مقالہ جات

حضرت عباس بن علی (ع) فضائل و کمالات کا مظہر

hazrat abbasحضرت عباس علیہ السلام کی ولادت با سعادت کے عظيم موقع پر اہلبیت علیہم السلام کے دوستوں اور محبوں کے قلوب خوشی و شادمانی سے معمور ہیں عرش پر رہنے والے معصوم فرشتے بھی خوشی و شادمانی سےچار شعبان المعظم کی مناسبت سے ایک دوسرے کو تہنیت و مبارکباد پیش کررہے ہیں آج اس عظیم شخص کی ولادت کا دن ہے جس کی رفتار و گفتار ، کرامت و شہامت کی جلوہ گاہ ہے، جس کے کردار کی باران رحمت تمام تشنگان فضیلت کو سیراب کرتی ہے ۔
عباس بن علی (ع) جو کتاب علم اور ایثار و ادب کی روشن علامت و نشانی ہیں، آج کے دن پیدا ہوئے۔اس وقت حضرت عباس دلاور کے مضبوط و مبارک قدم اور ان کی آمد کےاحترام میں عرش کے ساکنین فرش زمین پر رہنے والوں کو تہنیت و مبارکباد پیش کررہے ہیں۔
ہم اس خوشی و انسباط کے موقع پر آپ سب کی خدمت میں مبارکباد پیش کرتے ہیں۔

٭٭٭٭٭
آج ہم سرچشمہ ایمان و یقین تک پہنچنے کے لئے کسی رہنما کے محتاج ہیں ہماری حیات تشنہ ہےاور ہمارے قلوب اس بات کی خواہش و آرزر رکھتے ہیں کہ اولیاء دین اور وہ افراد جو فضیلت و پاکیزگی کا نمونہ اور ان کے اختیار میں جو بہترین و گوارا زمزم ہے اس سے ہمیں سیراب کریں گے اور انہیں اولیاء الہی میں حضرت عباس بن علی (ع) بھی ہیں ، آپ شجاعت و بہادری ، ایمان و معنویت ، استقامت و وفاداری اور عبادت و معرفت میں لوگوں کے لئے اسوہ ونمونہ ہیں۔

٭٭٭٭٭
شعبان المعظم کی چوتھی تاریخ علمدار کربلا حضرت عباس بن علی علیہ السلام کی ولادت با سعادت کا دن ہے حضرت عباس بن علی (ع) سن چھبیس ہجری کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے حضرت علی علیہ السلام نے اپنے لخت جگر کا نام ” عباس ” یعنی میدان جنگ کا شجاع و بہادر شیر ، رکھا۔
آپ اپنے والد ماجد امیرالمومنین علیہ السلام اور اپنی مادر گرامی فاطمہ بنت حزام بن خالد عامریہ کی آغوش عطوفت میں اس طرح پروان چڑھے کہ مظہر غیرت اور ایثار وشجاعت کا پیکر بن گئے۔عباس بن علی (ع) نے اپنی پوری حیات طیبہ میں اپنے والد ماجد اور اپنے معصوم بھایئوں سے بھرپور استفادہ کیا اور تمام فضائل و کمالات کا مظہر بن گئے آپ نے جوکچھ بھی ان تین عظیم ہستیوں سے حاصل کیا تھا اسے کربلا کے میدان میں واضح و آشکار کردیا اور عاشور حسینی کے دن اپنی شجاعت و بہادری کے جوہر دکھائے۔اور عرفان و تقوی اور پاکیزہ سیرت کی بناء پر لوگوں کے لئے ایثارو قربانی اور پاکیزگی کی مثال بن گئے۔ آپ کا نورانی وجود ، نورانیت ومعنویت کی راہنمائی چاہنے والوں کے لئے چراغ اورآپ کے معطرالہی صفات ، حقیقت کے متلاشییوں کے لئے رہنما بن گیا۔

٭٭٭٭٭
حضرت عباس علیہ السلام اپنے والد ماجد حضرت امام علی (ع) کے زیر سایہ اور اپنی باایمان و وفادار مادر گرامی کی آغوش عطوفت اور اپنے بڑے بھایئوں امام حسن اور امام حسین علیہم السلام کے ساتھ پروان چڑھے، آپ نے ان تین معصوم اماموں سے کسب فیض کرکے فضیلت و آداب کے اصول سیکھے خصوصاآپ ہمیشہ اپنے آقا سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کے ساتھ رہے اور ایک لمحے کے لئے بھی حضرت سے جدا نہ ہوئے بلکہ ان کے اخلاق و کردار سے اپنے کو زینت بخشی اوران کے کردارو گفتار کے اعلی نمونے کو اپنے لئے اسوہ و نمونہ قرار دیا۔ بے شک امام علی علیہ السلام کی خاص تربیت اور اعلی صفات وکمالات نے اس نوجوان کی فکری اور روحانی شخصیت کے نکھارنے میں بہت ہی اہم کردار ادا کیا ہے ۔ حضرت عباس (ع) نے عہد طفولیت سے ہی اس بات کو ذہن نشین کرلیا تھا کہ کلمہ حق کی سربلندی اور توحید کا پرچم لہرانے میں ایثارو قربانی کا جذبہ پیش کرنا ہے اور اس چیز کو اپنے جان ودل میں بسا رکھا تھا اورآخر دم تک اس پر ثابت قدم رہے ۔

٭٭٭٭٭
حضرت عباس (ع) اپنے والد ماجد حضرت علی (ع) کے ہمراہ چودہ برس رہے جس میں آخر کے پانچ برس دشمنوں سے مقابلہ کرنے میں گذرے، حضرت عباس (ع) ان میں سے بعض جنگوں میں شریک رہے حالانکہ آّپ نے ابھی جوانی کی دہلیز پر ہی قدم رکھا تھا اس کے باوجود آپ بہت ہی پھرتیلے، بڑھ بڑھ کر حملہ کرنے والےاوراپنے مقابل بہادر و جنگجوؤں سے مقابلہ کرنے والے تھے۔
بعض مورخین نے جنگ صفین میں آّپ کی شجاعت و بہادری کے جوہردکھانے کے متعلق تحریر کیا ہے کہ جو نوجوانی اور بارہ برس کی زندگی میں ان کے جنگ کے اسرار رموز سے آگاہی اور آشنائی پر دلانت کرتے ہیں۔انہوں نے مزید تحریر کیا ہے کہ جنگ صفین میں جب معاویہ کے لشکر نے نہر پر قبضہ کرکے پانی پر پابندی عائد کی اورحضرت علی علیہ السلام کے اصحاب کے لئے پانی کی عدم موجودگی، جان کاخطرہ بنی تو آپ نے اپنے اصحاب کو نہر پر سے قبضہ ہٹانے کا حکم دیا اس وقت خود آپ نے امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ نہر سے پہرہ ہٹانے اور پانی پر قبضہ جمانے کے لئے دشمنوں سے زبردست جنگ لڑی۔

٭٭٭٭٭
حضرت عباس علیہ السلام نے اپنے بابا کی شہادت کے چند برس بعد اٹھارہ برس کی عمر میں عبد اللہ ابن عباس کی بیٹی ” لبابہ ” سے شادی کی۔
ابن عباس، پیغمبر اسلام (ص) کے چچازاد بھائی ، راوی حدیث ، مفسر قرآن اور حضرت علی علیہ السلام کے برجستہ و لائق شاگرد تھے جناب لبابہ کی معنوی و فکری شخصیت نے بھی قرآن کریم کے اس عظيم مفسر کے گھر میں تربیت پائی اور علم و ادب سے مالا مال ہوئیں۔ اس مبارک شادی کے نتیجے میں دو نورانی فرزند” عبد اللہ ” اور ” فضل ” پیدا ہوئے جو آگے چل کر بزرگ عالم دین اور قرآن کریم کے مروج بنے۔
حضرت عباس علیہ السلام کی اولادوں میں بھی بہت سے ایسے افراد ہیں جن کا شمار، حدیث کے راوی اور دوسرے ائمہ کے زمانے میں بزرگ عالم دین میں ہوتا ہے۔ اوریہ علوی نور علم ، جو عباس بن علی علیہ السلام کے وجود نازنین میں جلوہ گرہواتھا اس کا سلسلہ آنے والی نسلوں میں بھی جاری رہا اور دین خدا کی پاسبانی کی۔جس میں سب کے سب عالم ، عابد ، فصیح و بلیغ اور ادیب تھے۔

٭٭٭٭٭
حضرت عباس (ع) نہایت ہی حسین وجمیل اور اخلاق حسنہ کےمالک تھےان کا ظاہر و باطن ایک تھا، آپ کا نورانی وتابناک چہرہ آپ کو دوسروں سے ممتاز کرتاتھا اور بنی ہاشم کے درمیان، کہ جس میں سب کے سب جمال و کمال کے درخشاں ستارے تھے ، عباس (ع) چاند کی مانند تھے اسی بناء پرآپ کو ” قمر بنی ہاشم ” کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے آپ کے حسن وجمال کی توصیف میں صرف شکل و صورت یا ان کے قد وقامت ہی کو نہ بیان کیا جائے بلکہ ان کی روشن و منور فضیلتیں بھی اس خوبصورتی میں سہیم ہیں اسی طرح حضرت عباس (ع) کے تقوے اور پرہیزگاری ، دیانت اور وفاو عہد کا تذکرہ ہر ایک کی زبانوں پر تھااس کے علاوہ آپ کا شمار، اسلام کے بڑے بہادروں میں ہوتا تھا آپ نے شجاعت و دلاوری اپنے والد ماجد سے ورثے میں پائی تھی اورآپ کی کرامت و شہامت ، عزت نفس۔ پرکشش و جاذب چہرہ، بنی ہاشم کی تمام عظمتوں کا مرقع تھا آپ کی پیشانی پر سجدوں کے آثار نمایاں تھے جو خداوند عالم کے سامنے ان کے خضوع و خشوع اور تہجد و عبادت کی حکایت کررہے تھے آپ خدا کی راہ میں مبارزہ کرنے والےاور روز و شب کے تمام اسراررموز سے آشنا سپاہی تھے۔

٭٭٭٭٭
حضرت عباس (ع) کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ آپ نافذ البصیرہ اور گہری نظر رکھتے تھے اور معاشرے کے تمام سیاسی حالات اور کفر ونفاق کے تمام مکرو حیلے سے بخوبی واقف و آگاہ تھے آپ صرف ایک بڑے بہادر و جانباز اور شجاع علمبردار ہی نہ تھے بلکہ آّپ کی شخصیت فقاہت و قداست ، عبادت وبصیرت ، دوراندیشی، سادگی اور زہد وتقوی سے معمور تھی اور اسی بصیرت و عمیق نظر کا نتیجہ تھاکہ آپ نے امام وقت سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کی حمایت میں قیام کیا اور شرافت و کرامت کے اعلی مقام پر فائز ہوئے اور صفحہ تاریخ پرہمیشہ کے اپنے نقوش چھوڑ دیئے۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اپنے چچا حضرت عباس علیہ السلام کے بارے میں فرماتے ہیں :
ہمارے چچا عباس نافذ البصیرۃ تھے انہوں نے اپنے بھائی امام حسین علیہ السلام کے ساتھ جہاد کیا اور آزمائش کی کسوٹی پر بالکل کھرے اترے اور جام شہادت نوش کیا۔ بصیرت و دور اندیشی جسے امام علیہ السلام نے آپ کی توصیف میں بیان کیاہے وہ آپ کے لئے بہترین اور قابل افتخار سند ہے ایسی بصیرت ودور اندیشی جس کی آج سماج کے ہر طبقے کو بہت سخت ضرورت ہے کونکہ کہ یہی بصیرت ہے جو سخت و پیچیدہ مراحل اوردقیق فیصلے کے وقت انسان کو سیدھے اور ولایت کے صحیح راستے کی طرف رہنمائی کرتی ہے ۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
چار شعبان المعظم مناسبت سے تمام قارئین کی خدمت میں مبارکباد پیش کرتے ہوئے خالق لوح و قلم کی بارگاہ میں دست بدعا ہیں کہ خدایا ہم سب کو آل محمد علیہم السلام کا سچاپیرو قراردے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button