مقالہ جات

تحریک انصاف کے وفد کی ایم ڈبلیو ایم کے رہنماؤں سے ملاقات کی اندرونی کہانی

quresiتحریک انصاف کا ایک اعلٰی سطح کا وفد منگل کی شام کو پی ٹی آئی کے صدر مخدوم جاوید ہاشمی کی سربراہی میں ایم ڈبلیو ایم کی قیادت سے ملنے مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی دفتر وحدت سیکرٹریٹ اسلام آباد پہنچا، جہاں ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ امین شہیدی نے وفد کا استقبال کیا اور انہیں دفتر آنے پر خوش آمدید کہا۔ وفد میں مخدوم جاوید ہاشمی، شاہ محمود قریشی، ڈاکٹر عارف علوی، شمیم نقوی، اعجاز چوہدری اور فروس نقوی شامل تھے۔ مجلس وحدت مسلمین کی طرف سے علامہ امین شہیدی کے علاوہ علامہ اعجاز بہشتی، نثار فیضی، علامہ اقبال بہشتی اور ملک اقرار حسین شریک تھے۔ پی ٹی آئی کے وفد نے ایم ڈبلیو ایم کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ امین شہیدی سے کہا کہ وہ یہاں انتخابات کے حوالے سے ملنے آئے ہیں، آج پی ٹی آئی کی مرکزی کابینہ کا اجلاس تھا، جس میں مخدوم جاوید ہاشمی کو انچارج بنایا گیا ہے وہ مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں سے ملاقاتیں کریں اور آئندہ انتخابات کے حوالے اہم فیصلے کریں گے، ہمارا مقصد گرینڈ الائنس بنانا ہے۔

تحریک انصاف کے رہنماء مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا کہ کچھ لوگ ملت تشیع اور پی ٹی آئی کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کر رہے ہیں اور ایک پروپیگنڈہ مہم کے تحت تحریک انصاف کو متنازعہ بنانے کی کوشش ہو رہی ہے، اس حوالے سے سوشل میڈیا پر عمران خان سے منسوب ایک بےبنیاد بیان شئیر کیا گیا کہ جس میں کہا گیا کہ عمران خان جب اقتدار میں آئیں گے تو وہ ملک میں امیر معاویہ کا نظام نافذ کریں گے، جو سراسر ایک بہتان اور پروپیگنڈا مہم کا حصہ ہے، یہ انہی لوگوں کی کارستانی ہے جو تحریک انصاف سے خائف ہیں اور چاہتے ہیں کہ ملت تشیع میں ان کی پذیرائی نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ خود عمران نے واضح کیا ہے کہ میں نے ایسا کوئی بیان نہیں دیا اور معاویہ کے بارے میں زیادہ جانتا بھی نہیں ہوں۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ یہ غلط فہمی پیدا کرنے کا مقصد فقط اور فقط شیعہ برادری میں پی ٹی آئی کا منفی تاثر ابھارنا ہے۔ لہٰذا ہم یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کا ایسا کوئی منشور نہیں اور ہم اس پروپیگنڈے کی سختی سے تردید کرتے ہیں۔ شاہ محمود کا کہنا تھا کہ ہم پنجتنی ہیں اور پنجتن پاک کے ماننے والے ہیں، جن کے بغیر کوئی تصور ممکن نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ملتان کی تاریخ گواہ ہے کہ نوے فیصد تعزیعے اہل سنت برادری کے ہوتے ہیں اور وہ صدیوں سے لائسنس دار ہیں۔ ہم ماتمیوں کیلئے سبیلیں لگاتے ہیں۔ ہم کربلائی ہیں اور کربلا کے ماننے والے ہیں۔ ہم ظالم اور مظلوم میں تفریق کرنے والے ہیں، تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی تو ہم بھائی چارگی کی فضاء کو پروان چڑھائیں گے، ہم باہمی احترام کے قائل ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس ملک میں ہر مکتب کو اپنی فکر اور عقائد کیساتھ زندگی گزارنے کا پورا پورا حق حاصل ہے۔

ایم ڈبلیو ایم کے نثار فیضی نے سوال اٹھایا کہ پی ٹی آئی پر الزام ہے اور خود عمران خان کے بیانات سے لگتا ہے کہ وہ طالبان کے حامی ہیں، جبکہ عوام یہ پوچھتے ہیں کہ ہزاروں افراد کے قاتلوں کے بارے میں خان صاحب نرم گوشہ کیوں رکھتے ہیں، اس پر ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ پی ٹی آئی دہشتگردی کے حوالے سے چھ کیٹگریز ذہن میں رکھتی ہے، نمبر ایک وہ طالبان ہیں جو افغانستان میں جہاد کر رہے ہیں اور ایک غاصب اور عالمی استعمار امریکہ کیخلاف نبرد آزما ہیں، جن کی رشتہ داریاں باڈر کے دونوں اطراف ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ ان کا غیر ملکی افواج کے بارے میں لیا گیا اسٹینڈ حقائق پر مبنی ہے، جس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ اس خطے میں دہشتگردی کی اصل وجہ امریکہ ہے، جب تک امریکہ یہاں موجود ہے اور ڈرون اٹیکس ہوتے رہیں گے، یہ دہشتگردی ختم نہیں ہوسکتی، اس بات کو تو خود امریکن نے بھی تسلیم کیا ہے کہ ڈرون اٹیکس میں نوے فیصد معصوم اور بیگناہ افراد قتل ہوتے ہیں۔

نمبر 2 پر وہ طالبان ہیں جو پاکستان میں کارروائیاں کرتے ہیں اور ان کی ذمہ داری قبول کرلیتے ہیں، جو تحریک طالبان پاکستان کے نام سے کام کر رہے ہیں، ہم نے ان کی کبھی حمایت نہیں کی۔ تیسری دہشتگردی مسلکی ہے یعنی فرقہ وارانہ دہشتگردی ہے، جس کے بارے میں ہم واضح موقف رکھتے ہیں۔ اسی لیے آپ لوگوں نے نوٹ کیا ہوگا کہ ہم نے کبھی سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کی حمایت نہیں کی اور ہم سمجھتے ہیں کہ فرقہ پرست اور تکفیری سوچ کے حامل افراد کو کبھی اپنی جماعت میں نہ آنے دیں اور فرقہ واریت میں ملوث جماعتوں اور افراد کو جہاں بین ہونا چاہیے وہیں دہشتگردی میں ملوث افراد کو سزائیں بھی ملنی چاہیں۔
چوتھی دہشتگردی لسانی ہے، جنہیں بعض جماعتیں اپنی چھتری فراہم کرتی ہیں، آخری مسئلہ بلوچستان میں آزاد بلوچستان کا نعرہ لگانے والوں کا ہے اور وہاں کے حالات ہیں۔ ہم ہر چیز کا باریک بینی سے جائزہ لے رہے ہیں۔ عارف علوی نے کہا کہ طالبان نے مذاکرات میں نواز شریف، مولانا فضل الرحمان اور منور حسن کا نام لیکر واضح کر دیا ہے کہ وہ ان کی مصالحت کرائیں گے۔ جس سے واضح ہوگیا ہے کہ کون کس کا حامی ہے۔

ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ ہم پاکستان میں شیعہ سنی بھائی چارے کے قائل ہیں اور اسی طرح ہم ایم ڈبلیو ایم جس کا نام ہی وحدت مسلمین ہے، ہماری اور آپ لوگوں کی مختلف اسٹنڈز پر سوچ میں یک سوئی پائی جاتی ہے۔ اس پر نثار فیضی نے کہا کہ کراچی کے دھرنے میں پی ٹی آئی کے جلسہ میں سپاہ صحابہ کا جھنڈا موجود تھا، اس پر کیا کہیں گے؟ عارف علوی نے جواب دیا کہ آپ کی بات سو فیصد درست ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمیں اس وقت پتہ چلا جب ایک شخص وہ جھنڈا لیکر دھرنے میں شریک ہوگیا، اس دوران ایک ورکر نے مجھے بتایا کہ ہمارے دھرنے میں کالعدم تنظیم کے کچھ لوگ اپنے جھنڈے لیکر شریک ہیں، اس پر میں نے فوراً ایکشن لیا اور ان حضرات کو اس جلسے سے چلتا کر دیا اور اللہ جانتا ہے کہ میں نے زندگی میں پہلی بار دیکھا کہ کالعدم سپاہ صحابہ کا جھنڈا ایسا ہوتا ہے، اس سے پہلے میں نے کبھی ان کا جھنڈا نہیں دیکھا تھا۔

فردوس نقوی نے کہا کہ الیکشن قریب ہیں، لہٰذا ہم سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی اور ایم ڈبلیو ایم کا امریکیوں، غیر ملکیوں اور "اسٹیٹس کو” کے حوالے سے ایک ہی موقف ہے۔ لہٰذا بات کو آگے بڑھایا جائے اور کسی نتیجے پر پہنچا جائے۔ اس پر علامہ امین شہیدی نے کہا کہ آپ لوگ یہاں تشریف لائے، ہم خوش آمدید کہتے ہیں۔ آپکی گذارشات ہم نے سن لیں اور ہماری گذارشات آپ نے سن لیں۔ لہٰذا ہم آپ کے اس پیغام کو اپنے اداروں میں ڈسکس کریں گے اور جو جواب ملے گا، انشاءاللہ آپ کے گوش گزار کر دیا جائیگا۔ علامہ امین شہیدی نے کہا کہ ایک بات واضح ہے کہ ہم نے براہ راست الیکشن میں وارد نہیں ہونا، تاہم ان امیداروں کو سپورٹ کریں گے جو ملک کو بحران سے نکالنے میں سنجیدہ ہیں، ایسے لوگ جو معتدل اور فرقہ پرست عناصر سے تعلق نہ رکھتے ہوں۔ ایم ڈبلیو ایم کی شوریٰ عالی نے سیاسی حوالے سے ایک لائحہ عمل طے کیا ہے، جس کو مدنظر رکھتے ہوئے ایم ڈبلیو ایم آگے بڑھ رہی ہے۔ آخر میں ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا۔ ملاقات کے اختتام پر طے ہوا کہ مجلس وحدت مسلمین سیاسی معاملات پر اپنی مرکزی کابینہ، جبکہ پی ٹی آئی اپنی سنٹرل کور کمیٹی میں ڈسکس کریگی۔

متعلقہ مضامین

Back to top button