مشرق وسطی

محرم الحرام میں لبنان اور عراق کےلئےسعودیوں کا مذموم منصوبہ

dehsatgardرپورٹ کے مطابق دہشت گردی سے متعلق مطالعات و تحقیقات کرنے والے ایک ادارے نے "دولۃ الاسلامیۃ في العراق والشام” (داعش) کو دنیا کا تیسر خطرناک ترین اور مجرم ترین دہشت گرد ٹولہ قرار دیا ہے؛ جبکہ داعش نے ایک بیان جاری کرکے کربلائے معلی کو گراد میزائلوں کا نشانہ بنانے نیز بصرہ میں رکن پارلیمان "کاظم الشمری” اور صدر دھڑے کے عسکری شعبے "جیش المہدی” کے بعض کمانڈروں کو دہشت گردی کا نشانہ بنانے کا اعتراف کیا ہے۔
امریکی چینل "سی این این” نے "دہشت گردی کے بارے میں تحقیق اور دہشت گردی کے خلاف جدوجہد” کے نام سے سرگرم عمل ایک ادارے کے حوالے سے کہا ہے داعش نامی گروپ اس سال محرم میں بھی عراق میں خون کی ہولی کھیلنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
بابل صوبے ایک مقامی سرکاری اہلکار نے بھی کہا ہے کہ داعش سے وابستہ سعودی اور شامی دہشت گرد اس سال محرم الحرام میں اس صوبے کے مختلف شہروں میں دہشت گردانہ کاروائیوں کا ارادہ رکھتے ہیں۔
تاہم سی این این نے مذکورہ ادارے کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ طالبان دہشت گرد تنظیم عالمی سطح پر دہشت گردی کرنے والے گروپوں میں سر فہرست ہے اور اس نے 1842 افراد کو دہشت گردانہ حملوں میں قتل کیا ہے اور اس کے بعد نائجیریا کا "بوکو حرام” گروپ ہے جس نے 1132 افراد کا خون کیا ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق داعش دنیا کا تیسرا بڑا ہلاکت خیز دہشت گرد گروپ ہے اور عراق میں القاعدہ تنظیم داعش کے بعد ہے جبکہ ہندوستان میں برسرپیکار ماؤئسٹ تنظیم چوتھے نمبر پر، صومالیہ کی شباب تنظیم پانچویں، جزیرۃ العرب کی القاعدہ چھٹے نمبر اور پاکستانی طالبان گروپ دہشت گردوں کی عالمی تنظیموں میں ساتویں نمبر پر ہے۔
مذکورہ رپورٹ نے 2012 کے دوران دہشت گردی سے متعلق سرگرمیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ مذکورہ بالا سات گروپوں میں سے چھ کا تعلق براہ راست طور پر القاعدہ سے ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق 2012 میں دنیا بھر میں 8500 دہشت گردانہ کاروائیاں ہوئیں جن میں کم از کم 15800 افراد جان ہاتھ سے کھو بیٹھے۔ ان میں سے زیادہ تر کاروائیاں افریقہ، ایشیا اور مشرق وسطی کے ممالک میں ہوئیں۔
اس اعداد وشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2012 کے دوران دہشت گردانہ کاروائیوں میں 2011 کی نسبت 69 فیصد اضافہ ہوا اور ان کاروائیوں کے بھینٹ چڑھنے والے افراد کی تعداد میں بھی 89 فیصد اضافہ ہوا۔

سید حسن نصراللہ نے عاشورا کے دن لبنان میں دہشت گردانہ حملوں کا خدشہ ظاہر کیا ہے
ادھر لبنانی اخبار الجمہوریہ نے لکھا ہے کہ سید حسن نصر اللہ نے اپنی جماعت کے راہنماؤں اور بعض شیعہ اور سنی مذہبی شخصیات سے ملاقات میں لبنان کی سلامتی کی صورت حال کے بارے میں تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ عاشورا کے دن بعض بیرونی قوتوں کے اشارے پر دہشت گردانہ حملوں کا امکان ہے اور حزب اللہ ان حملوں کا سد باب کرنے کے لئے لبنانی سیکورٹی اداروں کے ساتھ مکمل تعاون کررہی ہے۔
سید حسن نصراللہ نے شام کی صورت حال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: شام کے خلاف بین الاقوامی اور اندرونی محاذ کو فیصلہ کن شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے اور دشمن گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوا ہے اور درحقیقت اسلامی مزاحمت محاذ اس جنگ کا اصلی فاتح ہے۔
انھوں نے کہا: شام کے خلاف جنگ لڑنے والا عالمی اور علاقائی محاذ کو بند گلی کا سامنا ہے اور ان کے پاس حقیقت تسلیم کرنے اور اس بحران کو سیاسی روشوں سے حل کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔
انھوں نے کہا کہ جنگ طلب قوتیں شام میں ناکام ہوچکی ہیں اور ان کے پاس سیاسی راہ حل اپنانے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے جبکہ بعض ممالک اب بھی اس راستے کو بند کرنے کے لئے کوشاں ہیں لیکن وہ بہت جلد سمجھ لیں گے کہ اس تناؤ اور بدامنی کا کوئی فائدہ نہيں ہے۔
واضح رہے کہ الجمہوریہ کی اس خبر کے بارے میں سید حسن نصراللہ کا موقف پیش کرنے والی المنار ٹی وی چینل اور اس کی ویب سائٹ نے کوئی خبر نشر/ شائع نہیں کی ہے۔
محرم میں زائرین حسینی پر حملوں کے لئے آل سعود کا منصوبہ
عراقی سیکورٹی حکام کے مطابق سعودی حکومت نے محرم الحرام میں زائرین حسینی پر دہشت گردانہ حملوں کا منصوبہ بنایا ہے۔
عراقی سیکورٹی حکام نے کہا ہے کہ انھوں نے ایک دہشت گرد تنظیم کے متعدد اراکین کو ـ جو محرم الحرام کی آمد آمد پر سعودی عرب سے دراندازی کرکے عراق میں داخل ہوئے تھے ـ کو گرفتار کرلیا ہے جو کربلا کی طرف جانے والے راستوں میں دہشت گردانہ کاروائیاں کرکے پائے پیادہ کربلا کی طرف جانے والے زائرین کو نشانہ بنانے کا ارادہ رکھتے تھے۔
ان دہشت گردوں نے اعتراف کیا ہے کہ سعودی عرب عراقیوں کے خلاف ہونے والی تمام دہشت گردانہ کاروائیوں میں ملوث ہے۔
مذکورہ دہشت گرد تنظیم کے سعودی اراکین کے اعترافات کے بعد عراقی حکام نے صوبہ بصرہ میں سعودی سرحدوں کی فضائی نگرانی شروع کردی ہے۔
بصرہ کے ایک سیکورٹی اہلکار جبار الساعدی نے العالم سے کہا ہے کہ ان کے پاس گرفتار دہشت گردوں کے اعترافات سمیت متعدد شواہد ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ سعودی عرب القاعدہ اور اس کی ذیلی تنظیموں کی مدد سے عراق میں دہشت گردانہ کاروائیاں کروا رہا ہے۔
بصرہ کی جیلوں میں قید ان دہشت گردوں نے کہا ہے کہ سعودی عرب کے بعض سرکاری اور نجی ادارے ان کی عسکری اور مالی حمایت کررہے ہیں اور انہیں حکم دیا ہے کہ محرم الحرام کے مہینے میں مقامات مقدسہ کے زائرین کو دہشت گردانہ حملوں کا نشانہ بنائیں۔
انھوں نے کہا کہ ہمیں ایسے ثبوت بھی ملے ہیں کہ سعودی عرب کی سرحدی چوکیاں دو ملکوں کے درمیان طویل سرحدوں سے ناجائز فائدہ لے کر دہشت گردوں کو عراق میں داخلے کے لئے سہولیات فراہم کرتی ہیں۔
الساعدی نے کہا: ہمیں بہت سے شواہد ملے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ دہشت گرد پیشگی منصوبے کے تحت سعودی چوکیوں کی مدد سے عراق میں داخل ہوتے ہیں اور ہم نے ان سرحدوں میں ایسے بہت سے نقاط کا سراغ لگایا ہے جہاں سے دہشت گردوں کی دراندازی کا امکان ہے اور وہ داخلے کے لئے ان علاقوں میں رہنے والے بدو عربوں سے مدد لیتے ہیں۔
بصری کی صوبائی کونسل میں سرحدی گذرگاہوں کی کمیٹی کے سربراہ مرتضی الشحمانی نے کہا: ہم نے عراقی فوج سے مطالبہ کیا ہے کہ سرحدی علاقوں میں اپنا گشت بڑھائے اور دہشت گردوں کی دراندازی کی نگرانی کرے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button