مشرق وسطی

وہابیوں کا ایک اور وحشیانہ کارنامہ حضرت علی (ع) کے خاص صحابی کی قبر کی بے حرمتی

roza1شامی تکفیری اور جرائم پیشہ دھشتگردوں نے حضرت علی علیہ السلام کے خاص صحابی جناب حجر بن عدی کندی کے مرقد میں گھس کر ضریح کو اکھاڑ دیا اور نبش قبر کر کے جسد مطہر کو نکال لیا ہے۔
شامی ذرائع ابلاغ کے مطابق تکفیری دھشتگردوں نے جناب حجر بن عدی کندی کے مرقد میں ان کی قبر کو کھود کر جسد مبارک roza2کو نامعلوم جگہ پر منتقل کر دیا ہے۔
حجر بن عدی کندی معاویہ کے حکم سے ۵۱ یا ۵۳ ہجری میں شہید کئے گئے تھے اور انہیں شام کے علاقے عدرا میں دفن کیا گیا تھا۔
اطلاعات کے مطابق تکفیری وہابیوں نے پہلے جناب حجر بن عدی کی ضریح کو توڑا اس کے بعد نبش قبر کی۔

ایک لبنانی نامہ نگار کے مطابق جناب حجر بن عدی کے جسد مطہر کو جو ابھی تک بالکل صحیح و سالم تھا دھشتگردوں نے نامعلوم جگہ پر منتقل کر دیا ہے۔

حجر بن عدی کندی نوجوانی میں اپنے بھائی ہانی بن عدی کے ساتھ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں شرفیاب ہوئے اور دین اسلام کو قبول کیا۔ آپ نے پیغمبر اکرم (ص) کا زمانہ زیادہ درک نہیں کیا چونکہ آپ کے مسلمان ہونے کے کچھ ہی عرصے بعد پیغمبر اکرم (ص) دنیا سے رخصت ہو گئے اسی وجہ سے آنحضور کے زمانے کی جنگوں میں آپ کا نام نظر نہیں آتا۔ لیکن فتح شام میں آپ لشکر کے سرداروں میں سے تھے اور آپ نے ہی مرج عذرا کو فتح کیا جنگ قادسیہ میں بھی آپ شریک تھے اور فتح مدائن میں آپ ہی نے نہر دجلہ سے عبور کیا۔
آپ جنگی مہارت رکھنے کے ساتھ ساتھ ایک باتقویٰ اور معنویت سے لبریر آدمی تھے اس وجہ سے آپ کو حجر الخیر کہا جاتا تھا۔ آپ پمیشہ اپنی ماں کی خدمت میں مصروف رہتے تھے اور نماز و روزے سے عشق رکھتے تھے۔ کبھی بھی بغیر وضو کے نہیں رہتے تھے اور جب بھی وضو کرتے تھے دو رکعت نماز ادا کرتے تھے۔ آپ خداوند عالم کے نزدیک مستجاب الدعوہ تھے۔
حجر بن عدی ان افراد میں سے تھے جو حق اور حقیقت سے عشق کرتے تھے آپ جناب ابوذر کی رحلت کے وقت ربذہ میں ان کے سرہانے حاضر ہوئے ۔
حجربن عدی، علی علیہ السلام کے زمانے میں
حضرت علی علیہ السلام کے صحابیوں میں آپ ایک مثالی شخصیت کے مالک تھے۔ امیر المومنین (ع) کے دور خلافت میں آپ نے تینوں جنگوں میں شرکت کی اور امیر المومنین (ع) کے رکاب میں رہ کر تلوار چلائی۔ حجر جنگ صفین میں علی علیہ السلام کی طرف سے قبیلہ کندہ کے فرمانروا تھے اور جنگ نہروان میں آپ کے لشکر کے جانب میسرہ کے سپہ سالار تھے۔
حضرت علی علیہ السلام کی شہادت اور صلح امام حسن (ع) کے بعد معاویہ کے حکم سے مسلمانوں کی بڑی بڑی شخصیتوں کو اذیت و آذار دینا شروع کر دیا گیا تھا۔ امام حسن علیہ السلام کو شہید کرنے کے بعد عراق کی بزرگ شخصیتوں نے امام حسین علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کر کے ان کے پاس آنا جانا شروع کر دیا ان میں سے ایک جناب حجر بن عدی بھی تھے۔
سن ۵۰ ہجری میں معاویہ نے حاکم کوفہ زیاد بن ابیہ کو حکم دیا کہ حجر بن عدی کا کام تمام کر دے۔ زیاد بن ابیہ نے حجر بن عدی کو گیارہ افراد کے ساتھ زنجیروں میں جکڑ کر شام کی طرف روانہ کیا جن میں سے سات کو رہا کر دیا اور باقی والوں کو شہید کر دیا گیا شہید ہونے والوں میں حجر بن عدی بھی شامل تھے۔
آپ کی گرفتاری کی خبر پھیلتے ہی امام حسین علیہ السلام نے معاویہ پر اعتراض کیا اور ایک آدمی کو معاویہ کے پاس ارسال کیا لیکن اس کے پہنچنے سے پہلے ہی انہیں شہید کیا جا چکا تھا اعتراض کرنے والوں میں سے ایک عائشہ بھی تھیں انہوں نے معاویہ سے کہا: میں نے پیغمبر اسلام سے سنا کہ آپ نے فرمایا: میرے بعد آٹھ قتل ایسے ہوں گے جن پرخدا اور اہل آسمان غضب ناک ہوں گے۔ اور حجر انہیں میں سے ایک ہیں۔
جناب حجر کی شہادت کے بعد بنی امیہ کی نسبت نفرت کی لہر پورے اسلامی سماج میں پھیل گئی یہاں تک کہ عائشہ نے حج کے دوران معاویہ سے کہا: تم نے کیوں حجر اور ان کے ساتھیوں کا قتل کیا اور کیوں صبر سے کام نہیں لیا؟ میں نے رسول خدا سے سنا کہ انہوں نے فرمایا: مرج عذرا میں ایک گروہ کا قتل کیا جائے گا جن کے قتل پر آسمان کے ملائکہ بھی غضب ناک ہوں گے۔
معاویہ نے اپنے کام کی توجیہ کرتے ہوئے کہا: اس وقت میرے پاس کوئی عاقل اور دانا مشاور نہیں تھا جو مجھے اس کام سے منع کرتا۔

حجر بن عدی کا مرقد انہدام سے پہلے

متعلقہ مضامین

Back to top button