مقالہ جات

سعید بھائی بھی سرخ موت کے ساتھ سرخرو ہوگئے

Saeed-Bhaiشہید سید سعید حیدر زیدی جو سعید بھائی کے طور پر زبان زدِ عام تھے ملت تشیع پاکستان کی ان عظیم ہستیوں میں سے ایک ہیں جن کی پوری زندگی ملت کو بیدار کرنے اور اس کو اپنے حقیقی نصب العین سے قریب تر کرنے میں پورے خلوص کے ساتھ سرگرداں و فعال رہی۔ آپ اوائل عمری سے ہی مسلم معاشروں پر حقیقی اسلام کے غلبے کے آرزو مند تھے لیکن آپ کی یہ آرزو اس وقت دو آتشہ اور مزید توانا ہوگئی جب 1979ء میں سر زمین ایران پر حضرت امام خمینی (رہ) کی معنوی قیادت کے زیر سایہ اسلامی انقلاب رونما ہوا جو اپنی روح اور ساخت میں جناب رسول خدا (ص) کے انقلاب کا مظہر تھا۔ شہید سعید حیدر زیدی اپنے نزدیک زندگی کا جو آئیڈیل رکھتے تھے وہ مادی آسائش و خوشحالی پر مبنی نہیں تھا بلکہ آپ ایک اسلام شناس تھے اور آپ کی تمام آرزوئیں اسلامی تصورِ جہاں بینی (Worldview) سے ماخوذ تھیں۔ اپنی دیرینہ آرزو کی تکمیل کے لئے پاکستان اسٹیل ملز کی مستحکم اور پرکشش ملازمت کو خیر آباد کہہ کر علمی کاموں میں مصروف ہوگئے۔ یہ بات خواص و عوام سے پوشیدہ نہیں ہے کہ پاکستان میں علمی کام بالخصوص ملت تشیع کے افراد کے لئے Paying نہیں ہے بلکہ گزر بسر ہوجائے تو یہ بھی غنیمت ہے۔ بہرحال سعید بھائی نے اپنے دینی ہدف کو اپنے اقتصاد پر ترجیح دی جو کہ دین سے ان کی گہری وابستگی کی دلیل ہے۔ آپ نے اپنی علمی سرگرمیوں کے دوران پیش آنے والی اقتصادی مشکلات کا بڑے حوصلے کے ساتھ مقابلہ کیا اور کبھی شکوہ بھی زبان پر نہ لائے۔

آپ روایتی مفہوم میں اگرچہ کوئی عالم دین نہیں تھے لیکن دین پر جو آپ کی گہری نظر تھی اس کے پیش نظرآپ کو علماء کی صف سے خارج سمجھنا عالم کے وسیع تر مفہوم کو محدود کرنا ہے۔ اسلام کے حوالے سے آپ کے خواب بہت بلند تھے اسی وجہ سے اگر آپ کو اسلامی اندیش مند یا مفکر کے ساتھ اسلام کا Dreamer اور Visionary کہا جائے تو یہ ان کے عین شایانِ شان ہے۔ آپ ان دینی افراد میں سے ہیں جو شہرت و ناموری سے بہت دور رہنے کو ترجیح دیتے تھے اور خاموشی سے ایسے علمی اور فکری کاموں میں مصروف رہا کرتے تھے جو ملت کو پائیداری اور استحکام بخشنے میں کافی معاون و مددگار تھے۔ آپ ملت کے نوجوانوں سے بہت ہی بے تکلفی سے نشست و برخاست کے عادی تھے اور ان جوانوں کے ساتھ دوستی کی سطح پر ہمکاری کرتے ہوئے ان کی فکر و عمل کی تربیت کیا کرتے تھے۔ آپ ایک راسخ العقیدہ شیعہ تھے اور مکتب اہلبیتؑ کو ہی انسانیت کے مسائل کا واحد حل جانتے تھے۔

اس کے ساتھ ہی وہ اس حوالے سے بھی فکر مند تھے کہ ملت تشیع پاکستان آئمہ معصومین (ع) کی راہ و روش کی حقیقی ترجمانی سے ابھی قدرے دور ہے اور اسلام کی سیاسی و ثقافتی نیز تمدنی و تہذیبی حاکمیت اور بالادستی کے لئے جو رول ادا کرنا چاہئے تھا اسے وہ بخوبی ادا نہیں کر پارہی ہے۔ چنانچہ آپ ملتِ تشیع پاکستان کو ایران کے انقلابِ اسلامی اور حزب اﷲ لبنان سے تحرک و Inspiration لینے کو ملتِ تشیع اور حتیٰ کے تمام اقوام مسلم کی مشکلات کا حقیقی حل خیال کرتے تھے۔ آپ نے دارالثقلین نامی علمی ادارے کی بنیاد ڈالی اور اس ادارے کے توسط سے شہید مرتضیٰ مطہری (رہ) اور ان جیسے دیگر اسلام کے جانباز مفکرین کے عظیم الشان افکار کو زبانِ اردو میں منتقل کرا کر متعدد عنوانوں سے کتابیں منظر عام پر لائے۔ ان کتابوں نے ملت تشیع کے نوجوانوں کی فکر کو دینی رخ عطا کیا۔ بحیثیت مجموعی یہ کتابیں برصغیر ہندو پاک کی ملت تشیع کی فکری ارتقاء میں قابل ذکر کردار ادا کر رہی ہیں۔

شہید سعید حیدر زیدی ملت تشیع کی اہل بیت رسول (ص) کے ساتھ والہانہ محبت و وفاداری کے بے حد قدردان تھے لیکن مکتب اہلبیت (ع) کے نام پر ملت میں رائج خودساختہ انحرافات جن کی رسول خدا (ص) و آئمہ اطہار و معصومین (ع) سے کوئی سند نہیں ملتی کو برطرف کئے جانے پر بھی کافی تاکید کیا کرتے تھے۔ شہید سعید بھائی اس حوالے سے بے چین رہتے تھے کہ جس شدت و محبت کے ساتھ محبانِ اہلبیت (ع) محرم اور صفر کے پورے دو ماہ شعارِ حسینی (ع) بلند کرنے میں مصروف رہتے ہیں کاش یہ سال کے باقی دنوں میں ایسے تربیتی کورسز اور لائحہ عمل تیار کرنے میں دلچسپی لیتے جس کے ذریعے ملت کے افراد کو امام حسین (ع) اور معصومین علیہم السلام کی سیرت اور نقوشِ قدم پر عملاً گامزن کرنے میں ملت تشیع کی مدد کی جاسکتی۔

سعید بھائی ملت میں ایسی تحریک کے زور پکڑنے کے خواہشمند تھے کہ جس کے ذریعہ ملت کے عام افراد اور بالخصوص نوجوانوں کی اس انداز پر تربیت ہوسکے کہ ان کے اندر روشِ زندگی، معاملات اور لین دین میں صداقت ان کا محور قرار پائے اور انہیں مخربِ اخلاق سرگرمیوں سے دور رکھا جاسکے نیز انہیں واجب اور مستحب عبادات کے اہتمام پر آمادہ کیا جاسکے اور ساتھ ہی انہیں ایسی تشویق اور ترغیب دی جاسکے جس کی بناء پر وہ اسلام کی نہضتی سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لے سکیں۔ اسی لئے وہ ملت میں موجود دینی و علمی حتیٰ کہ فلاحی اداروں سے ہر طرح کے تعاون پر آمادہ رہتے تھے۔ ان کی شہادت سے چند روز قبل ہی شہید فاؤنڈیشن پاکستان کے ایک وفد نے ان سے ملاقات کی تھی اور اپنے سہ ماہی میگزین الشہید کے لئے بچوں کی تربیت کے حوالے سے مضامین تحریر کرنے کے لئے ان سے درخواست کی تھی جسے انہوں نے بخوشی قبول کرلیا تھا۔

آپ اپنی کم عمری ہی سے نوحہ خوانی و ماتمی انجمنوں کی سرگرمیوں میں بھرپور انداز میں شریک رہے اور عزاداری کے تحفظ اور فروغ کو اسلام کی بقاء کے لئے لازم اور ضروری جانتے تھے چنانچہ پاکستان میں عزاداری کو روکنے کے لئے استعمار کے غلام حکمراں طبقے کی جانب سے کی جانے والی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کو ناکام بنانے کے لئے وہ ایک مستقل حکمتِ عملی وضع کئے جانے پر زور دیا کرتے تھے۔ شہید سعید حیدر بھائی کی ایک اہم اور قابل تعریف صفت یہ تھی کہ وہ اختلاف رائے کا خیر مقدم کیا کرتے تھے اور اپنے آپ کو کبھی ایسے دانشور کی حیثیت سے ظاہر کرنے کی کوشش نہیں کی کہ جس کے سامنے سامعین یا شرکائے گفتگو اپنی مختلف آراء کا اظہار نہ کرسکیں۔

سعید بھائی نے بارہا اہل سنت کے اہل علم افراد کے ساتھ مختلف نشستیں کیں اور امت میں وحدت ایجاد کئے جانے کے حوالے سے ان کے ساتھ تبادلہ خیال کیا۔ ان نشستوں کی افادیت اس طرح سامنے آئی کہ اہل سنت کے بعض سنجیدہ اہل علم نے سعید بھائی سے اہل تشیع کے مستند علماء کے ساتھ ملاقات کرانے کی خواہش کا اظہار کیا اور سعید بھائی نے ان کی یہ فرمائش بارہا پوری بھی کی۔ مثلاً علامہ عقیل الغروی، علامہ امین شہیدی، مولانا حیدر عباس عابدی، مولانا اصغر شہیدی اور مولانا سید باقر زیدی کے ساتھ اہل سنت کے بعض اہل علم افراد کی طویل نشست کروائی جہاں شرکاء نے بہت ہی کھلی فضاء میں ایک دوسرے سے تبادلہ خیال کیا۔ شہید سعید بھائی کی کوششوں سے ایرانی دانشور علی مطہری جو کہ شہید مرتضیٰ مطہریؒ کے فرزند ہیں اور ایرانی پارلیمنٹ کے رکن بھی ہیں نے اہلسنت کے ایک اہم تحقیقی ادارے میں خطاب کیا اور اہلسنت سے تعلق رکھنے والے عمائدین اور زعماء کے سوالات کا جو انقلاب اسلامی سے متعلق تھے جواب دیا۔ اسی طرح ایران کے ایک اہم دانشور آغا رحیم پور ازغدی نے بھی اس تحقیقی ادارے میں اہل سنت کے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد سے خطاب کیا اور ان کے سوالوں کے جوابات دیئے۔

چار یا پانچ سال قبل شہید سعید بھائی نے نیپا کے کانفرنس ہال میں شعبان کے مہینے میں امام زمانہ علیہ السلام کے موضوع پر ایک شاندار کانفرنس کا اہتمام کیا جس میں اہل سنت کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ اس کانفرنس کے مقررین میں دیگر لوگوں کے علاوہ پروفیسر امان اﷲ شادیزئی جو کہ اہل سنت کے ایک اہم دانشور ہیں، ڈاکٹر عقیل موسیٰ اور ڈاکٹر زاہد علی زاہدی بھی شامل تھے۔ اس کانفرنس کے بڑے اچھے اثرات رونما ہوئے تھے لیکن افسوس ہے کہ وسائل کی کمی کے باعث اس طرح کے سلسلے کو مزید جاری نہیں رکھا جاسکا۔ راقم الحروف سے اہل سنت کی بعض اہم شخصیتوں نے سعید بھائی کی شہادت پر اپنے گہرے رنج و غم اور دکھ کا اظہار کیا۔ سعید بھائی کی شخصیت یقیناً ہمارے نوجوانوں کے لئے ایک آئیڈل کی حیثیت رکھتی ہے۔

آپ نے دین خدا کی حتی الوسع خدمات انجام دیں۔ خوش اخلاقی، نرم خوئی اور محبت آمیزی آپ کے کردار کا طرہ ہائے امتیاز تھیں۔ آپ اپنی شہادت سے تقریباً ایک سال قبل اتنے شدید بیمار ہوئے کہ آپ کا بچنا مشکل دکھائی دیتا تھا لیکن خدا نے اپنی بارگاہ میں آپ کے لئے مقامِ شہادت مخصوص کر رکھا تھا چنانچہ آپ نہ صرف شفایاب ہوئے بلکہ نسبتاً آپ کی صحت بہتر بھی ہوگئی لیکن ایک سال بعد ارادہ الٰہی حرکت میں آیا اور آپ کو مرتبہ شہادت پر فائز کرتے ہوئے جوارِ رحمتِ خداوندی میں لے گیا جہاں وہ خاصانِ خدا کی دائمی ہم نشینی سے ہمکنار ہوگئے۔ لعنت ہو ان دہشت گردوں پر کہ جنہوں نے ملت اسلامیہ سے اس کی ایک علمی، فکری، نظریاتی و دینی شخصیت کو چھین لیا۔ سلام ہو سعید بھائی اور دیگر شہدائے اسلام و تشیع پر کہ جنہوں نے راہِ حق میں استقامت دکھائی اور جامِ شہادت نوش کرکے اسلام کی موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لئے نمونہ قرار پائے۔

نوٹ: یہ تحریر آئی ایس او کراچی ڈویژن کی ذیلی نظارت کے رکن شہید سعید حیدر زیدی کے چہلم کے موقع پر شہید کو خراج عقیدت پیش کرنے لئے شائع کی گئی ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button