مشرق وسطی
مصر،حسنی مبارک کے اقتدار کے خاتمے پر جشن رات بھر جاری رہا
![egyptian_celebrate](images/stories/egyptian_celebrate.jpg)
ادھر عالمی برادری نے مصری صدر حسنی مبارک کے استعفے کا خیرمقدم کرتے ہوئے فوج پر زور دیا ہے کہ اب اقتدار کی منتقلی یقینی بنانا فوج کی ذمے داری ہے اور یہ عمل ایسا ہونا چاہئے جو مصری عوام کے لئے قابل اعتبار ہو۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے کہا کہ مصری عوام کی آواز سنی گئی ہے۔ یورپی یونین کے خارجہ پالیسی شعبے کی سربراہ کیتھرین ایشٹن نے مصری عوام کو خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے فوج پر زور دیا کہ مکمل جمہوری نظام کے لئے اقتدار کی تیز تر منتقلی یقینی بنائی جائے۔ جرمن چانسلر اینجلا مرکل نے کہا کہ حسنی مبارک کے استعفے سے تاریخی تبدیلی آئی ہے۔ انہوں نے توقع ظاہر کی کہ مستقبل کی حکومت مشرق وسطیٰ میں امن برقرار رکھنے کے لئے اپنا کردار ادا کرتی رہے گی۔ بھارتی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں حسنی مبارک کے استعفے اور فوج کی سپریم کونسل کی طرف سے اقتدار کی پرامن منتقلی کے وعدے کا خیر مقدم کیا۔ ترکی کے وزیر خارجہ احمد داؤد اوگلو نے امید ظاہر کی کہ مبارک کا استعفی مصری عوام کے مطالبات پورے کرنے والے ایک نئے نظام کو جنم دے گا۔ قطر کی حکومت نے بھی مصر میں حکومت کی تبدیلی کو جمہوریت، اصلاحات بہتر زندگی کے لئے مثبت اور اہم قدم قرار دیا۔ ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے حسنی مبارک کے استعفے کو مظاہرین کی عظیم فتح قرار دیا۔
اس سے پہلے مصر میں گذشتہ 18 روز سے جاری غیر یقینی صورتحال اس وقت ختم ہو گئی جب پاکستان کے وقت کے مطابق جمعہ کی رات نو بجے صدر حسنی مبارک نے شدید عوامی دباؤ پر مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا۔ حسنی مبارک کا پیغام نائب صد عمر سلیمان نے پڑھ کر سنایا، اس اعلان کے ساتھ قاہرہ میں اتحریر چوک پر اس وقت جشن کا سماں پیدا ہو گیا،جہاں تبدیلی کے محرک نوجوان، طالب علم، ورکرز اور عوام ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے ہیں۔ مظاہرین مصر آزاد ہو گیا کے نعرے لگا رہے ہیں جبکہ اسی قسم کا جشن مصر بھر میں منایا جا رہا ہے۔ عرب ٹی وی کے مطابق صدر مبارک نے اقتدار مصری فوج کے حوالے کر دیا ہے۔ اس طرح صدر مبارک کا تیس سالہ دور اقتدار اپنے انجام کو پہنچا۔ واضح رہے صدر حسنی مبارک نے اکبور 1981 میں صدر انور السادات کے فوجی پریڈ کے دوران قتل ہونے کے بعد اقتدار سنبھالا تھا۔ دریں اثنا صدر مبارک کے مستعفی ہونے کے بعد اسرائیل سمیت کئی عرب ملک میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔
٭ مصری عوام کے نعرے میں تبدیلی: ہمیں فوجی نہیں عوامی اور قومی حکومت چاہئے۔ میدان التحریر میں اجتماع برقرار ہے اور فوج کی جانب سے کوئی مزاحمت دیکھنے میں نہیں آرہی ہے لیکن عوام حسنی مبارک کے جانے کو کافی نہیں سمجھ رہے اور فوری طور پر قومی حکومت کی تشکیل کے خواہاں ہیں۔
٭ العالم ویب سائٹ نے مصری انقلابی عوام کا زبردست ساتھ دینے کی پاداش وصول کرلی؛ ویب سائٹ کو نامعلوم ہیکروں نے ہیک کرلیا اور العالم چینل کے انجنئیروں نے عجلت سے اپنی ویب سائٹ بحال کرلی۔
٭ اوباما نے ـ توقع کے عین مطابق ـ امریکہ کے پرانے وفادار غلام ـ بھاگتے ہوئے حسنی مبارک ـ سے منہ موڑ لیا اور مصری انقلابی قوم سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے کہا کہ یہ نوجوانوں کا انقلاب ہے اور مصر میں نوجوان نسل اپنا ملک تبدیلی کی جانب لے جا رہی ہے۔
امریکی صدر نے عالمی سفارتی آداب کو پامال کرتے ہوئے مصر کو "چھوٹا ملک” قرار دیا اور کہا کہ اس وقت چھوٹے ملک بھی تبدیلی کے راستے پر گامزن ہوچکے ہیں۔
ان کی باتوں سے لگتا تھا کہ وہ "امریکہ” ہی کو بڑا ملک سمجھتے ہیں اور باقی ممالک ان کی نگاہ میں چھوٹے چھوٹے ممالک ہیں۔ شاید وہ اس طرح امریکی رائے عامہ کو بھی مطمئن کررہے تھے کہ "یہ جو ملک امریکہ کے ہاتھوں سے نکل رہا ہے یہ کوئی بڑا ملک نہیں ہے اور یہ کہ امریکہ مخالف ممالک سب چھوٹے چھوٹے سے ممالک ہیں”۔
انھوں نے اپنے گذشتہ 17 دنوں کے دوران اپنے متضاد بیانات کے برعکس آج مصر کی انقلابی ملت کی تعریف کی اور کہا "ہم مصر میں جمہوریت کی حمایت کرتے ہیں”۔
اوباما نے آخر کار ایک بار پھر اپنے موقف پر ابہام کی چادر چڑھاتے ہوئے کہا: "ہم مصر کے حالات پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ وہاں کیا رونما ہوتا ہے!!”۔