کالعدم تنظیموں کیخلاف آپریشن ضروری ہے!
موضوعات بے شمار ہیں، حساس اور فوری نوعیت کے، چہلم حضرت امام حسینؑ کی آمد آمد ہے، ریاستی مشینری دہشت گردوں کے سامنے جھکتی نظر آتی ہے۔ سانحہ راولپنڈی کے محرکات ابھی تک پوشیدہ ہیں اور اس سانحے کی آڑ میں امام بارگاہوں پر حملے کرنے والوں کا ابھی تک گرفتار نہ کیا جانا حکومتی ناکامی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ علامہ دیدار جلبانی کے قاتلوں کو تاحال گرفتار نہ کیا جا سکا اور علامہ ناصر عباس کی شہادت بھی حکومتی ناکامی کا ہی منہ بولتا ثبوت ہے۔ راولپنڈی کی گریسی لائن میں امام بارگاہ کے باہر خودکش حملہ بجائے خود ایک لمحہ فکریہ ہے۔ حکومت اور اس کے دیگر ادارے دہشت گردوں اور دہشت گردی کے محرکات کو ختم کرنے کے بجائے سارا زور اس بات پر لگا رہے ہیں کہ جلوسوں کے روٹ اگر تبدیل کر دیئے جائیں تو؟ سوال مگر یہ ہے کہ کیوں؟ صرف اس لیے کہ جلوس عزا کچھ گروہوں کے اسلاف کے کردار کی پردہ کشائی کرتے ہیں۔؟ سانحہ راولپنڈی بلاشبہ افسوس ناک واقعہ تھا لیکن اس کی آڑ میں مسلح گروہوں کو من مانی کی اجازت دینا ریاستی کمزوری کی شرمناک علامت ہے۔
شمس الرحمن معاویہ کی ہلاکت، جو بہرحال کالعدم سپاہ صحابہ کی اندرونی چپقلش کا نتیجہ تھی، اس کی آڑ میں سڑکوں پر اسلحہ بردار جلوس اور نفرت و اشتعال پر مبنی نعرے بازی کسی بڑی مگر تکلیف دہ صورت حال کا پتہ دیتی ہے۔ جب بھی کسی مذہبی رہنما کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جاتا یا کوئی ایسا واقعہ ہوتا ہے جس میں جلوس عزا کو نشانہ بنایا جاتا ہے تو مختلف حلقوں کی جانب سے مذہبی ہم آہنگی کے لیے مختلف نکات بھی تراش کر پیش کیے جانے لگتے ہیں۔ اچھی بات ہے، اتحاد و اتفاق سے ہی امت کے نحیف جسم میں طاقت آئے گی، لیکن سوال مگر یہ ہے کہ کیا مذہبی ہم آہنگی کی جستجو کرنے والوں نے کبھی ان خطوط اور محرکات پر بھی غور کیا جو پاکستان سمیت پوری امت مسلمہ میں کشت و خون کا سبب بن رہے ہیں؟ لاؤڈ سپیکر اور چند علماء پر پابندی بہت پرانی بات ہے، راجہ بازار میں تعلیم القرآن کے مہتمم صاحب نے جب لاؤڈ سپیکر پر یزید ملعون کے حق میں تقریر شروع کی تو اس وقت بھی تو لاؤڈ اسپیکر کے غلط استعمال پر پابندی ہی تھی نا!۔ غلط اور درست کا تعین مولوی البتہ اپنی طبیعت اور مزاج کے مطابق خود طے کرنے لگ گیا ہے۔ کسی کی ذاتی و وراثتی خواہشات کو بنیاد بنا کر دین کی نئی تعبیر نہیں کی جاسکتی۔ امت کے دردمند علماء کو اس حوالے سے اپنا کرداد نبھانا ہوگا۔
کیا یہ سچ نہیں کہ شیعہ و سنی کے درمیان صدیوں سے اختلافات موجود ہیں اور یہ اختلافات بالکل علمی نوعیت کے ہیں۔ اب مگر جو سلسلہ شروع ہوا وہ علمی کے بجائے جذباتیت اور ذاتی و وراثتی خواہشات کی تکمیل کے ایجنڈے کا ہے۔ علمی اختلافات جب کسی قوم کے انتہا پسند جذباتی گروہ کے ہاتھ لگ جاتے ہیں تو یہ اختلافات علمی بحث و مباحث کی حدیں پھلانگ کر دشمنی اور ہٹ دھرمی کی وادیوں میں خیمہ زن ہو جاتے ہیں اور یہی سے قتل و غارت گری کا آغاز ہوتا ہے۔ فتوے کی زبان میں بات کرنے والے دلیل کو نہیں مانا کرتے۔ علماء کی توہین اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگی کہ اب جس کو بھی وضو کا طریقہ اور نماز جنازہ آتی ہے وہ اپنے نام کے ساتھ ’’علامہ و مفتی‘‘ کا سابقہ لگا کر نئے نئے فتوے تراشنے لگتا ہے۔ ایک گروہ کے ’’مفت ہی‘‘ تو باقاعدہ مسلمانوں کی ایک بڑی اور قابل ذکر و قابل فخر تعداد کو کافر قرار دیتے رہتے ہیں اور آج کل ان کا سارا زور اس بات پر ہے کہ ریاستی سطح پر ان کی اس خواہش کا احترام کر لیا جائے۔ یہ اسی ریاست سے اپنی خواہشات اور فتنے کی تکمیل چاہتے ہیں جو ریاست انھیں کئی ایک بار کالعدم قرار دے چکی ہے۔
ان کا پہلا ٹارگٹ محرم الحرام کے جلوس اور اگلا ٹارگٹ عید میلاد النبی کے جلوس ہیں۔ سوال البتہ یہ ہے کہ کیا صدیوں کی ان مذہبی روایات کو کسی ستم پیشہ انتہا پسند گروہ کی خواہشات پر قربان کیا جاسکتا ہے؟ ناممکن، مسلمانوں کے دونوں بڑے گروہ دین کی اس نئی انتہا پسندانہ تعبیر کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔ شیعہ اور سنی اپنے درمیان پائے جانے والے علمی اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کے ساتھ شیر و شکر ہیں۔ سوال مگر ان کالعدم تنظیموں کا ہے، جو ریاست کی جانب سے کالعدم قرار پا کر پہلے سے زیادہ سرگرم ہوچکی ہیں۔ ان کالعدم تنظیموں کی سرگرمی اور ان کی عالمی سرپرستی کے سامنے ریاست کی کمزوری نئے حوادث اور خدشات کو جنم دے رہی ہے۔ فرقہ وارانہ خون ریزی، ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری جن کا سرمایہ حیات ہو، ان سے رواداری، مذہبی ہم آہنگی اور اتحاد امت کے لیے کسی بڑی قربانی کی امید ایسے ہی ہے، جیسے تپتے صحراؤں میں جگہ جگہ پانی کے میٹھے اور ٹھنڈے چشموں کی آس۔
ریاست کو اپنی پالیسی اس اہم مرحلے پر تبدیل کرنا ہوگی۔ طالبان کا جواب آچکا ہے، حکومت نے گذشتہ روز نئی قومی سلامتی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کو اپنی پہلی ترجیح قرار دیا، مگر جواب میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے نئے سربراہ مولوی فضل اللہ نے کہا کہ ’’حکومت سے مذاکرات بے معنی ہیں۔ ہم حکومت کے خاتمے اور ملک میں شریعت کے نفاذ کے لئے کارروائیاں کرتے رہیں گے۔‘‘ اس واضح اور غیر مبہم جواب کے بعد ریاست کے پاس دہشت گردوں کیخلاف سوائے آپریشن کے کیا آپشن باقی رہ جاتا ہے؟ یہ سوال میں اپنے کئی ایک کالم میں اٹھا چکا ہوں کہ کیا تاریخ میں ایسی کوئی مثال ہے کہ ریاست نے کسی دہشت گرد گروہ کے ساتھ مذاکرات کرکے اسے ریاستی آئین و قانون کا پابند بنایا ہو؟ کیا ریاست کی طرف سے کالعدم قرار دی جانے والی تنظیموں سے مذاکرات ریاست کی کمزوری نہیں ہوتی۔؟
سادہ بات مگر یہ ہے کہ دہشت گردوں اور انتہا پسندوں نے ایک منظم طریقے سے مسلح کارروائیاں بھی کیں اور پارلیمان کے اندر اپنے حمایتی بھی پیدا کئے۔ گلی کوچوں میں اپنا نیٹ ورک بھی منظم کیا اور قبائلی و علاقائی روایات کو دین کو شریعت کا نام دینے لگے۔ اپنے فہمِ اسلام کو پورے معاشرے پر مسلط کرنے کی ایک تحریک بڑے زور و شور سے انتہا پسندوں نے شروع کر رکھی ہے۔ دین مبین کے عدل پسند پیروکاروں اور اعتدال پسند قوتوں پر واجب ہے کہ وہ ہر اس شرانگیزی کا مقابلہ کرنے کے لیے میدان عمل میں نکلیں، جو معاشرے میں افراتفری اور خون ریزی کو رواج دے رہی ہو۔ حکومت کے پاس البتہ کالعدم تنظیموں کے خلاف سوائے آپریشن کے اور کوئی آپشن نہیں، آج نہیں تو کل، کل نہیں تو پرسوں۔ نون لیگ کو نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے پرانے اتحادیوں کے خلاف آپریشن کرنا ہی پڑے گا۔