مقالہ جات

عراق کے خلاف نئی سازش،سعودی عرب،قطر اور تر کی فرقہ وارانہ فسادات کے لئے پر عزم

iraq map شیعت نیوز منیٹرنگ ڈیسک کی تحقیق رپورٹ کے مطابق  شام کے بعد اب عراق میں امریکی و اسرائیلی آلہ کار قوتوں بشمول سعودی عربیہ،قطر اور ترکی عراق میں فرقہ وارانہ فسادات کو ہوان دینے کے لئے سر گرم عمل ہو گئے ہیں۔عراق سے سابق ڈکٹیٹر صدام حسین کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے ہی عراق دشمن قوتوں کی یہ مکمل کوشش رہی ہے کہ کسی طرح عراق میں عدم استحکام کی کیفیت کو لاگو کیا جائے اور اس حوالے سے عراق کے تقسیم شدہ معاشرے سے بھرپور فائدہ حاصل کیا جائے۔یہی وجہ ہے کہ امریکی وا سرائیل ایماء پر سعودی عرب،ترکی اور قطر سر گرم عمل ہیں کہ کسی طرح عراق میں فرقہ واریت کی آگ پھیلا کر خون کی ہولی کھیلیں۔
موجودہ حالات کے تناظر میں شام میں امریکہ،اسرائیل،سعودی عرب،ترکی اور قطر کی بد ترین شکست کے بعد اب یہ ساری قوتیں مل کر عراق کے وزیر اعظم نوری المالکی کی حکومت کا تختہ الٹنا چاہتی ہیں ۔عراق دشمن قوتوں سعودی عرب،ترکی اور قطر کے نزدیک عراقی وزیر اعظم نوری المالکی( جو کہ شیعہ مسلمان ہیں )در اصل ایران نواز ہیں اور شیعہ و سنی مسلمانوں کے درمیان وحدت کے علمبردار بھی ہیں ۔لہذٰا اس حکومت کو گرانے کے لئے عراق دشمن قوتیں سر گرم عمل ہو چکی ہیں۔
عراقی ماہرین سیاسیات اور تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ عراق میں نوری المالکی کی حکومت کا تختہ الٹنے اور فرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دینے میں بیرونی قوتیں جن میں سر فہرست سعودی عرب،ترکی اور قطر ملوث ہیں ۔یہ عراق دشمن قوتیں چاہتی ہیں کہ عراق سے شیعہ طاقت کا خاتمہ کیا جائے یا کم سے کم کمزور کر دیا جائے۔اور یہ عراق دشمن سازشی ممالک چاہتے ہیں کہ شام کی طرح عراق میں بھی مسلح گروہوں کی مدد سے فرقہ واریت کو ہوا دے کر حکومت کا تختہ الٹ دیا جائے۔عراق مخالف سازشی ممالک چاہتے ہیں کہ شام میں مسلح دہشت گرد گروہوں کی حکومت قائم ہو جائے اور سعودی عرب،ترکی اور قطر منصوبہ بندی کر رہے ہیں کہ شام کے ساتھ ساتھ عراق اور پورے خطے میں فرقہ وارانہ فسادات پھیلا ئے جائیں اور شیعہ و سنی کے نام پر بڑے پیمانے پر قتل و غارت کا بازار گرم کیا جا ئے۔
دوسری طرف عراق کی دشمن القاعدہ جو کہ خود عراق میں موجود ہے اور فرقہ وارانہ اختلافات کو ہوا دے کر ہزاروں ولوگوں کو قتل کر چکی ہے اور آج تک فرقہ واریت کو ہوا دینے مین سر گرم عمل ہے۔گذشتہ سال القاعدہ نے فرقہ واریت کی آگ لگا کر ہزاروں شیعہ مسلمانوں کو قتل کیا جن میں سے اکثریت کو مذہبی رسومات یعنی عزاداری امام حسین علیہ السلام کے ایام میں دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیاتھا۔البتہ عراقی حکام نے بھی القاعدہ کو منہ توڑ جواب دیا اور القاعد ہ کے متعدد حملوں کو ناکام بنانے میں اہم کردار ادا کیا جس کے نتیجے میں بہت بڑی تباہی اور نقصانات سے محفوظ رہے۔
عراقی وزیر اعظم کہتے ہیں کہ وار آن ٹیرر(دہشت گردی کے خلاف جنگ) ختم ہو چکی۔مگر چند عناصر جو غیر ملکی ایماء پر موجود ہیں وہ دہشت گردی میں ملوث ہیں کیونکہ ان کو امریکہ اور اسرائیل جیسے دہشت گردوں کی حمایت حاصل ہے۔عراقی پارلیمنٹ نے بھی انسداد دہشت گردی کے لئے انتہائی سخت ترین قانون سازی کی ہے جس کے سبب دہشت گردی کی وارداتوں میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ہاں مگر کچھ مسائل اب بھی موجود ہیں۔سیکورٹی فورسز مکمل طور پر دہشت گردو ں کے خلاف کامیابی حاصل نہیں کر پائی ہیں البتہ بڑے پیمانے پر دہشت گردی کی روک تھام کر لی گئی ہے۔
اس کے باوجود بھی کچھ ماہرین کاکہنا ہے کہ القاعدہ دوبارہ سے مضبوط ہو رہی ہے اور عراق میں بڑی دہشت گردانہ کاروائیاں کرنے کے لئے منصوبہ بندی کر رہی ہے۔سیاسی ماہر سیٹ جان کہتے ہیں کہ شام میں مسلح دہشت گرد گروہوں کی لڑائی درا صل فرقہ وارانہ فسادات کوہوا دینے میں بڑا اہم کردار ادا کر ہی ہے جس کا فائدہ القاعدہ عراق میں اٹھا رہی ہے۔
دوسری طرف عراقی خفیہ اداروں کے سربراہ قاسم عطاء نے العالم نیوز ٹی وی سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس بات کے شواہد ملے ہیں کہ عراق میں القاعدہ اپنے نیٹ ورک کو مضبوط کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور خطے کی سیکورٹی کی صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عراق میں فرقہ وارانہ فسادات کرنے اور دہشت گردانہ حملے کر سکتی ہے۔البتہ ایسی صورتحال کے باوجود یہ بات بڑی واضح ہے کہ دہشت گردی کے کسی بھی منصوبے کو کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔نوری المالکی کوپارلیمنٹ میں بھرہور حمایت حاصل ہے۔لیکن نوری المالکی کے دشمنوں کے دہشت گردوں کے ساتھ تعلقات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔کچھ ہفتوں پہلے کی بات ہے کہ عدالت نے حکم دیا تھا کہ عراقی وزیر مالیات کے باڈی گارڈ کو گرفتار کر لیا جائے کیونکہ اس کے دہشت گرد گروہوں کے ساتھ براہ راست تعلقات ہیں۔
یہ معاملہ سابق عراقی نائب صدر طارق الہاشمی کے کیس سے ملا ہوا تھا ،کیونکہ طارق الہاشمی خود بھی دہشت گردگروہوں کے ساتھ براہ راست رابطے میں تھا۔اسی وجہ سے عراق کی متعدد عدالتوں نے طارق الہاشمی کو سزائے موت سنا رکھی ہے۔عدالتوں کی کاروائی کے مطابق طارق الہاشمی پر سنہ2005ء سے 2011ء کے درمیان کوئی 150دہشت گردانہ حملوں کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔عدالتوں نے اسے اپنے باڈی گارڈز کی مدد سے ڈیتھ اسکاڈ چلانے کے جرم میں بھی سزا دی ہے۔واضح رہے کہ گرفتار ہونے سے قبل طارق الہاشمی سعودی عرب،ترکی اور قطر کے دوروں سے واپس آیا تھا۔
گذشتہ سال دسمبر میں نوری المالکی کے مخالفین نے حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے نئی حکمت عملی کا سہارا لیااوراحتجاجی مظاہرے شروع کر دئیے۔ہزاروں عراقیوں نے عراق کے صوبے انبار میں مالکی کے خلاف احتجاجی مطاہرے شروع کر دئیے۔انبار کو جو کہ عراق کا سنی اکثریتی آبادی کا صوبہ ہے۔مالکی کے خلاف احتجاج کرنے والے مطالبہ کر رہے تھے مالکی فی الفور حکومت سے الگ ہو جائیں او ر عراق میں دہشت گردی کے خلاف بنایا جانے والا سخت قانون ختم کر دیا جائے ۔واضح رہے کہ عرا ق میں دہشت گردی کے باعث ہزاروں بے گناہ انسانوں کو موت کی نیند سلا یا جا چکا ہے۔مظاہروں کی قیادت بدنام زمانہ سی آئی اے کا ایجنٹ ایاد اعلاوی کر رہا تھا۔اسی طرح فلوجہ میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں کی قیاد ت رکن پارلیمنٹ احمد العلوانی کر رہاتھا کہ جن مظاہروں میں نوری المالکی کے خلاف اور شیعہ مسلمانوں کے خلاف نعرے بازی سمیت ایران کے خلاف بھی نعرے لگائے جاتے رہے۔حتیٰ کہ احمد العلوانی نے کہا کہ ایرانی ایجنٹوں کو قتل کر دو۔
عراقی وزیراعظم نوری المالکی نے کہا کہ انسداد دہشت گردی کا قانون اور دہشت گردوں کی گرفتاری کا مطلب یہ نہیں کہ دہشت گرد کسی ایک مسلک سے ہیں۔بلکہ شیعہ اور سنی یہ بات جان لیں کہ عراق میں دہشت گردی کے خلاف اور دہشت گردوں کے خلاف ہونے والی کسی بھی کاروائی کا یہ مطلب ہے کہ کسی ایک فرقہ کے خلاف کاروائی کی جا رہی ہے۔ایسا ہر ز نہیں ہے۔عراقی وزیر اعظم نے واضح پیغام دیا کہ انبار میں شروع ہونے والے مظاہروں سے عراقی حکومت کو نہ تو کمزور کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی ختم کیا جا سکتا ہے بلکہ عراقی حکومت کی تبدیلی صرف اور صرف انتخابات سے ممکن ہے۔
البتہ کچھ مغربی زیر اثر ذرائع ابلاغ نے انبار میں شروع ہونے والے بے بنیاد احتجاجی مظاہروں کو عرب بہار سے تشبیہ دی ہے۔
دوسری جانب مرکزی بینک کے ایک اعلیٰ عہدیدار کاکہنا ہے کہ عراق اقتصادی ترقی میں تیزی سے سفر طے کر رہا ہے کیونکہ عراق تیل نکالنے والا اہم ترین ملک ہے اور اس کی جی ڈی پی مسلسل بڑھ رہی ہے۔معاشی ماہرین کے مطابق عراق کی بڑھتی ہوئی اقتصادی ترقی کے باعث نوری المالکی عوام کے دلوں میں جگہ بنا چکے ہیں۔جسے آسانی سے ختم نہیں کیا جا سکتا ہے۔
12جنوری کو عراقی دارالحکومت بغداد میں ہزاروں کی تعداد میں جمع ہونے والے مظاہرین عراقی وزیر اعظم نوری المالکی کی حمایت میں جمع ہوئے اور مطالبہ کیا کہ انسداد دہشت گردی کے قانون میں کسی قسم کی تبدیلی عمل میں نہ لائی جائے۔بغداد میں عراقی مظاہرین نے ہاتھوں میں جو بینرز اٹھا رکھے تھے ان پر درج تھا کہ انبار کے مظاہروں کا مقصد عراق کو تقسیم کرنا ہے،جبکہ کچھ بینرز اور پوسٹرز میں لکھا ہوا تھا کہ الہاشمی دہشت گردی کا بانی ہے۔
کچھ سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ عراق کے صوبے انبار میں ہونے والے مظاہروں میں ترکی ملوث ہے۔جس کی وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ عراقی وزیر اعظم نوری المالکی نے ترکی کی جانب سے شام کے معاملے پر مسلسل غلط پالیسیوں پر عراق اور ترکی کے تعلقات میں نظر ثانی کے لئے کہا تھا کیونکہ مالکی یقین رکھتے ہیں کہ عراق میں دہشت گردانہ حملوں میں ترکی ملوث ہے۔اسی طرح عراق اور ترکی کے درمیان کشیدگی اس وقت مزید بڑھ گئی جب ترکی کے احمد اوگلو نے عراق می کرکوک (متنازعہ) علاقہ کا دورہ کیا۔اوگلو کے اس دورے نے بغداد کو اپنے غصے کا پیغام دیا اور کشیدگی کی ایک نئی لہر کو جنم بھی دیا۔
واضح رہے کہ عراق اور ترکی کے درمیان پہلے ہی کردستان اور آئل فیلڈ سے متعلقہ معاملات پر اختلافات موجود تھے۔عراقی ذرائع کے مطابق کردستان سے ترکی کو بغداد کی اجازت کے بغیر ہی تیل کی سپلائی شروع کر دی گئی تھی جو واقعی حیرت انگیز تھی۔اسی طرح ترکی نے پائپ لائن بچھانے کا کام بھی شروع کر دیا تھا جسے عراقی حکومت نے مکمل غیر قانونی اور بغیر اجازت قرار دیا تھا۔
عراق کے وزیرتعلیم علی ادیب ترکی کے اس جارحانہ اور غیر سیاسی رویہ کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ترکی کی خفیہ ایجنسیوں کے عہدیدار عراق میں موجودہیں جبکہ ایک ہزار اسی ترکش کمپنیاں عراق کے کردستان میں کام کر رہی ہیں۔
ترک وزیر اعظم اردغا ن مسلسل عراقی معاملات میں دخل اندازی بھی کرتے رہے ہیں۔ترک وزیر اعظم نے عراقی وزیر اعظم پر اکثر اوقات شدید تنقید کی ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ مالکی کو العراقیہ اتحاد جو ترکی کی معاونت سے بنایا گیا کے ساتھ مل کر حکومت کے معاملات چلانے چاہئیں۔ٹھیک اسی دن جس دن اوگلو نے عراقی کردستان کا دورہ کیا اسی روز سی آئی اے ایجنٹ ایاد اعلاوی کو انقرہ میں اردگان نے خوش آمدید کیا۔
قطر بھی عراق کے خلاف ہونے والی سازشوں میں ملوث ہے کیونکہ انبار میں ہونے والے مظاہروں کو قطر کے سرکاری ٹی وی الجزیر ہ پر بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا اور قطری ٹی وی کے ممبران میڈیا پر شیعہ مخالف مہم میں بھی پیش پیش رہے۔
کچھ ممالک بشمول سعودی عرب،ترکی اور قطر خطے میں عراق کو عدم استحکام کا شکار کرنے کے لئے اپنا منفی کردار ادا کر رہے ہیں۔علی ادیب کاکہنا ہے کہ خطے میں تینوں ممالک کے منفی کردار کے باعث عراق کے عوام کا اعتماد ان پر ختم ہو چکا ہے۔ادیب کہتے ہیں کہ امریکہ اس سارے معاملے سے الگ نہیں ہے بلکہ ان تینوں ممالک کی ڈوریں وہاں سے ہلائی جاتی ہیں۔امریکہ چاہتا ہے کہ عراق کو تین حصوں میں تقسیم کر دے یعنی شیعہ،سنی اور کرد۔
تاہم عراق کے متعدد سنی گروپوں نے نوری المالکی کی بھرپور حمایت کا اعلا ن کیا ہے او ر کہا ہے کہ عراق کے سنی مسلمان عراق میں شیعہ مسلمانوں کے خلاف کسی بھی سازش کا حصہ نہیں بنیں گے اور عراق کو کسی صورت تقسیم نہیں ہونے دیا جائے گا۔یہ وجہ ہے کہ العراقیہ اتحاد کے اندر اختلافات جنم لے چکے ہیں۔العراقیہ اتحاد کے ترجمان حیدر الملاح کاکہنا ہے کہ وہ العراقیہ پارٹی سے مستعفی ہو رہے ہیں کیونکہ العراقیہ شیعہ مخالف مہم چلا رہی ہے جو عراق کے مستقبل کے لئے بہتر نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button