سعودی عرب

وہابیت شیعہ ٹی وی چینلز پر سیخ پا

satellite_televisionوہابی انتہاپسند وہابی حلقوں سے وابستہ "مفکرۃ الاسلام” ویب سائٹ نے "احمد عمرو” کے قلم سے "شیعہ سیٹلائٹ چینلز؛ ایران کی نئی جنگ” کے تحت ایک مضمون میں چند مخلص، ہنرمند اور بے توقع شیعہ افراد کی کوششوں سے سینکڑوں سیٹلائٹ چینلز اور ویب سائٹوں کی مالک انتہا پسند وہابیت کے دکھ و تکلیف کا اظہار کیا ہے۔
مضمون نویس نے الکوثر، المنار، اہل البیت (ع)، الانوار و المعارف جیسے سیٹلائٹ ٹی وی چینلز کو عیسائی چینلز سے بھی زیادہ خطرناک قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ "مسیحیت کے سیٹلائٹ چینلز کے نفوذ اور رسوخ کے خطرات کو تھوڑی سے تنبیہ کے ذریعے مسلمان ناظرین کے گھروں سے دور کیا جاسکتا ہے مگر شیعہ چینلز نہایت نرم انداز سے سنی مسلمانوں کے گھروں میں داخل ہوگئے ہیں اور سنی مسلمانوں کو احساس بھی نہیں ہوتا کہ ان کے دین کو خطرہ ہے!!!”۔
مضمون نگار نے اپنی منطق کی کمزوری پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہوئے ایران پر الزام عائد کیا ہے کہ یہ ملک دینی سیٹلائٹ چینلز کے ذریعے "دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے کی کوشش کررہا ہے” اور اس کا مطلب یہ ہی کہ سنی عرب ممالک کی صورت حال درہم برہم ہوجائے گی اور ان ممالک کے اندرونی سیاسی اور سماجی حالات بگڑ جائیں گے!!!”
البتہ مضمون نویس نے وہابیت کے غم و غصے کی اسباب گنواتے ہوئے اصل حقیقت کا بھی اعتراف کر ہی لیا ہے اور اس کے خیال میں وہابیوں کی فکرمندی کا سبب در حقیقت "ولایت فقیہ” اور "اسلامی مزاحمت تحریک” ہے۔
لکھتا ہی: "ایران کا سیٹلائٹ چینل "الکوثر”، اور بحرین کا "المعارف سیٹلائٹ چینل” ولایت فقیہ اور ولی فقیہ کی پیروی کی ضرورت پر بہت زیادہ تأکید کرتی ہیں؛ عراق کی شیعہ سیٹلائٹ چینلز بھی کوشش کررہی ہیں کہ امریکی قبضی کی خلاف مزاحمت کو اپنی نام پر ثبت کردین۔ حالانکہ یہ شیعیان عراق ہی تھی جنہوں نے صدام کی خلاف جدوجہد کی بہانی امریکیوں کو عراق میں آنی کی دعوت دی!!!۔ سچ ہے کہ جھوٹا بھلکڑ ہوتا ہے۔
مثلاً معلوم ہوتا ہے کہ مضمون نویس شاید مارچ 2003 کے بعد ہی اس دنیا میں آیا ہے اسی وجہ سے 1990 میں تیل کی جنگ کے حقائق سے بھی ناواقف ہے۔ یا پھر جھوٹ لکھ لکھ کر فراموشی کے مرض میں مبتلا ہوگیا ہے۔ اس کو حتی معلوم نہیں ہے کہ 1990 میں کتنے ہزار امریکی فوجی سعودی حکمرانوں کی دعوت اور وہابی مفتیوں کی معنوی اور دینی پشت پناہی میں حجاز کی سرزمین پر تعینات ہوئے اور 2003 میں سعودی حکمرانوں نے وہابی مفتیوں کی مدد سے امریکہ کو کتنی مدد فراہم کی؟ وہ یہ بھی شاید نہیں جانتا کہ عراق میں امریکیوں کی تعیناتی کو طول دینے کے لئے سعودی حکومت کے باقاعدہ اہلکار اس ملک میں بے گناہوں کے خون کے دریا بہا رہے ہیں اور سعودی مفتی اہل تشیع کے قتل کے فتوے دے کر انہیں معنوی حمایت فراہم کررہے ہیں اور حال ہی میں سعودی مداخلت کی ناقابل انکار دستاویزات نے سعودی عرب کے بیمار بادشاہ کو خصوصی اجلاس بلانے پر مجبور کیا جس میں سعودی جاسوسی ایجنسیوں کی اطلاعات لیک ہونے کے حوالے سے مسائل کا جائزہ لیا گیا۔
وہ جانتا ہے مگر شاید دنیا کو بیوقوف سمجھتا ہے اور تصور کرتا ہے کہ کسی کو بھی یہ حقیقت نہیں معلوم کہ عراق میں امریکی افواج کی دائمی موجودگی کے لئے سعودی بادشاہ اور وہابی مفتی کتنا بڑا سرمایہ خرچ کررہے ہیں؛ کیا احمد عمرو نہیں جانتا کہ سعودی حکمرانوں کے اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ تعلقات کتنے وسیع ہیں؟
لبنان کی 33 روزہ جنگ 2006 میں ہوئی ہے اور حزب اللہ کی فتح نے دنیا کو حیران کردیا ہے مگر احمد عمرو اس فتح کا بھی انکار کرنا چاہتا ہے اور لکھتا ہے: "المنار سیٹلائٹ ٹی وی چینل 33 روزہ جنگ میں فتح کا سہرا حزب اللہ کی سر باندھنے کی کوشش کرتا ہے اور اسرائیلی قبضے کے خلاف لبنانی عوام کی مزاحمت کو حزب اللہ کے نام کرنا چاہتا ہے!!! وہ حقیقتاً بھلکڑ بن گیا ہے یا جانتا ہی نہیں یا پھر عداوت نے اس کی آنکھیں بند کردی ہیں اور وہ تسلیم ہی نہیں کرنا چاہتا کہ لبنان کی 33 روزہ جنگ میں حزب اللہ کے ساتھ کوئی بھی نہیں تھا اور اسرائیل کو امریکہ اور یورپ کی ہمہ جہت حمایت حاصل تھی اور امریکی وزیر خارجہ مقبوضہ فلسطین میں بیٹھ کر "عظیم تر مشرق وسطی” کی تشکیل کے پہلی قدم کے نعرے لگارہی تھی اور اسرائیل کو جنگ بندی سے منع کررہی تھی مگر حزب اللہ نے اپنے محدود وسائل سے استفادہ کرتے ہوئے اسرائیل اور اس کے حامیوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا۔
بہرحال منطق کے دشمن اپنے بے منطق دعووں اور نعروں کے لئے ہزاروں ویب سائٹس، روزناموں، ریڈیو اور ٹی وی نیٹ ورکس، فتوؤں اور ہر قسم کے تشہیراتی وسائل بروئے کار لاکر بھی 4 شیعہ چینلز کو اپنے اندرونی حالات کے لئے خطرہ تصور کرتے ہیں اور ان چینلز کی وجہ سے اپنے شہریوں کے ایمان کے لئے فکرمند ہیں؛ جس سے بخوبی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ یکطرفہ وہابی اقدامات کو ہی جائز سمجھتے ہیں کیونکہ یہ اقدامات دو طرفہ ہوں گے اور ایک طرف سے کفر کے فتوے، قتل کے فتوے اور دولت و ثروت بانٹنے کا سلسلہ ہو اور دوسری طرف سے صرف عقل و منطق ہو تو دولت و ثروت اور کفر و قتل کے فتوؤں کے کارخانے داروں کا غیظ و غضب بآسانی سمجھ میں آتا ہے لیکن منطق کی فتح بھی آخر کار یقینی ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button