متفرقہ

شيخ الازہر نے وہابی مفتی کی شیعہ مخالف درخواست مسترد کردی

wahabiشیخ الازہر نے وہابی مفتی کی طرف سے شیعہ مذہب کو تسلیم نہ کرنے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا: پوری تاریخ میں الازہر کا دائمی اور اصولی موقف مسلمانان عالم کی وحدت و یکجہتی پر مبنی رہا ہے۔
مصر کی جامعۃالازہر کے سربراہ "ڈاکٹر احمد الطيب” نے وہابی مفتی کی درخواست کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ گذشتہ 14 صدیوں سے شیعہ اور سنی اسلام کے دو بازو اور دو پَر ہیں اور ان کے درمیان کبھی بھی جنگ نہیں رہی اور موجودہ فسادات اور فرقہ واریت پھیلانے کی کوشش میں ہونے والی کاروائیاں فرقہ واریت کے ہتھیار سے مسلمانون کو کمزور کرنے کی سازش کا نتیجہ ہیں۔
انھون نے کہا: تشیع اور تسنن کے اصول دین ایک ہی ہیں اور مسلمانوں کے درمیان وحدت کا قیام الازہر یونیورسٹی کی بنیادی ترجیح ہے۔
شيخ الأزہر نے الازہر کی طرف سے وحدت مسلمین کے قیام پر مبنی تاریخی رویئے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: الازہر کے سابق مفتی شیخ "محمود شلتوت” اور شیعہ سابق مرجع تقلید "تقی الدين قمی” نے مشترکہ طور پر "دارالتقریب کی بنیاد رکھ کر مسلمانوں کے درمیان اتحاد کے قیام کا اہتمام کیا اور الازہر نے بھی یہی رویہ جاری رکھا ہے۔
یادرہے کہ وہابی مفتی اور مکہ مکرمہ کی ام القری یونیورسٹی کے استاد "أحمد بن سعد بن حمدان الحمدان الغامدي” نے الازہر کی جانب سے تشیع کو تسلیم کئے جانے اور دیگر مذاہب کی مانند اس مذہب کی پیروی کو صحیح قرار دیئے جانے پر شدید تنقید کی تھی اور اس ادارے سے مذہب شیعہ کو تسلیم نہ کرنے کی درخواست کی تھی۔
وہابی مفتی:  جامعۃالازہر نے تشیع کو کیوں تسلیم کیا ہے / تحقیقی جائزہ
مکہ مکرمہ کی "ام القری یونیورسٹی” کے استاد اور وہابی مفتی "أحمد بن سعد بن حمدان الحمدان الغامدی” نے جامعۃ الازہر کی جانب سے تشیع کو تسلیم کئے جانے اور دیگر مذاہب کی مانند اس مذہب کی پیروی کو جائز اور درست قرار دیئے جانے کے فیصلے پر شدید تنقید کی ہے۔
"أحمد بن سعد بن حمدان الحمدان الغامدی” نے علماء الازہر کے نام اپنے پیغام میں ـ جو کل "سبق” نامی الیکٹرانک جریدے میں شائع ہوا ـ دعوی کیا ہے کہ اثنی عشری شیعہ قرآن و سنت کے ساتھ ساتھ 12 دیگر منابع سے بھی اپنے عقائد اخذ کرتے ہیں اور یہ امر دین خدا کی خلاف ورزی ہے۔
وہابی مفتی نے سوال اٹھایا ہے کہ: "علمائے الازہر قرآن اور سنت نبوی کے ساتھ ساتھ ان بارہ منابع و مأخذ کو کیونکر تسلیم کرسکتے ہیں؟
وہابی مفتی نے عالم اسلام میں اتحاد و یکجہتی کی کوششوں اور دارالتقریب کی تأسیس کو دھوکہ اور فریب (!) قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اگر مذہب شیعہ کو دیگر فقہی مذاہب کی مانند باضابطہ طور پر تسلیم کیا جانا ہے تو اہل تشیع کو قرآن اور سنت ہی کو اپنے عقائد کا منبع قرار دینا پڑے گا!.
واضح رہے کہ تشیع کے عقائد و احکام کے منابع قرآن اور سنت ہی ہیں، اور بارہ منابع کا دعوی نہایت بے بنیاد اور جھوٹا اور من گھڑت ہے۔ اگر اس وہابی مفتی کا اشارہ 12 اماموں کی طرف ہے تو وہ نہ تو حلال محمد (ص) کو حرام کرتے ہیں اور نہ ہی حرام محمد (ص) کو حلال کرتے ہیں بلکہ رسول اللہ (ص) کے احادیث ہی نقل کرتے ہیں، وہ تشریع نہیں کرتے بلکہ تشریح کرتے ہیں اور ان کی ذمہ داری بیان و نفاذ احکام ہے اور اگر اس وہابی الزام کو درست قرار دیا جائے تو اہل سنت کے تمام محدثین کو بھی الگ الگ منبع قرار دیا جاسکے گا اور یوں وہاں بھی قرآن و سنت ہی منابع حقیقی نہیں ہونگے بلکہ منابع کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔
حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
حدیثی حدیث ابی (ع) و حدیث ابی (ع) حدیث جدی (ع) و حدیث جدی (ع) حدیث الحسین (ع) و حدیث الحسین (ع) حدیث الحسن (ع) و حدیث الحسن (ع) حدیث امیر المومنین (ع) و حدیث امیر المومنین (ع) حدیث رسول اللّٰہ (ص) و حدیث رسول اللّٰہ (ص) قول اللّٰہ عز و جل“ (جامع احادیث الشیعۃ، ج۱ ص 127)
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں : میری حدیث میرے والد کی حدیث ہے اور ان کی حدیث میرے دادا علی بن الحسین (ع) کی حدیث ہے اور ان کی حدیث حسین ابن علی (ع) کی حدیث ہے اور حسین ابن علی (ع) کی حدیث حسن ابن علی (ع) کی حدیث ہے اور حسن ابن علی (ع) کی حدیث امام علی علیہ السلام کی حدیث ہے اور حضرت علی (ع) کی حدیث،کلام رسول خدا (ص) ہے اور رسول خدا (ص) کا کلام، کلام الٰہی ہے۔
شاید مسلمانوں کے درمیان وحدت کی کوششوں سے اسرائیل اور امریکہ کو بھی اس وہابی مفتی جتنی تکلیف نہ ہوتی ہو جو دین کو صرف وہابیت کے دائرے میں محدود کردیتے ہیں اور دین کے خودساختہ ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں جبکہ قرآن میں وحدت مسلمین کو واجب قرار دیا گیا ہے اور عصری تقاضوں کو مد نظر رکھ کر تفرقہ کی جانب قدم بڑھانا کفر کی خدمت ہے اور یہ وہابی مفتی صاحبان وحدت و تقریب کو دھوکہ اور فریب قرار دیتے ہیں!!!.
اب سوال یہ ہے کہ ہم اہل بیت سے اپنا دین، اپنی احکام اور اپنی شریعت کیوں لیتے ہیں؟ کیا یہ تشیع کے لئے طعنہ ہے یا اعزاز و افتخار؟
اس متواتر حدیث کی طرف توجہ فرمائیں:
قال رسول الله صلی الله علیه و آله و سلم "انی تارک فیکم الثقلین کتاب الله وعترتی ما ان تمسکتم بهما لن تضلوا بعدی: کتاب الله فیه‏الهدی والنور حبل ممدود من السماء الی الارض وعترتی اهل بیتی وان اللطیف الخبیر قد اخبرنی‏انهما لن یفترقا حتی یردا علی الحوض وانظروا کیف تخلفونی فیهما”.
ترجمہ: میں تمہارے درمیان دو عمدہ اور گرانقدر چیزی چھوڑے جارہا ہوں ایک کتاب اللہ ہے اور دوسری میری عترت یعنی میری اہل بیت، میرے بعد جب تک تم ان دو کا دامن تھامے رہوگے ہرگز گمراہی میں مبتلا نہ ہوسکو گے: کتاب اللہ میں ہدایت اور نور ہے اور یہ آسمان سے زمین کی طرف کھنچی ہوئی رسی ہے اور میری اہل بیت میرے اہل خاندان ہیں اور خدائے لطیف و خبیر نے مجھے خبر دی ہے کہ میری یہ دو یادگاریں ایک دوسرے سے ہرگز جدا ہونے والی نہیں ہیں حتی کہ حوض کوثر کے کنارے مجھ پر وارد ہوجائیں۔ اب تم خود خیال رکھو اور "دیکھو کہ ان دو امانتوں میں تم میرے امتی ہونے کا حق کیونکر ادا کرتے ہو؟
منابع و مآخذ حدیث:
مستدرک حاکم، ج ۳، ص ۱۲۴ ـ صواعق المحرقہ، ابن حجر، فصل ۹، بخش ۲، ص ۱۹۱، ۱۹۴ ـ تاریخ الخلفا، جلال الدین سیوطی، ص ۱۷۳ ـ صحیح بخاری، باب کتابہ العلم من کتاب العلم، ۱/ ۲۲ و مسند احمد حنبل، تحقیق احمد محمد شاکر، حدیث ۲۹۹۲ و طبقات ابن سعد، ۲/ ۲۴۴، چاپ بیروت.

متعلقہ مضامین

Back to top button