطانوی سفارت سے استعفی دے دیا۔اس کے استعفی دیتے ہی اس کی تاک میں بیٹھے امریکی کارندے نے اس گلے لگا لیا۔اس نے ابتدائی طور پر تیل نکالنے والی ایک امریکی کمپنی میں مشاور کی حیثیت سے کام شروع کیا اور خاندان سعود سے دیرینہ تعلقات کی بنا پر سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان تیل نکالنے کا ایک بڑا منصوبہ منظور کروایا جس سے برطانیہ کی بالادستی کو دھچکا لگا اور خطّے میں امریکی استعمار کی دھاک بیٹھ گئی۔یہی وجہ ہے کہ امریکہ و سعودی عرب دونوں اپنے تعلقات کے سلسلے میں جان فیلبی کی خدمات کے معترف ہیں۔
اس وقت سعودی حکومت بحرین میں قتل و غارت کر کے استعماری مفادات کے دفاع کے لئے اپنے "آن دی ریکارڈ ” معائدوں کو پورا کر رہی ہے جبکہ پاکستانی حکومت خواہ مخواہ سعودی عرب اور امریکہ کی شہ پر افغانستان کے بے بے گناہ مسلمانوں کی طرح بحرین کے مظلوم مسلمانوں کے خون میں بھی اپنے ہاتھ رنگناچاہتی ہے۔
بہر حال پاکستانی حکام بحرین میں لوگوں کے قتل عام کے لئے بھرتیاں کرتے ہوئے اتنا ضرور یادرکھیں کہ پاکستانیوں نے امریکہ اور سعودی عرب سے اسلام نہیں لیا لہذا کسی بھی پاکستانی کے دین کو ریّال اور ڈالر کے ذریعے نہیں خریدا جاسکتا۔پاکستانیوں کو تختہ دار پر لٹکا دیا جائے یا ان کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے جائیں وہ نہ ہی تو اپنے دوسرے مسلمان بھائیوں کو کافر اور واجب القتل کہہ سکتے ہیں اور نہ ہی وہ اپنی مقدس زبانوں سے ہزاروںمسلمانوں کے قاتل کو ” مرحبا یا رسول الاسلام "کہہ سکتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button