مقالہ جات

اسلامی ورثہ کی پامالی و انہدام۔۔ذمہ دار کون؟

janat:مملکت شام یا سوریا میں نواسی رسول ص بی بی زینب س کے مزار پر حملہ کرنے والی آئیڈیالوجی کوئی نئی بات نہیں بلکہ اسلام دشمن نواصب خوارج و تکفیری عناصر بالخصوص بنی امیہ بنی عباس و گزشتہ صدی میں آل سعود یہ کام کرتے رہے ہیں۔ حالانکہ دنیا بھر کے مذہب و تہذیبوں کی طرح اسلام بھی ایک ذندہ جاوید مزہب اور مکمل ضابطہ حیات ہیں۔آج بھی دنیا کے مختلف مذاہب اور تہذبیں بشمول مسلمان اپنا ورثہ محفوظ کر رہے ہیں، بلکہ اس کے لئے کوششیں کر رہے ہیں۔ قبلہ اول بیت المقدس کو صیہونیوں کے چنگل سے چھڑانا اور اس کے لئے کوشش کرنا بھی اس لئے ہے کہ قبلہ اول بیت المقدس دین حق اسلام کا ہی ورثہ اور مسلمانوں کا پہلا قبلہ ہے قبلہ اول بیت المقدس کی پامالی تو صیہونیوں کے ہاتھ ہوئی لیکن افسوس صد افسوس حجاز مکہ و مدینہ میں اسلامی ورثہ اور شعائر اللہ کی پامالی اور انہدام اپنے آپ کو مسلمان کہنے والے وہابیوں آل سعود کے ہاتھ ہوئی اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ آل سعود کی مجرمانہ کردار کا اس سے بڑھ کر کیا ثبوت ہو سکتا ہے کہ حجاز کی مقدس سرزمین پر کئی دہائیوں سے قابض آل سعود کے مطلق العنان بادشاہوں کے ورثے کو محفوظ بنانے کے لئے کروڑوں ڈالرز اور ریال کے منصوبے شروع کر دئیے گئیے ہیں۔۔۔۔لیکن آل رسول ص اور اہلبیت اطہار  کے صدیوں سے قائم مزارات اور مساجد و مقدس مقامات اسلامی ورثے کو منہدم کر دیا گیا اور یہ سلسہ آج بھی جاری ہے۔۔

سوریا یا مملکت شام کے دارالخلافے دمشق کے مضافات میں واقعے نواسی رسول ص حضرت بی بی زینب سلام اللہ علیہ کے مزار پر تکفیری و وہابی نظریات کے حامل القاعدہ النصرہ و طالبان دہشت گردوں کے حملے نے اگر ایک طرف قلب اطہر رسول ص و آل رسول ص اہلبیت علیہم سلام کو زخمی کردیا ہے تو دوسری طرف دنیا بھر میں کروڑوں مسلمانوں کے جزبات مجروح کرکے عالمی احتجاج شروع ہو گیا ہے۔ بی بی زینب کے مزار اقدس پر یزید وقت امریکہ کی ایما پر حملہ کرکے دراصل تکفیری و وہابی نظریات کے حامل القاعدہ النصرہ و طالبان دہشت گردوں نے یہ بات ثابت کردی ہے کہ یہی دور حاضر کے ماڈرن یزیدت اور خوارج ہیں، کیونکہ تکفیری و وہابی نظریات کے حامل القاعدہ النصرہ و طالبان دہشت گردوں کا یہی گروہ عراق افغانستان اور پاکستان میں بھی مساجد و مقدس مقامات کو خون کی ہولی میں رنگین کر رہے ہیں اور اسی نظریہ وہابیت نے بیسویں صدی کے آغاز میں برطانوی استعمار آل سعود کی شکل میں مکہ و مدینہ کے مقدس مقامات جنت المعلی اور جنت البقیع میں اہلبیت ع رسول ص و اصحاب رض کے روضے مسمار کرکے یہاں تک کہ روضہ رسول ص کی مسماری کے فتوے دئیے تھے، لیکن عالم اسلام میں متوقع شدید ردعمل اور قادیانیوں کی طرح غیر مسلم قرار دئیے جانے کے ڈر سے آل سعود و وہابیوں نے یہ کام روکے رکھا۔ پاکستان کے جید علما و سکالرز جیسے مفتی سرفراز نعینی اور نورالحق قادری بارہا اس بات کا تذکرہ اپنے لیکچرز و انٹرویو میں کر چکے ہیں کہ آل سعود کو روضہ رسول ص کی تقدس کا کوئی لحاظ نہیں صرف اور صرف حج و رمضان سیزن میں اگر کمائی نہ ہوتی تو آل سعود مکہ و مدینہ کے باقی ماندہ مقامات مقدسہ بھی کب کے مسمار کر چکے ہوتے۔

تکفیری و وہابی نظریات کے حامل القاعدہ النصرہ و طالبان دہشت گردوں کے ہاتھوں بی بی زینب کے مزار اقدس پر حملہ اس وقت ہوا ہے جب تازہ ترین رپورٹوں کے مطابق تحریک طالبان پاکستان یا ٹی ٹی پی کے سینکڑوں دہشت گرد دمشق میں داخل ہوئے ہیں۔۔۔۔یہ اقدام پاکستان کی سیکورٹی اداروں کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان اور اگر طالبان کو امریکی اشیرباد کے تحت ریاستی سطح پر دمشق پہنچایا گیا ہے تو یہ بات واضح ہے کہ بی بی زینب کے مزار اقدس پر حملے کی زمہ داری براہ راست ان اداروں کے زمہ داران پر بھی عائد ہوتی ہے۔۔وہی بی بی زینب س جس نے دربار یذید لعین میں یذید کو للکار کر کہا تھا کہ تو چاہے جتنا جتن کرلیں ہم اہلبیت ع محمد و آل محمد ص کی محبت تو دلوں سے ختم نہیں کرسکتا،،،یہی وجہ ہے کہ مزار اقدس پر حملے کے بعد عالمی سطح پر احتجاج جاری ہیں۔۔اور حکیم الامت مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال نے اسلام کی بقا کو دو ابواب حسینی ع و زینبی س کردار میں تقسیم کرکے کیا خوب نقشہ پیش کیا ہے

حدیث عشق دو باب است، کربلا و دمشق

یک حسین  رقم کرد و دیگر زینب س

نواسی رسول ص حضرت بی بی زینب سلام اللہ علیہ کے مزار پر تکفیری و وہابی نظریات کے حامل القاعدہ النصرہ و طالبان دہشت گردوں کے حملے کرنے والے بزدل خوارج کے لئے مولانہ ظفر علیخان کا یہ شعر ہی کافی ہے کہ اب بھی زمانے میں اہلبیت ع کا نام روشن اور اسلام دشمن جگر خوارہ ہندہ و ابوسفیان کی سفیانی نسل یذید لعین اور اس کے اجداد کا نام لعنتوں کا حقدار ہے۔

اب بھی چمک رہا ہے حسین و علی کا نام

اور خاک اڑ رہی ہے یذید و زیاد کی

سوریا دمشق یا برصیغر کی اصطلاح میں مملکت شام میں گزشتہ دو سالوں سےجاری شورش دراصل غیر ملکی یلغار کے اندر رائے عامہ کے جائزوں کے مطابقپاکستان سمیت 29 ممالک سے القاعدہ و طالبان سے منسلک جنگجو فساد بنام
جہاد کے تحت مشغول ہیں(پاکستان سے دمشق کے لئے فساد بنام جہاد کے لئے ایکسال پہلے وزیرستان سے جانے والے طالبان و القاعدہ سے وابستہ معروف چیچنکمانڈر روسلان کیلائیو حلب شام کے مقام پر درجنوں جنگجووںسمیت پہنچ چکےتھے جس پر برمنگھم سے پاکستانی نژاد برطانوی رکن پارلیمنیٹ خالد محمود نےچیخ چیخ کر احتجاج بھی کیا کہ پاکستانی اور برطانوی خفیہ ادارے شامیباغیوں کے لیے ہونے والی بھرتی سے چشم پوشی کر رہے جس کے نتیجے میں
پاکستان اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں نوجوانوں کو ضروریتربیت کے بعد دمشق کے محاذ پر امریکی و اسرائیلی مفادات کے لئے بھجوایاگیا۔۔۔۔۔ایک سال کی طویل خاموشی کے بعد گزشتہ دنوں ایک بار پھر چونکا
دینے والے میڈیا رپورٹس اور تحریک طالبان پاکستان کے عہدیداروں کی تصدیقکہ طالبان دمشق میں بشار الاسد حکومت کے خاتمے کے لئے امریکی امامت میںجہاد کے لئے تازہ دم افرادی قوت بھیج رہی ہیں ایک بار پھر اس موضوع کومیڈیا کے زریعے بازگشت سنائی دی ہے۔۔۔حالانکہ پاکستانی طالبان کی سوریایا شام میں موجودگی کوئی انہونی بات نہیں سوشل میڈیا اور سریا ٹیوب نامیایک ویڈیو سائیٹ میں دمشق میں ہلاک ہونے والے پاکستانی طالبان کی لاشوںکی ویڈیوز گوگل سرچ پر بھی دیکھی جاسکتی ہیں۔۔
حیرت انگیز امر یہ ہے کہ سوریا میں نام نہاد جہاد اصل میں فساد کی تمامتر نگرانی اور امامت امریکہ بہادر کر رہا ہے کہ جو دہشت گردی کے خلاف نامنہاد جنگ اور القاعدہ و طالبان اور کمیائی ہتھیاروں کے بہانے افغانستانو عراق کو تباہ و برباد کر چکا پے اب یہی امریکہ اپنے ناجائز اولاداسرائیل کو استحکام دینے اور سوریا میں اسرائیل مخالف بشار الاسد کیحکومت کے خاتمے کے لئے القاعدہ اور اس کے زیلی تنظیموں النصرہ اور طالبانجییسے گروہوں کی سپرستی کرکے اپنے پٹھو عرب ممالک بالخصوص قطر سعودی عرباور نیٹو کے پلیٹ فارم کا ناجائز فائدہ لینے والے ترکی کی مدد سے امریکہاسلحہ سے لیکر لاجسٹک سپلائی و ڈالرز اور دنیا بھر سے جنگجووں کو جہادشام کے لئے بھجوا رہا ہے۔ سوریا یا شام میں موجود فلسطین کی حامی اوراسرائیل مخالف بشار الاسد کا واحد جرم یہ ہے کہ بشار الاسد کی حکوم
اسارئیل مخالف گروہوں حماس و حزب اللہ کی طرفدار اور لبنان و غزہ پرصیہونی جارحیت میں فلسطین کاز کی حمایت میں اہم کردار ادا کرتا رہا ہے
اور اب بھی ادا کر رہا ہے مشرق وسطی میں شام کی جغرافیائی اہمیت سب سےذیادہ اسلئے ہے کہ شام کی سرحدیں لبنان عراق ترکی کے علاوہ مقبوضہ فلسطینجولان یا گولان کی پہاڑیوں پر قابض اسرائیل سے بھی ملتی ہیں۔ امریکہ اوراسرائیل نے مشرق وسطی کی باقی عرب ریاستوں کو تو اپنی لونڈی بنا دیا ہےاگر واحد رکاوٹ ہے تو وہ سوریا یا شام ہی ہے امریکہ و اسرائیل اور یورپییونین کی طرف سے جہاد شام کی سرپرستی کا مقصد اگر ایک طرف شام میںاسرائیل نواز حکموت کا قیام ہے تو دوسری طرف شام پر قبضہ جمانے کی صورتمیں شام سے متصل لبنان میں اسرائیل مخالف مزاحمتی تحریک حزب اللہ اور اسکے طرفدار غزہ فلسطین میں موجود حماس کے خلاف گھیرا تنگ کرکے اپنے ناپاکمقاصد حاصل کرنا ہیں۔۔۔یہی وجہ ہے کہ حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصراللہ نے اس سازش کا پہلے سے ادراک کرتے ہوئے لبنان کی سرحد سے متصل قوصیرشہر میں حزب اللہ کے جنگجووں کو شامی فوج کی حمایت میں بھجوا کر لبنان سےمتصل قصویر شہر کو آذاد کرکے امریکی و اسرائیلی جہادیوں 29 ممالک کےباغیوں کو ایسی شکست دی کہ اسرائیل و امریکہ کو جولائی سن دو ہزار چھ کیجنگ یاد دلادی ایسی جنگ جسمیں حزب اللہ نے اسرائیل کو باوجود اس کےبدترین شکست دی جب وہابی مفتیوں نے اسرائیل کی حمایت اور حزب اللہ کےخلاف فتوے تک دئیے تھے (یاد رہے حزب اللہ نے یہ جنگ اسرائیل کی طرف سےفلسطین میں حماس کے گرد گھیراتنگ کرنے اور حماس کے خلاف مظالم کا بدلہلینے کے لئے قبلہ اول کے تحفظ کے لئے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر لڑی اگرچہ اس وقت بھی مشرق وسطی بالخصوص آل سعود کے درباری وہابی مفتیوں نےاسرائیل اور حزب اللہ کی جنگ میں حزب اللہ کی حمایت کو کفر اور حزب اللہکے مقابلے میں اسرائیل کی حمایت کا اعلان کیا تھا اور آج بھی یہ سلسلہجاری ہے کہ جب آل سعود کے وہابی مفتی اور قطر کا مفتی اعظم قرضاوی اپنےفتووں اور جمعہ کے خطبات میں چیخ چیخ کر اور اللہ کے واسطے دے کر امریکہسے شام یا سوریا میں مجاہدین کے لئے مذید اسلحہ بیجنے کی فریادیں کر رہیںہیں اور دوسری طرف نام نہاد مجاہدین کی جنسی پیاس بجھانے کے لئے جہادنکاح جیسے فتوے دیکر تیونس مصر و دیگر عرب ممالک سے نوجوان لڑکیاں تکپہنچا رہے ہیں، اس شرمناک فعل نے تحریک طالبان کی طرف سے وزیرستان و سواتمیں خواتین کی عصمت دری جیسے واقعات سے ایک قدم آگے بڑھ گئیے ہیں۔۔۔حالانکہ آج تک ان وہابی مفتیوں کا فلسطین کی حمایت اور اسرائیل کے خلافایک فتوی بھی نہیں آیا۔۔۔؟؟ْمذید برآن اسلام کے نام نہاد جان لیوامجاہدین القاعدہ و طالبان کا اب تک ایک بھی بندہ بھی اسرائیل مخالف جہادفلسطین میں شامل نہیں ہوا اور نہ ہی قبلہ اول کی آزادی کی تحریک میں حصہلیا؟ْ؟؟

القاعدہ و طالبان نے اگر حصہ لیا تو صرف اور صرف عراق افغانستانپاکستان اور اب سوریا یا شام میں امریکی و اسرائیلی مفادات کے لئے پبلکمقامات مساجد مقدس مقامات پر خودکش حملے کرکے کلمہ گو مسلمانوں کو خونمیں نہلانے کے ساتھ ساتھ مقدس مقامات کی توہین کرکے حتی کہ سوریا یا شاممیں القاعدہ کے زیلی تنظیم النصرہ سے منسلک جہادیوں نے قتل ہونے والےشامی فوجی کا دل چبا کر دور جہالیت کے ملعونوں ابوجہل ابوسفیان اور ہندہ
کی تاریخ دہرادی جب ابوسفیان کی بیوی اور یذید لعین کی دادی ہندہ نے رسولاللہ ص کے چچا حضرت حمزہ رض کا کلیجہ چبایا تھا۔۔۔۔اسی طرح القاعدہ کےزیلی تنظیم النصرہ کے نام نہاد جہادیوں نے سوریا یا شام ہی میں رسول اللہ
ص کے جید صحابی حضرت حجر بن عدی رض کی قبر کشائی کرکے جسد اقدس کی بےحرمتی کرکے مزار اقدس کو مسمار کردیا۔۔۔۔پاکستان میں اپنے آپ کو صحابہ رضاور اسلام کے ٹھیکدار کہنے والے سپاہ صحابہ و تحریک طالبان کے دہشت گرداس توہین صحابہ رض پر نہ صرف خاموش رہے بلکہ درااصل امریکی امامت میںجہاد شام میں عملی حصہ لے کر یا اس جہاد کی حمایت کرکے یہاں تک کہ سپاہصحابہ نے پاکستان میں شام کے سفارتخانے پر حملے کے بیانات تک جاری کئیئدراصل اس جرم میں شریک رہے ہیں۔۔۔۔۔امریکی امامت میں لڑنے والے القاعدہکے زیلی تنظیم النصرہ اور سپاہ صحابہ و تحریک طالبان پاکستان کے انجہادیوں کے اس نام نہاد عظیم جہا ۔۔۔۔۔اور جنت جانے کے شوق۔۔۔۔۔۔کو حکیمالامت علامہ اقبال نے کئی دہائیاں پہلے بیان کیا تھا۔۔
ناحق کے لئے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ

شمشیر ہی کیا نعرہ تکبیر بھی فتنہ
ایک حوصلہ افزا اور امید کی بات یہ ہے کہ مشرق وسطی میں امریکی واسرائیلی مفادات کے لئے فلسطین و قبلہ اول کی آزادی کی دو حامی تنظیمیںحزب اللہ و حماس عالم اسلام کے دو بازوں کی طرح اگر چہ مختلف مسالک سےوابستہ ہیں لیکن دونوں بھائیوں کی طرح یہ بات سمجھ چکے ہیں کہ شام یاسوریا میں جہاد دراصل امریکی و اسرائیلی مفاد کا جہاد ہے اسلئے حزب اللہاور حماس کی قیادت نے اس فتنہ کے خلاف مزاحمت کے لئے ایک بار پھر آپس میںاتحاد کرلیا ہے۔۔۔جس کا اظہار حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصراللہ نےاپنے حالیہ تقاریروں میں کھل کر کیا ہے کہ اگرچہ حزب اللہ ہمیشہ سےاسرائیل و امریکہ کے خلاف براہراست لڑ کر فلسطین کی آزادی کے لئے
برسرپیکار رہی ہے ،،،،لیکن شام یا سوریا میں حزب اللہ کا شامی فوج کیحمایت اور القاعدہ و طالبان کے تکفیری و خوارج نظریہ کے حامل دہشت گردوںسے بادل نحواستہ اور تنگ آمد بہ جنگ آمد لڑنا بھی اصل میں ان تنظیموں کےآقا امریکہ و اسرائیل کو ہی شکست دینا ہے کیونکہ لبنان سرحد سے متصلقوصیر پر قبضے کے بعد القاعدہ کے زیلی تنظیم النصرہ و طالبان کا اگلا حدفلبنان و فلسطین میں حزب اللہ و حماس کا ہی خاتمہ کرنا ہے۔۔۔ حزب اللہ کے
سربراہ سید حسن نصراللہ نے امریکی و صیہونی مفادات کے لئے کام کرنے والےبعض میڈیا رپورٹوں کے منفی روپیگنڈے کہ شام یا مشرق وسطی میں مسلکی جنگہو رہی ہے کا کھل کر جواب دیتے ہوئے کہا کہ القاعدہ کے زیلی تنظیمالنصرہ اور سپاہ صحابہ و تحریک طالبان پاکستان کے تکفیری دہشت گرد شیعہسنی دونوں مکاتب فکر کے دشمن ہیں جس کا واضح ثبوت عراق افغانستان وپاکستان میں انہی دہشت گردوں کے ہاتھوں شیعہ و سنی دونوں مکاتب فکر کےپیروکاروں پر حملے مساجد مزارات اور جنازے کے نمازوں کے اجتماعات پر حملےاور پاکستان میں الکشن کے دوران سنی مسلمانوں کا قتل عام واضح دلیلہیں۔۔۔سید حسن نصر اللہ نے القاعدہ کے زیلی تنظیم النصرہ اور سپاہ صحابہو تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گردوں کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ صحابیرسول ص حضرت حجر بن عدی رض کے جسد اور مزار کی بے حرمتی کے دلخراش واقعےکے بعد القاعدہ کے زیلی تنظیم النصرہ اور وہابی دہشت گردوں سے سوریا یاشام میں اصحاب رسول ص اور اہلبیت رسول ص کے مقدس مزارات بالخصوص رسولاللہ ص کی نواسی اور امام حسین ع کی بہین شریکتہ الحسین ع بی بی زینبسلام اللہ علیہ کے دمشق میں واقع مزار اقدس اور دیگر مقدس مقامات کے دفاعکے لئے حزب اللہ کے جوان اپنے خون کے آخری قطرے تک دفاع کریں گے۔
القاعدہ کے زیلی تنظیم النصرہ اور سپاہ صحابہ و تحریک طالبان پاکستان جوکہ وہابی و تکفیری آئیڈلوجی کی حامل ہے جو اپنے علاوہ دیگر تمام مسلمانوںکو کافر کہلوا کر قتل عام کرتی ہے ان درندہ صفت افراد سے انسانوں کا ناحقخون اور مقدس مقامات کی توہین کوئی انوکھی بات نہیں ۔۔۔دراصل بوڑھےاستعمار یا برطانیہ نے گزشتہ دو سو سال کے دوران اسلام کے نام پر اسلامکو بدنام کرنے کے لئے دنیا بھر میں تین فتنے یا عقیدے و آئیڈیالوجی پیداکرکے اسلام کو بدنام کیا ۔۔۔ان تین فتنوں میں مشرق وسطی میں آل سعود کےزریعے فتنئہ وہابیت ،ایران یا فارس میں فتنئہ بہایت اور برصیغر پاک و ہندمیں فتنئہ قادینیت یعنی وہابی ،بہائی اور قادیانی فتنے کے زریعے چودہ سوسال پہلے مکمل ضابطئہ حیات اسلام کو دنیا بھر میں وحشی و بدنما یا پھرعیاش صورت میں پیش کیا حالانکہ یہ تنیوں فتنے گزشتہ دو سو سال کی پیداوراہیں اس موضوع کو صحیح سمجھنے کے لئے قارئین مشہور برطانوی جاسوس ہیمفرے کے احترافات یا لارنس آف عربیا کا مطالعہ کرسکتے ہیں۔۔۔۔بوڑھے استعماربرطانیہ کے پیداکردہ ان تین فتنوں بالخصوص فتنہ ہابیت(القاعدہ اور سپاہصحابہ و تحریک طالبان پاکستان) کی بعد میں امریکہ و اسرائیل نے کھل کرحمایت کی اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ سن اسی کی دہائی میں سی آئی کےزیر اہتمام روس کے خلاف نان نہاد افغان جہاد کے نام پر امریکی سی آئی اےاور ضیا حکومت نے القاعد اور سپاہ صحابہ و تحریک طالبان پاکستان کیبھرپور حمایت کی جس کا برملا اظہار سابق امریکی وزیر خارجہ کی اس اقرارجرم والی خطاب میں بھی ملتی ہے جو سوشل میڈیا میں کافی مشہور ہو چکی ہےکہ ہم یعنی امریکہ نے پاکستان کی مدد سے وہابی طرز فکر اور جہاد کیسرپرستی کی۔۔
ور یہ سلسلہ اب بھی قطر میں طالبان کے دفتر اور امریکہ طالبان یکجہتی کےعلاوہ شام یا سوریا میں امریکی امامت میں اسرائیلی مفادت کے لئے جہاد شاممیں القاعدہ کے زیلی تنظیم النصرہ اور سپاہ صحابہ و تحریک طالبانپاکستان کا جہاد میں سلسلہ لینے کا جاری سلسلہ ہے۔۔۔نہ جانے پاکستان کےمقتدر ادارے کب تک امریکی ایما پر آستین کے ان سانپ القاعدہ اور سپاہصحابہ و تحریک طالبان پاکستان کو جہادی کرائے کے قاتلوں کی صورت میںافغانستان وزیرستان یا شام و دمشق میں بھیج کر امریکی امامت میں جہاد کافریضہ انجام دیتے رہیں گے اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گا۔۔۔لیکنایک بات ضرور یاد رہے کہ اللہ کے ہاں دیر ہے لیکن اندھیر نہیں۔۔۔ایک دن
این سفیانی و دجالی نظاموں کا خاتمہ ضرور ہونا ہے اور مسلمانوں کے تماممکاتب فکر کے مشترکہ عقیدے کے مطابق منجعی بشریعت امام مہدی ع کا انقلاببہت جلد آنے والاہے۔۔بقول علامہ اقبال دنیا کو ہے اس مہدی برحق کی ضرورتہو جس کی نگہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔زلزلہ عالم افکار

بتا رہی ہیں یہ تبدیلیاں زمانے کی
کسی ولی کا یقیننا ظہور ہونا ہے

اسلامی ورثہ جسے قرآن نے شعائر اللہ یعنی اللہ کی نشانیاں قرار دیا کی اہمیت اس لئے ہیں کہ اس ورثے کو دیکھ کر لوگ اور آنی والی نسلیں اللہ کے دین کی طرف متوجہ ہو کر تقوی الہی اختیار کریں ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے صفی و مروی کی پہاڑیوں کو شعائر اللہ کہی کر پکارا ہے۔ اسی طرح حجر اسود ظاہرا ایک پتھر ہے لیکن اللہ کے نذدیک اہمیت اتنی ہے کہ ہر حاجی کی خواہش ہوتی ہے کہ حجر اسود کو بوسہ دیا جائے اور تمام تر مکاتب اسلام کے ہاں یہ عین عباد ت و ثواب کا کام ہے۔۔۔کیا حجر اسود کو بوسہ دینے اور چومنے سے خدانخوانستہ کوئی شخص بت پرستی و پتھر پرستی کا مرتکب ہو رہا ہے ،ہرگز نہیں بلکہ حجر اسود کو چومنا اللہ کی ایک نشانی کو چومنا ہے جس سے عقیدہ توحید میں اضافہ ہوتا ہے۔ یا مذید آسانی کی خاطر اگر کوئی شخص اپنی بوڑھی ماں کے ہاتھ کو عقیدت و عزت کی خاطر بوسا دیتا ہے تو کیا نعوز باللہ وہ شرک و بدعت کرکے ماں کو پوج رہا ہے، ہرگز نہیں بلکہ ماں کے مقام میں ماں کی عزت و احترام کرتا ہے نا کہ معبود و خالق کے مقام میں کیونکہ معبود کے مقام تک کوئی نہیں پہنچ سکتا، اللہ لاشریک و لامحدود ہے اور اس کا احاطہ کرنا محال و ناممکن ہے۔ ماں کا ماں کے مقام پر احترام عین اسلام اور حکم پروردگار ہے۔ لیکن اپنے آپ کے علاوہ دیگر تمام مسلمانوں کو کافر کہنے والے وہابیت اس حقیقت کو سمجھنے کی بجائے ہر چیز حتی کہ ماں کا ماں کے درجے میں احترام کو بھی شرک و بدعت قرار دے کر کفر کے فتوے والی فیکڑی سے فتوے دینا شروع کر دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔حالانکہ اوائل اسلام حتی کہ رسول اللہ ،ص کی ذندگی میں گزشتہ انبیا  اور اولیا کے قبور کی تعمیر اور پیغمبروں ،اولیاء اور خدا کے نیک بندوں کی قبروں پر عمارت یا مزار بنانے کا سلسلہ موجود تھا، اور رسول ص کے زمانے میں مسلمان و اصحاب رسول ص انبیا و اولیا کے قبور و مزارات پر دعا کے لئے جاتے تھے۔ اگر یہ عمل اسلام کے خلاف یا نعوز باللہ شرک و بدعت ہوتا تو رسول ص اپنے زمانے ہی میں مسلمانوں کو روک لیتے لیکن ایسا ہرگز نہیں ہوا۔

اس مسئلے کو سب سے پہلے ابن تیمیہ کے مشہور و معروف شاگرد ( ابن القیم ) نے چھیڑا اور اولیاء خدا نیز پیغمبروں کی قبروں پر عمارت بنانا حرام قرار دیا ۔ اور ان کی ویرانی و انہدام کا فتویٰ دیا ہے ۔ ابن القیم اپنی کتاب (زاد المعاد فی ھدی خیر العباد )(زاد المعاد ص٦٦١) میں لکھتا ہے :

”یجب ھدم المشاھد التی بُنِیَت علی القبور ، و لا یجوز ابقاء ھا بعد القدرة علیٰ ھدمھا و ابطالھا یوماً واحداً” ( قبروں پر تعمیر شدہ عمارتوں کو ڈھانا واجب ہے ، اگر انہدام اور ویرانی ممکن ہو تو ایک دن بھی تاخیر کرنا جائز نہیں ہے)

١٣٤٤ھ میں جب کہ آل سعود نے مکہ و مدینہ کے گرد و نواح میں اپنا پورا تسلط جمایا تو مقدس مقامات ، جنت البقیع ،اصحاب رض اور اہلبیت اطہار محمد و آل محمد سے بغض کی وجہ سے خاندانِ رسالت کے آثار کو صفحۂ ہستی سے محو کر دینے کا عزم کیا اس سلسلے میں انہوں نے مدینہ کے علماء سے فتوے وغیرہ لئے تاکہ تخریب کی راہ ہموار ہو جائے ۔ اور اہل حجاز کو جو کہ اس کام کے لئے تیار نہ تھے ، بھی اپنے ساتھ ملایا جائے ۔اسی بناء پر نجد کے قاضی القضات ، ”سلیمان بن بلیہد ” کو مدینہ روانہ کیا تاکہ وہ ان کے من پسند فتوے ،علمائے مدینہ سے حاصل کرے ،اس نے ان سوالات کو اس طرح توڑ موڑ کر پوچھا کہ ان کا جواب بھی وہابیوں کے نظریئے کے مطابق انہی سوالات میں موجود تھا ۔ اس طرح مفتیوں کو یہ سمجھادیا گیا کہ ان سوالات کے وہی جوابات دیں جو خود سوالات کے اندر موجود ہیں ورنہ انہیں بھی مشرک قرار دے دیا جائے گا ۔اور توبہ نہ کرنے کی صورت میں انہیں قتل کر دیا جائے گا ۔

سوالات اور جوابات مکہ سے شائع ہونے والے رسالہ (ام القریٰ ) ماہ شوال ١٣٤٤ھ میں منتشر ہوئے ۔ وہابی ١٥ ربیع الاول ١٣٤٣ھ کو حجاز پر قابض ہوئے اور آٹھویں شوال ١٣٤٣ ھ بمطابق اپریل ۱۹۲۵ عیسوی کو جنت البقیع میں ائمہ کے مزاروں کی قبروں کو منہدم کر دیا ۔اس کے بعد شیعہ سنی تمام مسلمانوں میں ردّ عمل کی شدید لہڑ دوڑ گئی ۔کیونکہ سب کو پتہ تھا کہ مدینہ کے علماء سے فتویٰ حاصل کرنے کے بعد اگر چہ ڈرا دھمکا کر ہی کیوں نہ لیا گیا ہو ، ائمہ کی قبروں کا انہدام اور عمارتوں کی تخریب شروع ہو جائے گی اور ایسا ہی ہوا بھی ۔ مدینہ کے پندرہ علماء سے فتویٰ لینے اور اسے حجاز میں نشر کرنے کے بعد فوراً خاندان رسالت کے آثار کو اسی سال آٹھویں شوال کو محو کرنا شروع کر دیا ۔ اہل بیت علیہم السلام اور اصحاب نبی (ص) کے آثار بطور کلی مٹا دیئے گئے ۔ جنت البقیع میں ائمہ علیہم السلام کے روضوں کی گراں بہا اشیاء لوٹ لی گئیں ۔ اور قبرستان بقیع ایک کھنڈر اور ویرانے کی صورت اختیار کر گیا کہ جسے دیکھ کر انسان لرز جاتا ہے ۔ وہابی اور آل سعود اسی سال روضئہ رسول ص اور گنبد حضرا کو بھی منہدم کرکے زمیں بوس کرنا چاہتے تھے لیکن جب پوری دنیا میں مسلمانوں کا رد عمل دیکھا تو اپنے آقا بوڑھے استعمار برطانیہ کے مشورے اور اس ڈر سے کہ کہیں پورا عالم اسلام وہابیت اور آل سعود کو قادیانیوں کی طرح غیر مسلم نہ قرار دیں ،روضئہ رسول ص کو منہدم تو نہ کیا لیکن آج تک وہابیت اور آل سعود کے نمک خوار سپاہی روضہ رسول ص کی طرف عقیدت اور زیارات کی خاطر آنے والے دنیا بھر کے سنی شیعہ مسلمانوں کو زیارات رسول ص سے روکتی رہی ہے، اور گنبد حضری کو صاف کرنے کی بجائے اس پر گرد و غبار کی گہری تہہ جمع ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ وہابیت دل ہی دل میں آثار نبوی ص کے باقی رہنے پر غصہ اتار رہی ہے۔

الف۔ قبروں کی تعمیر کے سلسلے میں

اس موضوع کے حکم کو قرآن کے عام اصولوں سے اخذ کر سکتے ہیں ۔

١۔ اولیاء خدا کی قبروں کی تعمیر اور حفاظت شعائر اللہ کی تعظیم میں داخل ہے ۔

قرآن کریم شعائر اللہ کی تعظیم کو قلوب کی پرہیزگاری اور دلوں پر تقوائے الٰہی کے غلبہ کی علامت و نشانی جانتا ہے ۔ارشاد ہوتا ہے :

” ذَلِكَ وَمَنْ يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوبِ ” (سورۂ حج ٣٢)

جو شخص شائراللہ کی تعظیم کرتا ہے تو یہ تقوائے قلوب کی علامت ہے۔ شعائر اللہ کی تعظیم کا اصل مقصد کیا ہے ؟شعائر ”شعیرہ ” کی جمع ہے ،جس کے معنی علامت و نشانی ہیں آیت کا مطلب وجود خدا کی نشانیاں بیان کرنا نہیں کیونکہ تمام موجودات عالم اس کے وجود کی نشانیاں ہیں ۔ اور کسی نے یہ نہیں کہا کہ جو کچھ اس گلزار ہست و بود میں ہے ان سب کی تعظیم تقویٰ کی علامت ہے۔ بلکہ اس سے مراد اس کے دین کی نشانیاں ہیں ۔اسی بناء پر تو مفسرین اس آیت کی یوں تفسیر کرتے ہیں ۔

”معالم دین اللہ ” خدا کے دین کی نشانیاں ۔(مجمع البیان ،ج٤،ص ٨٢) اگر قرآن نے صفاومروہ کے اور اس اونٹ کو جو منیٰ میں قربانی کے لئے لے جایا جاتا ہے ،شعائر اللہ میں شمار کیا ہے تو اس کا سبب یہ ہے کہ یہ آئین ابراہیم اور دین حنیف کی نشانیاں اور علامتیں ہیں ۔ اگر ”مزدلفہ ” کو ”مشعر ” کہتے ہیں تو اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ وہ دین الٰہی کی نشانی ہے وہاں پر ٹھہرنا ،دین پر عمل اور خدا کی اطاعت کی علامت ہے ۔

اگر تمام مناسک حج کو شعائر اللہ کے نام سے موسوم کرتے ہیں تو وہ بھی اسی لئے ہے کہ یہ اعمال دین حنیف اور دین توحید کی علامتیں اور نشانیاں ہیں ۔

مختصر یہ کہ جو چیز بھی دین الٰہی کی نشانی قرار پائے اس کی تعظیم و تکریم خدا کی بارگاہ میں تقرب و خوشنودی کا باعث بنتی ہے ۔ اور یہ ایک امر مسلم ہے کہ انبیاء و اولیاء خدا ، دین الٰہی کی روشن ترین دلیلیں اور بزرگترین نشانیاں ہیں ، جن کی بدولت دنیا میں دین کا پرچم بلند ہوا ۔ اور دین کا بول بالا ہوا ۔کوئی بھی منصف شخص ہر گز اس سے انکار نہیں کرسکتا کہ پیغمبر اسلام (ص) اور ائمہ طاہرین (ع) کا وجود اسلام کی دلیل اور اس کی علامت ہے ۔ اور ان کی تعظیم کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ان کے آثار و قبور کی حفاظت کی جائے اور انہیں انہدام و نابودی سے بچایا جائے ۔

حسب ذیل دو چیزوں کو مدّ نظر رکھنے سے قبور اولیاء کی تعظیم و تکریم کا مسئلہ واضح ہو جاتا ہے ۔

الف۔ اولیاء خدا اور بالخصوص وہ لوگ جنہوں نے دین اسلام کی سر بلندی کے لئے قربانی پیش کی ہو وہ بلا شبہ شعائر اللہ اور دین خدا کی نشانیاں ہیں ۔

ب۔ تعظیم کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ان بزرگوں کی وصال کے بعد ان کے آثار و مکتب کی نگہداشت کے ساتھ ساتھ ان کی قبور کی تعمیر ،نگہبانی اور حفاظت کی جائے ۔ اسی لئے تمام قوموں کی عظیم سیاسی اور دینی شخصیتوں کی قبریں جو ان کے مکتب فکر کی علامت ہوتی ہیں ایسی جگہوں پر بنائی جاتی ہیں جہاں وہ ہمیشہ محفوظ رہیں ۔ اور ان کے مکتب کی یاد تازہ رہے ۔گویا ان کی قبروں کو خرابی سے محفوظ رکھنا ایسے ہی ہے جیسے ان کے وجود اور ان کے مکتب کی حفاظت ہے ۔ اور ان کے آثار کو زندہ رکھنے کی علامت ہے ۔

اس حقیقت کے ادراک کے لئے ضروری ہے کہ سورۂ حج کی چھتیسویں آیت کو پوری توجہ سے تفسیر کریں ۔ بیت اللہ الحرام کے بعض زائرین گھر سے ہی اپنے ساتھ اونٹ کو قربانی کے لئے مکہ لاتے ہیں اور اس کی گردن میں پٹہ ڈال کر فی سبیل اللہ قربانی کے لئے مختص کر دیتے ہیں ۔اور اسے باقی اونٹوں سے علیحدہ رکھتے ہیں ۔کیونکہ یہ اونٹ ایک طرح سے خدا سے وابستہ ہو گیا ہے ۔ اور خود خدا نے اسے شعائر اللہ میں سے شمار کیا ہے لہذا سورہ حج کی بتیسویں آیت کے مطابق ” و من یعظم شعائر اللہ ” کے مطابق اسے مورد احترام قرار دینا چاہئے مثال کے طور پر یہ لوگ اس پر سوار نہ ہوں اور وقت پر اسے پانی ، گھاس وغیرہ ڈالنا چاہئے یہاں تک کہ اس مخصوص مقام پر اسے ذبح کر دیا جائے ۔ جب ایک اونٹ منیٰ کی سر زمین پر قربانی کے لئے مخصوص ہونے کی وجہ سے شعائر اللہ میں داخل ہو جاتا ہے اور اس کے لئے مناسب تعظیم ضروری ہوتی ہے تو کیا پیغمبرص ،علماء ،شہداء اور مجاہدین شعائر اللہ میں سے نہیں ہیں ؟ جنہوں نے زندگی کے ابتدائی ایام ہی میں اپنا سب کچھ خدا کی راہ میں وقف کر دیا اور اس کی خوشنودی کے لئے دین اسلام کی ایسی خدمت انجام دی کہ خود خدا اورخلق کے مابین وسیلہ قرار پائے اور در حقیقت بشریت نے دین خدا کو انہی کے طفیل میں پہنچانا ہے ۔ کیا ان کے مقام و منزلت کے لحاظ سے ان کی حیات و ممات میں ان کی تعظیم و تکریم نہ کی جائے ؟ اگر کعبہ ، صفا و مروہ ، منیٰ وعرفات جو مٹی اور پتھر کے سوا کچھ نہیں ہیں ۔دین خدا سے ارتباط کی وجہ سے شعائر اللہ میں داخل ہیں ۔ اور ہر ایک کی اپنے موقع و محل کے اعتبار سے تعظیم و تکریم ضروری ہے تو بھلا اولیاء خدا جو دین الٰہی کے مبلغ ومحافظ ہیں وہ شعائر اللہ میں سے کیوں نہ ہوں ، اور ان کی تعظیم و تکریم کیوں نہ کی جائے ؟

ہم یہاں پر خود وہابیوں کے ضمیر کو قاضی و منصف قرار دیتے ہیں ۔کیا انبیاء کے شعائر اللہ میں ہونے کے سلسلہ میں کسی قسم کا شک و تردد ہے ؟ یا ان کے آثار اور ان سے مربوط اشیاء کی حفاظت کو ان کی تعظیم نہیں سمجھتے ۔ ان کی قبروں کی تعمیر اور صفائی کا خیال رکھنا تعظیم و تکریم ہے یا ان کی قبروں کو مسمار کر دنیا تعظیم ہے ؟

٢۔ قرآن کریم واضح الفاظ میں ہمیں حکم دیتا ہے کہ پیغمبر گرامی (ص) کے اقربا سے محبت رکھو ۔ ارشاد قدرت ہوتا ہے :

”قُلْ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى” (سورۂ شوریٰ ٢٣)

اے رسول کہہ دیجئے میں تم سے اجر رسالت نہیں مانگتا مگر یہ کہ میرے اقربا سے مودت رکھو ۔

کیا اہل دنیا کی نگاہ میں ، جن سے یہ آیت مخاطب ہے ، خاندان رسالت سے محبت و مودت کا ایک طریقہ ان کی قبروں کی تعمیر نہیں ہے ؟حالانکہ دنیا کی تمام ملتوں میں یہ رسم پائی جاتی ہے اور سب لوگ قبروں کی تعمیر کو صاحب قبر سے اظہار عقیدت کی علامت قرار دیتے ہیں ۔اسی لئے تو عظیم سیاسی و علمی شخصیات کو کلیسا ، یا معروف مقبروں میں سپرد خاک کرتے ہیں ۔ اور ان کی قبروں کے اردگرد درخت لگاتے ہیں ۔ اور پھولوں کی چادریں چڑھاکر اپنی محبت اور عقیدت کا اظہار کرتے ہیں ۔ لیکن وہابیت کا اصل مسئلہ بغض و عدوات محمد و آل محمد ص بالخصوص خاتون جنت سیدہ النسا العالمین حضرت بی بی فاطمتہ الزھرا سلام اللہ علیہا سے بغض کی انتہا ہے اس حوالے سے عالمی سنی تحریک نے وہابیت کے فتنے کو عیاں کرنے کے لئے ایک ویب سائٹ بنائی ہے جس میں وہابیت کے فتنے کی تشریح کرکے وہابییوں کو سنی ماننے سے انکار کیا ہے۔ ویب سائٹ یہاں قارئین کے استفادے کے لئے دی جا رہی ہے۔

اور یہ انتہا یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ نہ صرف اپریل 1925 میں وہابیوں آل سعود نے خاتون جنت فاطمتہ الزھرا سلام اللہ علیہ کا جنت البقیع میں روضہ منہدم کروایا بلکہ گذشتہ سال بھی خاتون جنت بی بی فاطمتہ الزھرا سلام اللہ علیہ سے منسو مسجد فاطمہ س کو مسمار کرکے آل سعود سے منسوب پارک میں تبدیل کر دیا گیا۔۔۔کیا حجاز مکہ و مدینہ کی سرزمین میں آل سعود کے ابا و اجداد اور مطلق العنان حکمرانوں کی آثار بنانا عین اسلام اورآل رسول ص کے آثار حتی کہ مساجد عین کفر و شرک ہے؟؟؟؟ اس سوال کا جواب ہر باضمیر انسان اور مسلمان کو دینا ہوگا۔۔وگرنہ اسلام کے یہ نام نہاد ٹھیکدار قیامت کے دن رسول ص کو کیا جواب دیں گے، جب رسول ص نے تاکید سے یہ احادیث فرمائی تھی کہ۔۔فاطمہ س میرے جگر کا ٹکڑا ہے جس کسی نے اس فاطمہ س کو ناراض کیا اس نے مجھ رسول ص کو ناراض کیا اور جس نے رسول ص کو ناراض کیا اس نے اللہ کو ناراض کیا۔اسلئے یہ ہر مسلمان کا فرض ہے کہ اپنے علاوہ تمام مسلمانوں کو کافر کہہ کر آل سعود کے اس ظلم و جبر کے پالسی اور کفر کے فتوؤں کی فیکٹریوں جس کی وجہ سے پاکستانی معاشرہ دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکا ہے اور اسی تکفیری وہابی فکر و دہشت گردی کی وجہ سے مساجد و بازار تو کیا داتا دربار رحمان بابا و بری امام کے مزارات تک نشانے پر ہیں، اس کے خلاف اپنی آواز بلند کرنی چاہئے ورنہ یہ فتنہ پاکستانی معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ جائے گا اور پھر بات ۔۔۔اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چک گئی کھیت۔۔۔۔۔والی بات رہ جائے گی

جنت البقیع کوآل سعود کے انہدام کرنے سےپہلے اور بعد کےتصاویری مناظر

j1j2j3j4j5j6j7j8j9

متعلقہ مضامین

Back to top button