ایران

عالمی اسلامی بیداری اسلامی کانفرنس شروع

shiitenews islamic-awakening netتہران میں آج صبح عالمی اسلامی بیداری کانفرنس کا آغاز ہوا۔ اس کانفرنس کا افتتاحیہ خطاب رہبرانقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا۔ آپ نے اپنے خطاب میں اسلامی انقلابوں کے تشخص اور انہیں درپیش خطروں کےبارے میں نہایت اہم نکات بیان فرمائے۔ رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل پہلی عالمی اسلامی بیداری کانفرنس کے چيرمین ڈاکٹر علی اکبر ولایتی نے کانفرنس کے شرکاء کو خوش آمدید کہتےہوئے کانفرنس کا آغاز کیا۔ 
اسلامی بیداری، دو روزہ کانفرنس18-17 ستمبر
جیساکہ آپ کے علم میں ہے کہ 17 ستمبر سے دارالحکومت تہران میں اسلامی بیداری کے موضوع پر دوروزہ بین الاقوامی کانفرنس شروع ہورہی ہے۔ تہران کی میزبانی میں ہونے والی اس کانفرنس کے مدعوین میں مسلمانوں کے ہر مسلک و مذھب سے تعلق رکھنے والے عمائدین، قائدین، اور اسکالرز موجود ہیں۔اس کانفرنس کا محرک اور باعث رہبر انقلاب اسلامی کے وہ فرامین اور ارشادات ہیں جو آب گذشتہ کئی برسوں خصوصا پچھلےایک سال کے دوران مختلف موقعوں پر بیان فرماتے رہے ہیں۔ دنیا کی نظروں میں بہار عرب کو رہبر انقلاب اسلامی اسلامی بیداری کا مقدس عنوان بہت پہلے عطا کرچکے ہیں اور یہ وہ موضوع کہ جس پر بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی رحمتہ اللہ علیہ خاص تاکید کرتے تھے۔ آپ فرماتے ہیں: نوجوان نسل اور روشن فکر تحریک کی آگاہی اور بیداری کا عمل بڑی تیزی سے فروغ پارہا ہے، اور اپنے قطعی انجام کو، جو بلاشبہ بیرونی طاقتوں کے ایجنٹوں کے خاتمہ، اوراسلامی اقدار کا نفاذ ہے، پہنچےگا۔ ایک اور موقع پر آپ بڑی شیطانی طاقتوں کے بارے میں فرماتے ہیں: مسلمان اقوام کو چاہیے کہ بڑی طاقتوں کو اپنا دشمن اور فریبی سمجھیں مگر یہ کہ اس نظریئے کے برخلاف ان پر عیاں اور ثابت ہوجائے۔ اگر دیکھا جائے تو بڑی شیطانی طاقتوں اور ان کے مقامی ایجنٹوں یا ان سے وابستہ حکمرانوں نے عالمی سطح پر اپنی قومی غیرت و حمیت اور حتی اقتدار اعلی کو نہایت ہی ذلت آمیز طریقے سے گروی رکھ دیا ہے۔ اقتصادی معاشی فوجی حتی علمی میدان میں بھی پیچھے اور پسماندہ ہیں اور اپنی قوموں کو مغرب کا بے دام غلام بنا کر رکھا ہوا ہے۔
اس وقت عالم عرب کی حالت دیکھئے، بیشتر ممالک میں مورثی حکومتیں ہیں جن کا اپنا اختیار صرف اتنا ہے کہ وہ اپنی ذاتی زندگی چاہے جیسے گذاریں، یورپ اور امریکہ میں عیاشی کے لئے جزیرے بک کرائیں، اربوں ڈالر مالیت کے ذاتی سپر لگژری ہوائی جہاز خریدیں، سامان تعیشات آراستہ تیرتے ہوئے محل ( بحری جہاز ) بنائیں اور جتنی اونچی سے اونچی عمارت کھڑی کرسکتے کرلیں، لیکن علاقائی اور عالمی سیاست میں صرف اتنا ہی بولیں جتنا ان سے کہا جائے۔ علاقے کی اسلامی عوامی اور حتی جمہوری تحریکوں کو ہرگز پنپنے نہ دیں۔ قدس کی غاصب صہیونی حکومت کے خلاف زبان کھولنے سے پہلے اس کو کاٹ ڈالیں اور اس طرح کی بہت سی ذلت آمیز ہدایات و احکامات جن پر مو بہ مو عمل کرنا عرب حکام اپنا فریضہ عینی سمجھتے ہیں۔ سن ستاسی کے موسم حج کو تاریخ کبھی نہیں بھلا سکے گی جب مشرکین سے برائت اور بیزاری کا اظہار کرنے والے حجاج کو سعودی فورسز نے حرم امن الہی میں گولیوں سے بھون ڈالا۔ ان حجاج کا قصور صر ف اتنا تھا کہ انہوں نے امام خمینی کے فرمان پر لبیک کہتے ہوئے عصر حاضر کے سب سے بڑے مشرک یعنی امریکہ کے خلاف مردہ باد کانعرہ بلند کیا تھا، فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے اسرئیل کو غاصب حکومت قرار دیا تھا۔ فرقہ پرستی کی نفی کرتے ہوئے اتحاد بین المسلمین کا نعرہ لگایا تھا۔ ظاہر یہ سب باتیں امریکہ کو پسند تھیں نہ اس کی ناجائز اولاد اسرائیل کے لئے خوش آئند تھیں، لہذا اس وقت کےسعودی فرمانروا ملک فہد بن عبدالعزیز نے امریکہ اور اسرائیل کی خوشنودی کے لئے ایک دو کو نہیں بلکہ 400 حجاج کرام کو منی کی بجائے مکہ میں قربان کردیا۔ چھ دسمبر کو1992 بابری مسجد کی انتہا پسند ہندؤں کے ہاتھوں شہادت کے المناک واقعے کے بعد عرب ممالک خصوصا دبئی میں مقیم مسلمانوں کے رد عمل کے بعد ان کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا، شائد لوگوں کو یاد نہ ہو، لیکن لبنان کے خلاف 33 روزہ صہیونی جارحیت اور غزہ کے نہتے اور معصوم شہریوں پر صہیونی حکومت کے جنگی طیاروں کے وحشیانہ حملوں اور معصوم فلسطینی بچوں اور عورتوں کے خون آلود جسم اور بکھرے ہوئے اعضا بدن، آج بھی ذہنوں کو متاثر کئے ہوئے ہیں، لیکن اس زمانے میں بھی مغرب نواز عرب حکمران، امریکہ اور اسرائیل کا ہی کلمہ پڑتے دکھائی دئیے۔ظاہر کہ قومیں اتنی ذلت کو برداشت نہیں کرسکتیں، برداشت اور تحمل کی بھی حد ہوتی ہے۔ چنانچہ بن علی جیسا مغرب زدہ ڈکٹیٹر جب انتہائی رسوائی کے عالم میں بھاگا تو مغرب کے کسی بھی ملک نے بھی اس کو پناہ نہ دی، ایسے موقع پر آل سعود نے اس کو بڑھ کر اپنی آغوش میں لے لیا۔ علاقے میں صہونی حکومت کے سب سے بڑے محافظ کو جب مصر کے ایوان صدر سے نکالا تو سعودی عرب نے اس کو بھی قوم کے عتاب سے بچانے کوشش کی، یمن کا ڈکٹیٹر علی عبداللہ صالح بھی اپنی جان بچاکر اس وقت سعودی عرب میں پناہ لئے ہوئے ہے اور بحرین کے شاہی نظام کو بچانے کے لئے تو سعودی عرب نے اپنی فوج تک بحرین کے گلی کوچوں میں تعینات کررکھی ہے۔ قذافی کے معاملے میں سعودی عرب نے اس لئے چپ سادھ لی کہ وہاں بظاہر خود امریکہ اور مغربی ممالک میدان میں اتر آئے اور لیبیا کے عوامی انقلاب کو منحرف کرنے کی کوشش کی۔ شام کے تعلق سے سعودی عرب کا کردار امریکہ اور صہیونی حکومت کے موقف سے مکمل مطابقت رکھتا ہے۔اسرئیل اور امریکہ دونوں ہی شام میں حکومت کی تبدیلی کے حق میں ہیں لیکن یہاں بھی ان کو اس بات کا یقین نہیں کہ حکومت کی تبدیلی کی صورت میں ان کے موافق کوئی حکومت برسر اقتتدار آئے گی یا موجودہ حکومت کی طرح ان کی مخالف۔اگر حقیقت پسندانہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ نتیجہ بالکل واضح ہو کر سامنے آتا ہے کہ آتاہے کہ دنیا کے جس ملک میں بھی آزادانہ اور منصفانہ انتخابات ہوں گے وہاں امریکہ مخالف حکومت ہی برسر اقتدار آئے گی خصوصا عرب اور اسلامی دنیا میں۔ بہر حال اس وقت تہران ایسے مہمانوں کی پذیرائی کررہا ہے کہ جن کا تعلق اسلامی اور عرب دنیا سے جڑا ہوا ہے اس ناطے ان پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور اس معاملے میں ملت ایران اور ایرانی قیادت واقعا قابل تحسین کہ اپنا فریضہ بخوبی نبھارہی ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button