ایران

مغرب اسلام کا فروغ روکنے کے لئے پیغمبر اسلام (ص) کو تشدد کی نسبت دیتے ہیں. آیت اللہ سبحانی

Ayatullah_Jaffar_Subhaniآیت اللہ العظمی جعفر سبحانی نے ہفتے کی شام کو حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کے حرم مطہر میں جشن بعثت کی تقریبات سے خطاب کرتے ہوئے کہا: دشمن کی ہمیشہ یہی کوشش رہتی ہے کہ مسلمانوں کو تشدد پسند بنا کر متعارف کرائے کیونکہ یورپ میں اسلام تیزی سے فروغ پارہا ہے اور آئندہ چند برسوں میں یورپ میں مسلمانوں کی آبادی عیسائیوں کی آبادی کے برابر ہوجائے گی۔
انھوں نے کہا: یورپی ممالک اسلام کے فروغ  کا راستہ روکنے کے لئے پیغمبر اسلام (ص) کو تشدد پسند شخصیت کے عنوان سے پیش کرتے ہیں۔
انھوں نے کہا: پیغمبر اسلام (ص) نے 25 سالہ نبوت کے دور میں 55 سرایا اور 27 غزوات لڑے ہیں اور 23 برسوں کے عرصے میں اتنی ساری جنگوں کے باوجود صرف آٹھ سو افراد مارے گئے ہیں اور یہ آٹھ سو افراد بھی جرائم پیشہ اور قاتل تھے جبکہ مغربی صاحبان نے ہیروشیما میں صرف چند ہی سیکنڈوں میں ایک لاکھ پچاس ہزار افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔
انھوں نے ان افراد کو عذاب کے فرشتے قرار دیا اور کہا: یورپی حکمران اس قسم کے انسانیت سوز جرائم پر پردہ ڈالنے کے لئے پیغمبر اسلام (ص) کو تشدد کی ناروا نسبت دیتے ہیں۔
انھوں نے یوم بعثت کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: 27 رجب المرجب کو امیرالمؤمنین علی علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ موجود تھے کہ جبرائیل (ع) نے ظاہر ہوکر رسول خدا (ص) کو پیغمبر کے عنوان سے سلام کیا اور اس مبارک روز کا امر مسلم یہی ہے۔
کلام و تاریخ اور فقہ و اصول کے اس عالم و استاد نے کہا: اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ قرآن بھی ماہ رمضان میں نازل ہوا اور ابلاغ رسالت بھی اسی ماہ میں انجام پایا ہے تاہم اہل تَشَیُّع ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی حدیثوں کی بنیاد پر عقیدہ رکھتے ہیں کہ بعثت کے دن صرف رسالت کا ابلاغ ہوا (اور رسول اکرم (ص) کو رسالت کی بشارت ملی) اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات بابرکات روحانی لحاظ سے بالکل تیار ہوگئے تو ماہ مبارک رمضان میں قرآن مجید نازل ہوا۔
آیت اللہ العظمی سبحانی نے "پیدائش سے وصال تک” پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کی دائمی و ابدی عصمت کی نقلی (قرآن و سنت سے منقولہ) اور عقلی دلائل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بعثت سے قبل بھی معصوم عن الخطا تھے کیونکہ ایک انسان کو جب ایک معاشرے کی قیادت سنبھالنی ہو اس کی زندگی میں حتی ایک سیاہ دھبہ بھی نہیں ہونا چاہئے کیونکہ سیاہ دھبہ ہونے کی صورت میں عوام اس کی اطاعت نہیں کریں گے۔ اسی بنا پر جب رسول اللہ (ص) مقام نبوت پر فائز ہوئے تو کوئی بھی آپ (ص) پر حتی چھوٹا سا الزام بھی نہیں لگا سکا۔ ہاں مشرکین نے ان پر دیوانگی اور کہانت (ساحر ہونے) کا الزام لگایا اور اس کی وجہ بھی یہ تھی کہ آپ (ص) انسانوں کو اس زمانے کی روزمرہ زندگی کی مخالف سمت کی دعوت دے رہے تھے۔
حضرت آیت اللہ العظمی سبحانی نے کہا: پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے آباء و اجداد سب کے سب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین حنیف کے پیروکار تھے؛ رسول خدا (ص) کے اجداد میں سے کسی نے بھی بت کی پوجا نہیں کی؛ حتی جب ابرہہ کے لشکر نے مکہ معظمہ پر حملہ کیا تو حضرت عبدالمطلب علیہ السلام نے بتوں سے مدد نہیں مانگی بلکہ در کعبہ کو پکڑ کر کہا: یا رب! تو ہی اس گھر کا مالک ہے اور تو ہی اس حفاظت کرنا۔
انھوں نے بعثت سے قبل رسول خدا (ص) کے دین کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے کہا: امام علی علیہ السلام کے کلام کے مطابق خدا کی طرف سے ایک فرشتے کو دوسال کی عمر سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پرورش کی ذمہ داری سونپ دی گئی تھی جو مختلف امور میں آپ (ص) کی راہنمائی کیا کرتا تھا اور آپ (ص) نہ تو ابراہیم (ع) کے دین پر تھے اور نہ ہی موسی (ع) اور عیسی (ع) کے دین کے پیروکار تھے بلکہ اسی فرشتے کی تعلیمات پر عمل پیرا تھے۔
حضرت آیت اللہ العظمی سبحانی نے کہا: رسول خدا (ص) کو ان پڑھ کہنا آپ (ص) کی ایک قسم کی توہین ہے کیونکہ آپ (ص) کا سینہ علوم و معارف کا سمندر تھا؛ درست ہے کہ آپ (ص) نے کسی سے تعلیم حاصل نہیں کی تھی لیکن سبق نہ پڑھنے اور ان پڑھ ہونے میں فرق ہے۔ گو کہ آپ (ص) کسی کے درس میں حاضر نہیں ہوئے تھے اور کسی کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ نہیں کیا تھا تاہم آپ (ص) نے تمام معارف و تعلیمات کو وحی کے توسط سے حاصل کرلیا تھا اور آپ (ص) کا علم وہبی تھا (جو خداوند متعال نے آپ (ص) کو عطا فرمایا تھا)۔
آیت اللہ العظمی سبحانی نے تمام انبیائے الہی کے احترام کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا: انبیائے الہی کا دین تعلیمی مدارج و مراتب (کلاسوں) کی مانند ہے اور انسان اپنے استعداد و صلاحیت کے مطابق ان میں سے کسی ایک جماعت میں حاضر ہوئے ہیں۔
حوزہ علمیہ قم کے اس عالی مرتبت استاد نے کہا: تمام انبیاء عظام علیہم السلام استاد اور معلم تھے جنہوں نے اپنے زمانے کے انسانوں کی قابلیت کی بنیاد پر انہیں الہی معارف کی تعلیم دی ہے اور چونکہ پیغمبر (ص) کے دور میں انسان کی عقل کامل ہوگئی تھی لہذا آپ (ص) نے دین خاتم انسانوں کو پہنچا دیا۔
آیت اللہ العظمی جعفر سبحانی نے آخر میں نوجوانوں کو مخاطب کرکے کہا: نوجوانوں کو ہر روز ایک سے دو گھنٹوں تک مطالعہ کرنا چاہئے کیونکہ جو نوجوان مطالعہ کرے گا اس کا ایمان و اخلاق مستحکم ہوگا۔
حضرت آیت اللہ العظمی سبحانی نے کہا: رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ائمۂ اطہار علیہم السلام کے بارے میں مطالعہ کیا کریں اور فروغ ابدیت اور پیشوایان معصوم (ع) کے نام سے دو کتابوں کا ضرور مطالعہ کریں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button