ایران

مرگ بر امریکہ یعنی مسلمانوں کی نابودی کے منصوبے بنانے والے مردہ باد

marg barg-israilرپورٹ کے مطابق 4 نومبر کو "استکبار کے خلاف جدوجہد کا قومی دن” [یا یوم مردہ باد امریکہ] اسلامی جمہوریہ ایران میں نہایت شاندار طریقے سے منایا گیا اور یہ دن اس بار پہلے سے کہیں زيادہ شاندار تھا کیونکہ بعض سیاستدانوں نے اس سے پہلے مرگ بر امریکہ کے نعرے کی مخالفت کی تھی۔ دارالحکومت تہران میں ریلیوں کا آخری ٹھکانہ امریکی جاسوسی گھونسلا یعنی سابق امریکی سفارتخانہ تھا، جہاں پر مختلف سڑکوں سے آنے والی ریلیوں نے ایک عظیم اجتماع کی شکل اختیار کی۔
اس موقع پر امریکی جاسوسی کے گھونسلے کے سامنے، اعلی قومی سلامتی کونسل کے سابق سربراہ اور اس کونسل میں رہبر انقلاب کے نمائندے اور مجمع تشخیص مصلحت کے رکن اور حالیہ صدارتی انتخابات کے نامزد امیدوار ڈاکٹر سعید جلیلی نے مظاہرین سے خطاب کیا۔ ڈاکٹر جلیلی کے خطاب کے اہم نکتے درج ذیل ہیں:
٭ ہم ایک بڑے واقعے کی یاد منا رہے ہیں جس کو ـ موجودہ دور میں ـ مکتب امام حسین(ع) کو احیاء کرنے والے امام خمینی(رح) نے پہلے انقلاب سے بڑا انقلاب قرار دیا۔
٭ ہمیں دیکھنا چاہئے کہ امام خمینی(رح) کی منطق کیا تھی اور کیوں انھوں نے اس واقعے کو پہلے انقلاب سے بڑا انقلاب قرار دیا؟ پہلا انقلاب اور انقلاب کی کامیابی وہ کامیابی تھی جس نے اس ملک کی خودمختاری، استقلال اور اقدار کی راہ میں رکاوٹ بننے والے استبدادی نظام کو برطرف کردیا، لیکن امام(رح) کے اہداف اس سے بالاتر تھے۔
٭ امام کے تفکر میں استقلال اور آزادی کی تعریف تمام شعبوں اور تمام پہلؤوں میں آزادی اور استقلال، سے عبارت اور اعلی سطحی تھی، امام کا تفکر اور ان کے اہداف اور ان کا مشن اس قدر واضح، جیتا جاگتا، روشن اور بالاتر و والاتر تھا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے دشمن جو اس تفکر کو توڑنے سے عاجز ہیں اب بنیادی طور پر تفکر اور اعلی اور دور رس مطلوبہ اہداف کو رد کرنے لگے ہیں۔
٭ ہمارے دشمن تفکر کو اور مطلوبہ اور تمنائی اہداف (آرمانوں) کو رد کرتے ہیں اور دعوی کرتے ہيں کہ سیاسی اور خارجہ پالیسی کا میدان حقائق کا میدان ہے، مطلوبہ تمنائی اہداف کا میدان نہيں ہے، وہ حقیقت پسندی کا نعرہ لگا کر امام(رح) کے تفکر اور مطلوبہ اہداف کی خلاف ورزی کرتے اور انہیں رد کرتے ہیں۔
٭ ہمارے خیال میں امام راحل(رح) کا سب سے بڑا ہنر یہ تھا کہ انھوں نے حقیقت (اور حقیقت پسندی) کا صحیح ادراک دنیا والوں کے سامنے رکھا۔ امام(رح) نے اجازت نہ دی کہ لوگ حقیقت کو کسی اور انداز سے بیان کریں، امام(رح) نے حقائق کی تحریف نہیں ہونے دی؛ امام(رح) نے اس بات کی اجازت نہ دی کہ افراد حقائق کے حوالے سے اپنا ذاتی تصور قوموں پر مسلط کریں۔
٭ امام(رح) حقائق کے منکر نہ تھا۔ اتفاق سے امام کا ہنر ہی صحیح اور غائرانہ حقیقی پسندی سے عبارت ہے، ایک حقیقت پسندی جو صحیح تفکر پر مبنی ہے۔
٭ قرآنی آیات کے مطابق، اگر تقوائے الہی حاکم ہو، آپ حقائق کا صحیح مشاہدہ کرسکتے ہیں؛ امام(رح) کا ہنر یہ تھا۔ اتفاق سے امام(رح) نے مکمل طور پر حقائق پیش کئے اور دنیا میں، خارجہ پالیسی میں اور بین الاقوامی سطح پر طاقت کے قواعد میں فیصلہ سازی کا نظام دنیا والوں کو دکھایا۔ ٭ امام(رح) کا نقطۂ قوت دنیا اور خطے کے حقائق کے صحیح ادراک سے عبارت تھا؛ امام(رح) فرمایا کرتے تھے کہ مستکبرین دنیا کو ایک روحی اور نفسیاتی بیماری کی بنا پر دیکھتے ہیں اور اسی وجہ سے وہ مستضعفین کو ـ جو مستکبرین کی تعداد کے سامنے بحر بےکراں ہیں ـ کو تحقیر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

٭ حقائق سے امام(رح) کا صحیح ادراک 4 نومبر جیسے واقعات پر منتج ہوا اور اسی ادراک کی روشنی میں 34 سال قبل ایرانی قوم نے کہا کہ امریکی سفارت خانہ جاسوسی اور سازشوں کا گھر ہے۔
جلیلی نے کہا: آج 34 سال بعد امریکہ کے دوست ممالک اس حقیقت کا اعتراف کررہے ہیں جس کا امام(رح) نے اس زمانے میں ادراک کرلیا تھا، اب امریکہ کے دوست حتی اس پر تنقید کرنے لگے ہیں۔
٭ سب سے پہلی اور اہم ترین حقائق میں سے ـ جن کا امام(رح) نے ادراک کیا تھا ـ ایک یہ تھی کہ صرف اندرونی استبدادیت کا ہاتھ قلم کرنے سے آزادی اور استقلال کا حصول ممکن نہيں ہے۔ امام(رح) نے تشخیص دی تھی کہ اگر ہم حقیقی استقلال و خودمختاری اور آزادی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں مستکبرین کی جڑوں کو تلاش کرنا پڑے گا اور انہیں کاٹنا پڑے گا اسی بنا پر ہی تھا کہ 4 نومبر کا واقعہ [امریکی سفارتخانے پر طلبہ کا قبضہ] پہلے انقلاب سے بڑا انقلاب کہلایا۔
٭ امام(رح) نے بخوبی بیان فرمایا کہ آئینی انقلاب مکمل کامیابی کیوں حاصل نہیں کرسکا، کیونکہ اس کا واحد ہدف اندرونی استبدادیت کا خاتمہ تھا، اور اس کی نگاہ بیرونی استبداد کی بیخ کنی پر مبذول نہيں تھی اور ہم دیکھتے ہيں کہ انقلابی راہنماؤں نے برطانوی سفارتخانے میں دھرنا دیا تھا!
٭ جاسوسی کے گھونسلے کی تسخیر سے ثابت ہوا کہ اسلامی انقلاب اپنا راستہ پا چکا ہے اور اس پر صحیح انداز سے گامزن ہے؛ اس واقعے سے معلوم ہوا کہ ایرانی قوم صرف استبدادی حکمران ہی طرف متوجہ نہیں ہے بلکہ اس نے اپنا حملہ ملک کے استقلال و آزادی کی اصل رکاوٹ پر مرکوز کیا ہوا ہے۔
٭ امام(رح) کی رائے تھی کہ ایرانی قوم امریکی دباؤ کے تحت اپنا استقلال کھو چکی ہے؛ وہ جانتے تھے کہ ممالک کا استقلال استکبار کا ہاتھ کاٹنے کے بغیر ممکن نہيں ہے۔
٭ دنیا میں جو بھی تحریک اقوام کی خواہش پر انجام پائے اگر وہ استکبار کی سازشوں کو بھانپنے میں ناکام رہے تو پورے وثوق کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ اس کا کوئی نتیجہ نہ ہوگا اور ہم تیل کی صنعت قومیانے کی تحریک میں دیھک چکے ہیں کہ استکبار تیل کی صنعت کو قومیانے کا عمل بھی برداشت نہ کرسکا۔
٭ آج ہم مختلف ممالک میں اسلامی بیداری کی تحریکوں کا مشاہدہ کررہے ہیں؛ تا ہم، ہم نے دیکھا کہ جن قوموں نے پوری توجہ صرف اندرونی آمر کا ہاتھ کاٹنے پر مرکوز کی تھی وہ کامیاب نہ ہوسکے اور انھوں نے دیکھا کہ بیرونی طاقتوں نے ان کے لئے کچھ بھی نہیں کیا بلکہ آمریت کو دوسری کھڑکی سے ان اقوام پر مسلط کیا۔
٭ 4 نومبر اسلامی انقلاب کے عدم انحراف کی علامت ہے اور امام(رح) نے دقیق حقیقت پسندی سے اس حقیقت کو بیان کیا کہ استکبار اقوام کے مفادات کا دشمن ہے۔
٭ امریکہ ابتدائے انقلاب سے آج تک ہماری دشمنی میں مصروف ہے؛ اس نے انقلاب اور اپنے سفارتخانے کی تسخیر کے بعد بھی اپنی دشمنی بند نہ کی اور ہمارے اثاثوں کو منجمد کیا، حکومت اور نظام کو گرانے کے لئے کوشاں گروپوں کی حمایت کی اور اسلامی انقلاب کو ناکام بنانے کے لئے صدام کی حمایت اور پشت پناہی کی اور حتی کہ ایران کے راستے شمالی ریاستوں کی گیس پائپ لائن نہيں گذرنی دی اور کوشش کی کہ یہ پائپ لائن ایران سے نہ گذرے۔
٭ امریکہ نے گذشتہ تین دہائیوں میں تین مقاصد کے حصول کے لئے ہمارے سے دشمنی جاری رکھی ہے ہے: 1۔ اسلامی جمہوری نظام تشکیل نہ پائے اور پائیدار نہ بنے؛ 2۔ ایران کی تشخص بخش پالیسی تبدیل ہوجائے اور 3۔ ایران کی صلاحیتیں اور قوتیں زائل ہوجائیں۔
٭ ریاست ہائے متحدہ امریکہ ایران کو جوہری حملے کی دھمکی دیتا ہے اور یہ وہی فرعونی منطق ہے اور انہیں تشویش اس بات کی ہے کہ اسلامی انقلاب کے ظہور کے ساتھ ثقافتی، سیاسی اور معاشی لحاظ سے، دنیا کے لئے ان کا تیار کردہ ماڈل نفاذ سے قبل ہی ناکام ہوسکتا ہے۔
٭ امام(رح) دشمن کا صحیح ادراک رکھتے تھے اسی بنا پر وہ دشمنوں کے ساتھ تنازعے کو حق و باطل کا جھگڑا، سرمایہ پرستی اور غربت کی جنگ اور خوشحال طبقوں اور پا برہنہ عوام کے درمیان نزاع، اور افکار کی جنگ سمجھتے تھے۔
٭ امام(رح) امریکیوں سے فرمایا کرتے تھے کہ یہ تمہارا مسئلہ ہے کہ تم بے منطق ہو اور اسی وجہ سے امام(رح) کا فرمانا تھا کہ وہ (امریکی) ہمیں اپنے راستے سے ہٹانے سے کم پر راضی نہیں ہونگے۔
٭ ہمارے دشمنوں نے آئینی انقلاب اور تیل کی صنعت قومیانے کی تحریک کو برداشت نہیں کیا اور وہ آج بھی ہماری دینی، سائنسی اور فنی ترقی کو برداشت نہیں کررہے ہیں اور وہ اپنے تمام تر وسائل ہماری پیشرفت کا راستہ روکنے کے لئے بروئے کار لا رہے ہیں۔
٭ شہید آیت اللہ سید محمد حسینی بہشتی امریکیوں سے کہا کرتے تھے: ہم سے ناراض اور غضبناک رہو اور اسی غیظ و غضب میں مر جاؤ، چنانچہ امریکہ مردہ باد کا نعرہ ہمارے متفکر ترین اور صادق ترین راہنماؤں کا نعرہ ہے، اور یہ راہنما کہا کرتے تھے کہ اگر ہم کہتے ہیں کہ امریکہ مردہ باد اس کا مطلب یہ ہے کہ تکبر مردہ باد، اقوام کی تحقیر و تذلیل مردہ باد، وہ تھنک ٹینکس مردہ باد جو ایک لمحے میں ہزاروں مسلمانوں کی نابودی کے اسباب فراہم کرتے ہیں۔
٭ امریکہ مردہ باد کا نعرہ امریکی قوم کے خلاف نعرہ نہیں ہے بلکہ یہ موت اس حکومت پر ہے جو امریکیوں سمیت اقوام عالم کے ساتھ ظالمانہ سلوک کرتی ہے۔
٭ شہید ہمت، شہید باکری اور شہید بہشتی سمیت ہمارے تمام شہدا اور اکابرین مردہ باد امریکہ کا نعرہ لگاتے تھے اور انھوں نے امریکہ مردہ باد کا نعرہ یکجہتی اور حریت پسندی کی علامت میں تبدیل کیا۔
٭ تیسری حقیقت جو امام(رح) نے دنیاوالوں کے سامنے رکھی یہ تھی کہ امام(رح) نے عمدہ انداز سے بیان کیا کہ آج امریکی صرف جبر اور طاقت کی زبان میں بات نہيں کرتے بلکہ ایک ابلاغی مکر و فریب بھی ہے اور وہ اقوام عالم کی تحقیر و تذلیل کرنے کے درپے ہیں۔
٭ وہ اقوام کی تحقیر و تذلیل کے درپے ہیں تاکہ اس تحقیر سے فائدہ اٹھا کر ان ملتوں کو اپنا دست نگر بنائیں اور قومیں صرف ان کے پیچھے چلتی رہیں۔
٭ امام(رح) کا کہنا تھا کہ یہ جو انسانی حقوق کے نعرے لگاتے ہیں، خود بھی جانتے ہیں کہ جھوٹ بول رہے ہیں۔ یہ انسانی حقوق یعنی ظالموں کے حقوق، یہ عالمی ادارے ان کے اپنے مفاد کے لئے ہیں نہ کہ مظلوموں کے مفاد کے لئے۔
٭ امام(رح) فرماتے تھے کہ سلامتی کونسل اس وقت سلامتی کونسل ہوسکتی کہ وہ مظلوموں کا دفاع و تحفظ کرے۔
٭ ایرانی قوم اگر دشمن کی زيادت طلبی اور اس کے مطالبات میں زیادہ روی کے سامنے ڈٹ سکی ہے اس کا سبب یہ ہے کہ مزاحمت کے ساتھ دشمن کی مکاریوں اور دھوکہ بازیوں کے سامنے بھی استقامت کرسکی ہے۔
٭ ایک حقیقت اور، جو امام(رح) نے دنیا والوں اور اقوام عالم کے سامنے رکھی یہ تھی کہ استکباری طاقتوں کی زيادہ تر نمائشیں صرف نمائشی طاقت اور جھوٹے دبدبے کے زمرے میں آتی ہیں؛ امام(رح) دشمن کی کمزوریوں سے واقف تھے اور دنیا والوں کو بھی اس کی کمزوریاں دکھاتے تھے؛ جس طرح کہ نہایت دلیری کے ساتھ مستضعفین اور مؤمنین کی قوت کو بھی دنیا والوں کے سامنے رکھتے تھے اور اعلانیہ طور پر فرمایا کرتے تھے کہ دشمن اذیت و آزار سے زیادہ کچھ بھی نہیں کرسکتا۔
٭ حال ہی میں ایک امریکی جریدے میں شائع ہونے والے مضمون میں اعتراف کیا گیا ہے کہ "امریکہ کے تمام صدور امام خمینی(رح) کے اس قول سے متفق ہیں کہ امریکہ ایران کا کچھ بھی نہيں بگاڑ سکتا” لہذا امام(رح) فرمایا کرتے تھے کہ یہ تشہیری مہم جو دشمنوں نے چلا رکھی ہے یہ خود انہيں نقصان پہنچائے گی۔
٭ ہماری قوم نے ایک بڑے بت کو توڑ کر پاش پاش کردیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اقوام عالم اعتراض اور احتجاج کرسکتی ہیں انہيں اپنی طاقت کو عمل کے میدان میں ظاہر کرنا چاہئے جس کے نتیجے میں بڑی کامیابیاں حاصل ہوسکتی ہیں۔
٭ ملت ایران نے شاہ کو سرنگون کیا اور آٹھ سالہ مسلط کردہ جنگ میں کامیاب ہوئی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اقوام اس قسم کے تقابل میں کامیاب ہوسکتی ہیں۔
٭ امام(رح) نے ایک حقیقدناشاره به سرنگونی شاه و پیروزی ملت ایران در هشت سال جنگ تحمیلی افزود: ملت‌ها می‌توانند پیروز باشند.
٭ امام(رح) نے ایک حقیقت یہ دنیا والوں کو دکھائی کہ "ہم فاتح و کامیاب ہوسکتے ہیں لیکن بڑی کامیابیوں کی شرط اول اتحاد اور یکجہتی ہے۔
٭ قرآن مجید کا فرمان ہے کہ ہمارے دشمن ایک دوسرے کے حامی ہیں اور اگر ہم متحد نہ ہوں تو وہ ہمارے ملک کو لالچی نگاہوں سے دیکھ سکیں گے پس قوم کو یک آواز ہونا چاہئے کیونکہ دشمن کو اسلامی ممالک کی جس اخوت کی وجہ سے نقصان اٹھانا پڑا وہ عملی اخوت تھی۔
٭ دشمن استکبار کے مد مقابل ہماری قوم کی وحدت و یکجہتی کو اختلاف میں بدلنا چاہتا ہے، امام کا موقف بھی اس سلسلے میں یہ تھا کہ جہان خوار ممالک (Devourers) ہماری ملت کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کی حسرت قبر میں لے جائيں گے اور ہمیں انتشار سے دوچار نہیں کرسکیں گے۔
٭ پوری قوم کو متحد ہو کر استکبار کے خلاف جدوجہد اور معاندانہ پالیسیوں کا مقابلہ کرنے کے سلسلے میں حکومت اور مذاکراتی ٹیم کی حمایت کرنی چاہغے تا کہ وہ ملت ایران کے حقوق کا دفاع و تحفظ کرسکیں۔
٭ ہماری قوم نے سب سے اعلی سطح پر اور بہترین انداز سے جبر کے سامنے استقامت نیز مزاحمت کی ہے؛ یہ قوم دشمن کی مکاری اور فریب کے سامنے مزاحمت کرنے کی قوت بھی رکھتی ہے اور کبھی بھی اجازت نہیں دے گی کہ دشمن ہمارے اتحاد میں خلل ڈالے کیونکہ یہ اتحاد و یکجہتی عالمی استکبارے کے خلاف جدوجہد کے میدان میں ہماری وحدت کی علامت ہے۔
٭ آج ہماری قوم کا فرد فرد اور تمام سیاسی تفکرات کو مدد کرنی چاہئے کہ ہمارا ملک اور ہماری حکومت ملکی وسائل اور صلاحیتوں سے زيادہ سے زیادہ استفادہ کرکے افراط زر اور بے روزگاری جیسے مسائل پر قابو پانے اور پیداوار بڑھانے میں زيادہ سے زيادہ کامیابی حاصل کرے۔
٭ سب کو ایک دوسرے کا حامی و پشت پناہ ہونا چاہئے تاکہ ہم ترقی کے حوالے سے ایک دن بھی ضائع نہ کریں؛ اور ہمیں امید ہے کہ وہ سیاسی کارنامہ جو 14 جون کو ہماری قوم نے سر انجام دیا وہ قوم کے اتحاد و یکجہتی سے ایک معاشی کارنامے کے ساتھ مکمل ہوجائے۔
٭ ایک مغربی دانشور کا کہنا تھا کہ ایران نے نہ صرف امریکہ کا تعاون حاصل کئے بغیر بلکہ امریکہ کا ڈٹ کر مقابلہ کرکے سائنس اور ٹیکنالوجی میں زبردست ترقی کی ہے اور علاقے میں ایک طاقت کی حیثیت سے ابھرا ہے؛ چنانچہ ہم سب کوشش کرتے ہیں کہ نظام اور حکومت صنعت۔ ٹیکنالوجی، زراعت، معیشت اور ترقی و نشوونما کے تمام تر شعبوں میں روز بروز زيادہ سے زيادہ ترقی کرے اور ماضی کی نسبت زيادہ سے زیادہ کامیاب و کامران ہو۔
٭ امام خمینی فرمائے کرتے تھے کہ "ہمارا حامی خدا ہے” چنانچہ رحمت الہی کے دروزاے ہمارے لئے کھلے ہیں اور ہم خدا کی رحمت و قدرت کے سہارے آگے بڑھتے رہيں گے تاکہ مستکبرین اور استکباری قوتوں کی لالچ بھری نگاہیں ہمارے ملک سے اٹھ جائیں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button