سعودی عرب

شیعیان حجازکیخلاف مظالم پر العربیہ چینل بھی خاموش نہ رہ سکا

shiite_saudi_al-arabiyaسعودی عرب کے وہابی حلقوں سے وابستہ مغرب نواز العربیہ ٹی وی چنیل کو بھی سعودی عرب میں اہل تشیع کے خلاف بے انتہا امتیازی رویوں کے خلاف بولنا پڑا اور اس نے شیعیان حجاز پر روا رکھے جانے والے مظالم کی مذمت کی!.
مغرب نواز ٹی وی چینل العربیہ ـ جو سعودی عرب کے انتہاپسند وہابیوں سے وابستہ ہے ـ بھی سعودی عرب کے اہل تشیع کے خلاف ہونے والے وسیع امتیازی رویوں کے خلاف خاموش نہ رہ سکا اور اس نے بھی ان مظالم کی مذمت کی۔
سعودی عرب میں اہل تشیع کی وسیع اور مسلسل گرفتاریاں، شیعہ مساجد کی بندش، شیعیان اہل بیت (ع) کی نماز جماعت پر ـ حتی گھروں کے اندر بھی ـ پابندی اور ان کی ذاتی زندگی پر مسلسل سعودی نگرانی ان اقدامات میں سے ہیں جن سے انسانوں کے بنیادی شہری اور انفرادی حقوق کی تضییع ہوتی ہے اور سعودی عرب میں یہ تمام اقدامات بیک وقت  عمل میں آرہے ہیں.
العربیہ کے ڈائریکٹر ـ جو سعودی شاہی خاندان کے فرد ہیں ـ نے کہا ہے کہ سعودی وزیر داخلہ کے اقدامات امتیازی اور غیر منصفانہ ہیں جس پر انہیں بین الاقوامی اور سعودی قوانین کے مطابق سزا ملنی چاہئے۔
انھوں نے تمام عربی اور بین الاقوامی چینلز سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ سعودی حکومت کے ان اقدامات کی مذمت کریں اور اور اس ملک کے اندر عقائد کی برابری اور مساوات پر اصرار کریں۔
حال ہی میں الخبر اور الدمام میں بند ہونے والی 9 شیعہ مساجد کو دوبارہ کھولنے کی درخواست پر سعودی وزیر داخلہ نائف بن عبدالعزیز نے کہا تھا کہ ان مساجد کو دوبارہ نہیں کھولا جاسکتا اور اس موضوع پر کوئی بحث نہیں ہونی چاہئے۔
دریں اثناء االخبر کے امام جمعہ سید محمد باقر الناصر نے بھی کچھ روز قبل اپنے بیان میں کہا تھا کہ جب سیکورٹی والوں نے ہمیں محدود کردیا اور ہماری مساجد کو بند کیا تو ہم نے اپنی مسجد کے قریب اہل سنت کی ایک مسجد میں نماز ادا کرنا شروع کردی جہاں انتہا پسندوں نے ہمیں اس مسجد میں داخلے سے بھی روک لیا جبکہ ہم سنی امام جماعت کی اقتداء میں نماز ادا کرتے تھے۔ اور یہ مسجد میں نے اہل سنت کے لئے بنائی تھی اور حکومت نی میری امداد نہیں کی تھی. ہم اسی مسجد میں داخل ہوئے تو وہاں موجود ایک فتنہ طلب شخص نے روشنیاں بجھا دیں اور ہمیں فتنے کا اندازہ ہوا چنانچہ اس مسجد میں بھی ہمارا داخلہ بند ہوگیا۔ اور حکومت نے نہ صرف فتنہ پرور اشخاص کے خلاف کوئی اقدام نہیں کیا بلکہ ادارہ اوقاف کے ذریعے ایک حکم آیا کہ “سنی مساجد میں اہل تشیع کے لئے نماز پڑھنا ممنوع ہے” ہم سے کہا گیا کہ: تم صرف اسی وقت سنی امام جماعت کی اقتداء میں نماز ادا کرسکتے ہو جب تم اپنے فقہی احکام کے مطابق نماز پڑھنے سے پرہیز کرو گے!!!.
یعنی یہ کہ: 1. شیعہ مسجدیں بند اور بند مسجدوں کو دوبارہ کھولنا ناممکن
2. سنی مساجد میں نماز پڑھنا بھی ممنوع
3. سنی مسجد میں سنی امام جماعت کی اقتداء میں نماز پڑھ سکتی ہیں “بشرطیکہ تم اپنے فقہی احکام ترک کردو”.
اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ سعودیوں کی جانب سے مذہب تبدیل کرانے کی نہایت شرمناک کوشش نہیں ہے؟
دریں اثناء شیعہ راہنماؤں اور عوام نے سعودی بادشاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کے نام خطوط اور طومار روانہ کئے ہیں اور ان سے شیعہ قیدیوں کی رہائی، شیعہ مساجد کو دوبارہ کھولنے، اہل تشیع کو نماز جماعت کی اجازت دینے اور اہل تشیع کے خلاف امتیازی رویوں کا خاتمہ کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ اب تک سعودی حکام نے دمام ، الخبر ، ابقیق ، راس تنورہ ، اور الخفجی میں 9 شیعہ مساجد بند کردی ہیں اور جعفری اور اسماعیلی پیروان اہل بیت (ع) کو نماز جماعت سے منع کیا ہے اور سعودی حکام نے گذشتہ ہفتے کے دوران 72 سالہ احمدالخضیر، 64 سالہ فہدالمکی، 50 سالہ صالح المہنا اور 30 سالہ حسن المکی سمیت متعدد شیعہ راہنماؤں کو اپنی رہائشگاہوں میں نماز جماعت منعقد کرنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا جو تا حال پابند سلاسل ہیں۔
مآخذ: ابنا

متعلقہ مضامین

Back to top button