مقالہ جات

احتجاج ہو تو ایسا

quetta dharnaدنیا بھر میں کوئی بھی قوم اپنے مطالبات منوانے کے لیے احتجاج کرتی ہے لیکن کہیں احتجاج حالیہ دنوں ہونے والے پر امن اور پر وقار ہوتے ہیں، تو کہیں احتجاج میں بے گناہ افراد کا قتل عام کرکے یا غریب افراد کو ظالم گولیوں کا نشانہ بنا کر کیا جاتا ہے تو کہیں ریڈ زون میں گھس کر سکیورٹی اہلکاروں اور بے گناہ افراد پر پتھراؤ کرکے، یاجلاؤ گیراؤ کرکے ہوتا ہے، تو کہیں احتجاج میں کربلا کا سا منظر ہوتا ہے۔ اپنے شہید ہونے والے جوانوں کی میتوں کو علمدار روڈ پر رکھ کر تین تین روز تک پر امن دھرنا دے کر کربلا کا سا منظر دیکھنے کو ملتا ہے، کسی بھی شہری کو اپنے جائز مطالبات کی منظوری کے لیے احتجاج کرنا کسی بھی قوم کا قانونی اور شرعی حق ہے۔ جمہوریت کے کسی بھی دور میں احتجاج کا رجہان زیادہ اس لئے ہوتا ہے کیونکہ جمہوریت میں عوام کے منتخب نمائندوں کی حکومت ہوتی ہے اور اگر اپنے ووٹ سے جتوانے کے بعد یہ منتخب نمائندے حق و باطل میں تمیز نہیں کرتے، تب عوام سڑکوں پر آجاتی ہے۔ جب یہ نمائندے مصلحتوں کا شکار ہوکر اپنی سیٹ کو بچانے اور اپنے سیاسی آقاؤں کو خوش کرانے کی خاطر معاشرے میں ہونے والی خونریزی سے نظریں چراتے ہیں، تب لوگ اپنے حقوق کی خاطر اپنے پیاروں کی میتوں کے ہمراہ تین تین روز تک پر امن دھرنے دیتے ہیں، جس میں کسی قسم کا جانی و مالی نقصان نہیں ہوتا، ایک پتہ بھی اپنے جگہ سے نہیں ہلتا اور حکومتیں مٹ جاتی ہیں۔

ایوان ہل جاتے ہیں اور حق و باطل کی پہچان ہو جاتی ہے اور نااہل اور غریبوں کے خون چوسنے والے اعلیٰ حکام اپنا سب کچھ کھو دیتے ہیں اور وہ وقت انقلاب کی ابتدائی کڑی ثابت ہوتی ہے، جسے انقلاب کربلا کہتے ہیں، انقلاب زینب (س) کہا جاتا ہے، انقلاب خون ناحق کہا جاتا ہے اور اس انقلاب کے آنے کے بعد اور ہزاروں بے گناہ شہداء کا خون بہہ جانے کے بعد یہ انقلاب انقلاب خمینی (رح) کی شکل اختیار کر دیتا ہے یا انقلاب مجلس وحدت مسلمین کہا جاتا ہے۔

ملک بھر میں کی جانے والی شیعہ نسل کشی جس میں امریکہ کی بنائی گئی تنظیمیں القائدہ، طالبان اور دیگر مذہبی منافرت پھیلانے والی جماعتیں جب کسی بے گناہ کا قتل کرتی ہیں اور ان کے لواحقین کو حق نہیں ملتا اور آئے روز جھوٹے کیسز بنائے جاتے ہیں، بے گناہ جوانوں کا قتل عام کیا جاتا ہے، چن چن کر ایک ہی مسلک کے ڈاکٹروں کا قتل کیا جاتا ہے، انجینئیرز کو ختم کیا جاتا ہے، جوانوں کو مارا جاتا ہے، شیر خوار بچوں کو ظالم گولیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور کربلا کا منظر بن جاتا ہے تو ایسے میں ملک کو بچانے کے لئے تبدیلی کے نام سے محمد و آل محمد (ص) کی سیرت کے اصولوں کے عین نظام کا نعرہ لگا کر عباس علمدار (ع) کے علم کو بلند کرتا ہے اس نظام کو مجلس وحدت المسلمین کہا جاتا ہے، جو ظالم کو ظالم اور مظلوم کو مظلوم کہنے کی ہمت رکھتی ہے، جو حق کی بات کرتی ہے، بے گناہ کا قتل عام روکنے کی بات کرتی ہے لیکن پھر بھی یہ نظام یہ قتل و غارت گری نہ رُکے تب وہاں کربلا کی یاد دلاتی ہے۔

86 میتوں کو علمدار روڈ پر رکھ کر ظالموں کی حکومت ختم ہونے تک ڈٹ جاتی ہے اور اپنے مطالبات منوانے کے لیے پر امن احتجاج کرتی ہے، جو کہ قانون و آئین کے ساتھ ساتھ عین شرعی بھی کہا جاتا ہے۔ ایک طرف ان لوگوں کا پر امن احتجاج ہے لیکن دوسری جانب یوم عشق رسول اللہ کے روز کئے جانے والے احتجاج اور حکومت کے خلاف نعرے اپنی جگہ لیکن سکیورٹی اہلکاروں پر فائرنگ پتھراؤ اور دیگر بے گناہ لوگوں کو ہراساں کر کے مسافر گاڑیوں کو نذر آتش کرنا کون سے آئین و قانون کے دائرے میں آتا ہے۔ احتجاج کے نام پر بے گناہ مسافروں کو گاڑیوں سے اتار اتار کر ایک ہی مسلک کے نام پر قتل عام کرنا کیا یہ احتجاج قانون و آئینی ہے؟ کیا یہ احتجاج سیرت محمد (ص) کے عین مطابق ہے، کیا یہ احتجاج جائز ہے؟ احتجاج کرنا ہر کسی کا جمہوری حق ہے اور احتجاج کو پر تشدد بنانا قانون و آئین اور سیرت محمد (ص) سے غداری ہے اور غداری کی سزا بھی ہوتی ہے۔

لیکن اس ملک میں کوئی نظام نہیں، ظالموں کو آئے روز باعزت بری کیا جاتا ہے تو چیف صاحب کو سوموٹو کے لئے وحیدہ شاہ کا تھپڑ نظر آتا ہے لیکن ایک خودکش دھماکے میں 150 سے زائد افراد کا قتل عام کیا جاتا ہے لیکن اس پر مذمت تک نہیں ہوتی۔ کیا یہ قانون ہے؟ کیا یہ انصاف ہے؟ یہی چیف صاحب وہ ہیں جو وزراء کو عادل و صادق نہ ہونے پر ان کی اسمبلی کی رکنیت ختم کرنے کے درپے ہے۔ لیکن کیا منصف عدالت میں غیر عادل اور غیر انصاف والا شخص رہ سکتا ہے؟ اگر رہ سکتا ہے تو صرف ہمارے ملک میں۔ کیوں کہ یہاں حکومت نام کی کوئی شے نہیں، عدالت نام کی کوئی شے نہیں اور قانون نام کی کوئی شے نہیں، صرف ظالموں کا راج ہے اور انصاف ختم ہوگیا ہے۔ انصاف اور قانون کی فراہمی کے لیے انقلاب خمینی کی ضرورت ہے، انقلاب وحدت کی ضرورت ہے اور انقلاب ویسا ہو جیسا گزشتہ دنوں ہوا۔ ایک اینٹ نہ ہلی حکومت ختم، ایک پتھر نہ ہلا ایوان ہل گئے اور یہی بات کسی بھی مہذب اور باشعور قوم کی علامت ہے۔ آیئے ہم عہد کریں کہ ہم ایک اچھی قوم بن کر وحدت بین المسلمین کے فروغ میں اپنا کردار ادا کریں گے اور آپس کی دوریوں کو ختم کرکے ایک بہترین نظام کی خاطر ایک بہتر پاکستان کی خاطر ایک ہوں گے اور پوری دنیا میں اپنے ملک کا نام مہذب قوموں میں شامل کرائیں گے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button