مقالہ جات

امریکہ اورسعودی عرب تعلقات: تندوتیز طوفانوں کے زد میں!دوسری قسط

ahmad maliجو کاراوئی اس نے حکومت بحرین جس کی خود سعودیہ مدد بھی کر رہا تھا پرامن احتجاج کرنے والے جس میں اکثریت شیعوں کی تھی کے ساتھ جاری رکھا بلکہ سعودی عرب نے تو حالات خراب کرنے میں اوبارژی کے ساتھ مزید تعاون کیا اس لئے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ بیداری کی یہ لہر بحرین سے گذر کر سعودی عرب کے مشرقی علاقے تک پہنچ جائے جس کے درمیان صرف ۲۵کلو میٹر کا شاہ فہد پل ہے ۔ 

اس دوران سقوط مبارک کے بعد امریکہ اور سعودی عرب بھی مصر کے حوالے سے کوئی خاطر خواہ مفاہمت تک نہیں پہنچے بلکہ معاملہ برعکس ہوا کہ دونوں الگ الگ موقف لے بیٹھے، اس حوالے سے ایک تحقیقی ادارے کی رپورٹ کے مطابق دونوں ممالک کے اس اختلاف کو وہ یوں بیان کرتا ہے کہ مسئلہ مصر امریکی سیاست کو سعودی عرب کے لئے تاریخی اعتبار سے زیادہ واضح کرکے دکھایا ہے۔ اس لئے ریاض پر اچانک یہ بات اس وقت بم بن کر گری جب اسے پتہ چلا کہ اوباما رژیم سقوط مبارک کے بعد اخوان المسلمین کی حکومت کو مدد کررہا ہے۔جو ریاض کے نزدیک امریکہ کی سنگین غلطی شمار ہوتی ہے۔ اس لئے کہ اخوان المسلمین کی ترقی سعودی عرب کے شاہی نظام کے لئے انتہائی خطرناک امر ہے۔ کیونکہ اخوان المسلمین مصر میں ایسے نظام کی خواہاں تھی جہاں کے دینی تشریحات سعودی عرب کی تشریحات سے بالکل مختلف تھی۔ بلکہ سابق روسی وزیر Densکے مطابق ’’ دراصل سعودی عرب کے لئے اس کے دو بڑے دشمن خطے میں موجود ہیں ایک اخوان المسلمین ہے جبکہ دوسرا ایرا ن ہے۔ اس لئے یہ کوئی عجیب بات نہیں ہے کہ ریاض اور اس کے خلیجی ممالک کے حلیف مصر کے حالیہ حکومت کو مددنہ کرنا اور اسی لئے واشنگٹن نے مرسی حکومت کو بچانے کے لئے ۱۰۳ بلین ڈالر خرچ کئے تھے تو اس کے مقابلے میں سعودی عرب اس کے حلیف خلیجی ممالک نے اسے گرانے کیلئے اس سے ۱۲ گنا زیادہ مالیت خرچ کی۔
عرب بیداری تحریک میں مشرق وسطیٰ کا صرف شام وہ واحد ملک ہے جہاں شروع سے پرامن احتجاج اور مظاہرے ہوئے اگرچہ ریاض کے سعودی علماء کی طرف سے مظاہرات کوروکنے کے حوالے سے سخت قسم کے فتوئے بھی آئے تھے اس حوالے سے سعودی میڈیا میں بڑے پیمانے پر پروپیگنڈہ کیا گیا جس کا مقصد صرف اورصرف یہ تھا کہ ملک کے اندر یا اس سے باہر بحرین ،مصر اور تیونس وغیرہ میں جاری عوامی تحریکوں کو روکنا تھا۔ان مظاہروں کے نتیجے میں بہت سارے سرکاری اور غیر سرکاری املاک کو نقصان بھی پہنچایا گیا۔اور شام میں اس پرامن احتجاج کو بعد میں عسکری رنگ دینے کی کوشش کی گئی اورکوشش کی گئی کہ بشار الاسد کی حکومت کو فوج کے ذریعے ٹیک اوور کیا جائے۔
ہر ذی شعور انسان کے لئے یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ سعودی عرب کی اس کاروائی کے پیچھے کیا راز ہے جو وہ شامی حکومت کے خلاف استعمال کررہا ہے۔دراصل سعودی عرب اس ملک کے ذریعے اپناایک تاریخی بدلہ لینا چاہتا ہے ۔اور جو کچھ عراق کی سرزمین پر رونما ہوا وہ ایران کے فائدے میں چلا گیا اب شام کے حالات اگر تبدیل ہو جائیں تو ان کے مطابق ایران کو بڑانقصان ہوگا کہ وہ لبنان میں اپنے حلیف حزب اللہ اور فلسطین میں مزاحمتی تحریکوں کو بڑی آسانی کے کھو بیٹھے گا ۔اس حوالے سے اس پورے کھیل میں سعودی عرب اکیلا نہیں ہے بلکہ اس نے اپنے ساتھ خطے کے چند دیگر ممالک کے ساتھ یورپی ممالک کو بھی رکھا ہوا ہے اور اس پوری ٹیم کی سرپرستی امریکہ کر رہا ہے اس لئے سعودی عرب نے سب سے پہلے فرقہ وارانہ نعرہ بلند کیا کہ ’’ ہم شام میں سنی اکثریت کی مدد کررہے ہیں جو اقلیت علویوں کے زیر تسلط ہیں‘‘۔ یہاں پر شیخ صالح لحیدان جو سابق شاہی قاضی بھی رہ چکا ہے نے صراحت کے ساتھ یہ بات کہی ہے اگر ہم اسے فتویٰ شما ر نہ کریں ۔’’ شام کے اس شورش میں وہاں کے ایک تہائی عوام یعنی تقریبا ۸۰ لاکھ لوگوں قتل کرناجائز ہے تاکہ باقی دوتہائی لوگ بچ سکیں۔
پچھلے سال اگست کے مہینے دمشق پر کئے گئے ایٹمی حملے کے حوالے سے سعود ی قیادت امریکی صدر اوباما کے سامنے بڑی خوف زدہ دیکھنے میں آئی ہے۔
دراصل یہ موقع تھا کہ جس کے زریعے امریکی فوج شامی حکومت کو آسانی کے ساتھ ختم کرسکتی تھی اور جس کے ذریعے اوباما کو کافی امیدیں بھی دلائی گئی تھیں ۔لیکن یہ تمام امیدیں سعودیوں کے لئے اس وقت عذاب بن کر گریں جب امریکہ اور روس دونوں اس پر سخت طریقے سے برس پڑے اس لئے کہ اس کے ذریعے شامی حکومت کا خاتمہ کرنا تھا جو نہیں ہوا ۔ اب یہاں سعودی عرب دوبارہ ذلیل ہوا، ایک امریکہ کے ساتھ شام پر ایٹمی حملے میں شرکت کرکے جس سے کچھ حاصل نہیں ہوا لیکن خطے کے اندر رسوا ضرور ہوا۔
دوسراکتوبر کو جینوا معاہدہ کے اعلا ن سے جو ایران اور 1+5ممالک کے درمیان ایٹمی پروگرام کے حوالے سے تھا جہاں ایران سعودی عرب کو اوباما رژیم کے سامنے رسواکروانے میں کامیاب ہوا ۔ یہاں بات صرف معاہدے سے متعلق نہیں تھی بلکہ جو طریقے اختیار کئے گئے کہ انتہائی خفیہ طریقے سے امریکی اور نمائندوں کے درمیان پچھلے آٹھ ماہ سے جینوا معاہد سے قبل مختلف مذاکرات ہوتے رہے جو شاید سعودی قیادت کے لئے انتہائی رسوائی کا سبب ثابت ہوا کہ اس نے یہ احسا س کیا کہ اس کی حیثیت اب اپنے حلیف کے سامنے ایک فریب زدہ بیوی کی سی ہو گئی ہے۔ جب اسے معلوم ہوا کہ امریکہ اور ایران کے درمیان خفیہ مذاکراتی عمل جاری ہے جس میں اسے پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔حالانکہ یہ تمام کاروائیاں اس کے نزدیکی ملک عمان میں ہورہا تھا جو اس کے ساتھ خلیجی تعاون کونسل کا ممبر بھی ہے ۔لیکن ان تمام کے باوجود سعودی عرب کو نہ اس کے حلیف امریکہ نے اطلاع دی اور نہ ہی اس کے شریک ملک عمان نے ان مذاکرات کے بارے میں اس کو خبردی کہ اندرون خانہ اس وقت کیاہو رہا ہے؟
جاری ہے۔۔

تحریر:ڈاکٹراحمد ملی 

شعبہ بین الاقوامی سیاسیات لبنان یونیور سٹی،لبنان
۔۔۔گزشتہ سے پیوستہ۔۔

متعلقہ مضامین

Back to top button