مقالہ جات

بس اب بہت ہو چکا

Bassامریکہ کی پھینکی ہوئی ہڈیوں کو چاٹ چاٹ کر پروان چھڑنے والوں سے کیا امریکہ دشمنی تصور کی جا سکتی ہے۔؟ وہ استعمار کے ترجمان ہیں، وہ مسلمان جو مسلمانوں میں تفرقہ کی بات کرتے ہیں وہ مسلمان نہیں ہو سکتے، وہ مساجد جہاں سے پیروکاران حضرت مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے کافر کافر کی صدائیں بلند ہوں،

وہ مسجد ضرار تو ہو سکتی ہے لیکن قلعہ اسلام نہیں ہو سکتی۔ آج کفر پر باطل متحد ہو چکا ہے لیکن ہم حق پر ہوتے ہوئے بھی سوچوں میں گھرے ہوئے ہیں، کس بات کا انتظار ہے؟
’اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ جن لوگوں کو زمین میں کمزور بنا دیا گیا ہے ان پر احسان کریں اور انہیں لوگوں کا پیشوا بنائیں اور زمین کا وارث قرار دیدیں‘‘ سورہ القصص ۵
اس بات سے کون انکار کر سکتا ہے کہ محبان علی علیہ السلام کو ہر دور میں دبانے کی کوشش کی گئی اور ان کو محدود کرنے کی کوشش کی گئی۔ کبھی قتل عام کیا گیا تو کبھی زندہ دفنایا گیا، کبھی دیواروں میں چنوایا گیا تو کبھی زبانیں گدی سے کھینچوا لی گئیں۔۔۔۔جرم کیا ہے ہمارا؟۔۔۔۔۔رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور انکی ذرّیت سے محبت؟۔۔۔۔۔۔یہ اتنا بڑا جرم تو نہیں۔۔۔۔۔عاشقان مولا علی علیہ سلام و دیگر آئمہ علیھم السلام ہر مذہب اور قوم میں موجود ہیں۔۔۔انکے ساتھ تو یہ روش تاریخ نے نہیں اپنائی۔۔۔۔۔پھر کیا وجہ ہے کہ ہمارے ساتھ ایسا ہو۔؟

اپنے مولا و آقا پر ڈھائے جانے والے مصائب و آلام پر گریہ کرنے اور ماتم کرنے کے علاوہ بھی ہماری ذمہ داریاں ہیں اور تاریخ گواہ ہے جب بھی ہم نے ان ذمہ داریوں سے دامن چرایا ہے تاریخ نے بلاتعطل نفرت، بغض و کینہ کے زہر سے آلودہ ننگی تلواروں سے ہماری گردنوں پر وار کیا ہے۔ بات صرف رونے تک محدود نہ تھی، لیکن ہمارے درمیان سادہ لوح بھائیوں نے دانستہ یا غیر دانستہ طور پر محبت کے اظہار کو صرف آنسوں تک محدود کر دیا۔۔۔۔۔۔وہ محبت جس نے نور ولایت کو اندھیروں میں گھرے دلوں میں پہنچانا تھا، ظلم اور استبدادی نظام کے آگے حسینی فکر و جذبہ کا بند باندھنا تھا، مظلوم اور مستضعف کو آغوش میں لیکر احساس محرومی کو ختم کرنا تھا۔۔۔۔لیکن ہم نے صرف محبت پر اکتفا کیا۔۔۔ظلم سر اٹھاتا گیا۔۔۔۔ہم خاموشی سے ماتم کرتے رہے۔۔۔۔۔۔۔استعمار ہمارے گرد گھیرہ تنگ کرتا گیا، ہم خاموشی سے روتے رہے۔۔۔۔۔۔مظلوم پر ظلم ہوتا رہا اور ہم خاموشی سے ماتم کرتے رہے!!!

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ گریہ امام حسین علیہ سلام ایک لازمی جز حیات و دین ہے، لیکن مقصد امام حسین علیہ السلام کیلئے جدوجہد اور اس کی حفاظت بھی ہماری اولین ذمہ داری ہے۔۔۔۔اسلامی قدروں کا احیاء۔۔۔۔اسلامی قدروں کی پاسداری۔۔۔۔اسلام کی سر بلندی۔۔۔۔ظالم کے خلاف قیام۔۔۔۔۔مظلوم کی سرپرستی۔۔۔۔۔مختصر اور سادہ لفظوں میں یہ بھی ہماری ذمہ داریاں ہیں۔ جی ہاں۔۔۔۔صرف حسین علیہ السلام کو رونا نہیں بلکہ حسینیت کیلئے عملی اقدام بھی ہماری ذمہ داری ہے۔۔۔۔۔مثل حسین (ع) بیعت یزید وقت سے انکار، کربلائے وقت میں قیام۔۔۔یہ سب ہم پر واجب ہے!!!

جوش، حریت، ظالم سے نفرت اور مظلوم سے محبت ہماری فطرت کا حصہ ہے، ہم صرف رونے کیلئے پیدا نہیں کئے گئے، ہمارا مقصد حیات حسینیت کا پرچار ہے، پرچم حسین علیہ السلام کی سربلندی ہے۔۔۔۔جب تک منتقم کربلا ظہور نہیں کرتا، اپنے وقت کے ولی کے ساتھ، اسکی قیادت میں حسینیت کا پرچار اور پرچم حسین ع کی سر بلندی کیلئے عملی جدوجہد ہماری ذمہ داری ہے اور اس ذمہ داری سے جو بھی حسین ابن علی علیہ السلام سے محبت کا دعوے دار ہے اپنے آپ کو مبرا قرار نہیں دے سکتا۔۔۔وہ ذمہ داری نبھائے یا نہیں ۔۔۔۔جب منتقم کربلا ظہور کرے گا تو اس سے اس کی بابت سوال ضرور کرے گا!۔۔۔کیا جواب دیں گے ہم۔؟

مانا کے شہادت ہمارے لئے سعادت ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ جو بھی چاہے، جب چاہے، آئے اور ہم پر ظلم کرے۔۔۔۔ہمارے بارہ میں سے گیارہ امام شہید ہیں، شہادت ہماری میراث ہے، ہمیں اس سے انکار نہیں۔۔۔۔۔لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اپنی گردنوں کو عریاں کر دیں اور کہیں کہ آئو ہم پر چھری چلا دو۔۔۔۔۔ہم کر بھی کیا سکتے ہیں۔؟ یہ سوال اس بات کا غمازی ہے کہ مایوسی نے ہمیں گھیر لیا ہے اور ہم نے دشمن کے سامنے شکست تسلیم کر لی ہے۔۔۔۔۔حسینیت ہمیں یہ نہیں سکھاتی۔۔۔۔

جب تک چھ ماہ کا بچہ بھی موجود تھا۔۔۔اس نے بھی ہل من ناصر ینصرنا کی صدا پر لبیک کہا۔۔۔۔۔حسینی ایسے ہوتے ہیں۔۔۔۔جذبہ حسینی بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔۔۔۔جذبہ حسینی کی بیداری کا ثمر انقلاب اسلامی کی شکل میں ملتا ہے، جذبہ حسینی کا ثمر دنیا کی سب سے طاقتور فوج کے خطاب کی حامل فوج پر فتح کی شکل میں حزب اللہ کو ملا۔۔۔۔یہ سب صدیاں پرانی مثالیں نہیں۔۔۔۔خدا کا شکر کہ ہم اس دور میں موجود ہیں کہ اسلام کی سربلندی کی جنگ میں شامل ہیں۔۔۔۔حسینی پرچم کی سربلندی کے لئے کوشاں ہیں۔۔۔۔ہمیں بھی جذبہ حسینی کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے، راہ حسینی پر قدم بڑھانے کی ضرورت ہے۔

پاکستان میں جاری شیعہ نسل کشی اور اس پر حکومتی اداروں کی خاموشی بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ حکومتی اداروں کی سرپرستی میں ہونے والی شیعہ نسل کشی صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں بلکہ اسے بین الاقوامی حالات کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے، امریکہ اور اسکے حواری نہیں چاہتے کہ پاکستان میں شیعت مضبوط ہو۔۔۔۔وہ نہیں چاہتے کہ پاکستانی سرحدوں میں، دنیا کی انقلابی تحریکوں کی آہٹ سنائی دے۔۔۔۔یہی وجہ ہے کہ جن بنیادوں پر عرب ممالک میں تحریکیں شروع ہوئیں، پاکستان میں اس انقلابی تحریک کے سر اٹھانے کیلئے زیادہ دلیلیں موجود ہیں، لیکن ٹکڑوں میں بٹی قوم انقلاب تو دور کی بات زندہ رہنے کیلئے بھی کوشش کرتی نظر نہیں آتی ہے۔

امریکہ کی پھینکی ہوئی ہڈیوں کو چاٹ چاٹ کر پروان چھڑنے والوں سے کیا امریکہ دشمنی تصور کی جا سکتی ہے۔؟ وہ استعمار کے ترجمان ہیں، وہ مسلمان جو مسلمانوں میں تفرقہ کی بات کرتے ہیں وہ مسلمان نہیں ہو سکتے، وہ مساجد جہاں سے پیروکاران حضرت مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے کافر کافر کی صدائیں بلند ہوں، وہ مسجد ضرار تو ہو سکتی ہے لیکن قلعہ اسلام نہیں ہو سکتی۔ آج کفر پر باطل متحد ہو چکا ہے لیکن ہم حق پر ہوتے ہوئے بھی سوچوں میں گھرے ہوئے ہیں، کس بات کا انتظار ہے؟

فرشتے ایسے نہیں اترا کرتے امداد کے لئے۔۔۔۔اس کیلئے بھی شرائط ہیں۔۔۔۔پہلا قدم خود ہی لینا ہو گا۔۔۔۔۔ہم قوت و طاقت کا مظہر ہیں، ہم پاکستان کی کل آبادی کا ۲۵ فیصد سے زائد ہیں۔۔۔۔۔۱۸ کروڑ کی آبادی میں چار کروڑ پچاس لاکھ شیعان حیدر کرار ہیں ۔۔۔۔۔پھر کیوں دوسروں پر تکیہ کرتے ہیں۔؟ کیوں ہمارا مقدمہ کوئی ایرہ غیرہ لڑتا ہے؟ کیوں ہم اپنا حق خود ایوانوں سے حاصل نہیں کرتے؟ کیوں ہمیں چوراہوں اور گلیوں میں قتل کر دیا جاتا ہے؟ کیوں ہمارے مقدسات کی بے حرمتی کی جاتی ہے؟ کیوں ہم راہ ولایت کو چھوڑ کر یزیدی فکر پر قائم سیاسی جماعتوں کو اپنا نجات دہندہ تصور کر لیتے ہیں؟ نعرہ حسینیت ع زندہ باد کا لگاتے ہیں لیکن ساتھ یزیدی قوتوں کا دیتے ہیں۔۔۔۔۔کیوں۔؟

بس اب بہت ہو چکا!
اب اپنے دست بازو پر بھروسہ کرنا ہو گا، اب مصلحت پسندی کا لبادہ اتار پھینکنا ہو گا، اب بس یاحسین علیہ السلام کا نعرہ لگانا ہے تو پھر اس پر عمل بھی کرنا ہو گا، کسی بھی سیاسی قوت کے نعرے بس یاحسین علیہ السلام کے نعرے پر مقدم نہ ہونے پائیں، لبیک یاحسین علیہ السلام کے نعرے کا اصل مفہوم سمجھنا ہو گا، یزیدی طاقتوں کی صفوں کو چیرتے ہوئے منزل پر پہنچنا ہو گا۔۔۔۔۔۔اپنی طاقت کا لوہا منوانا ہو گا۔۔۔۔۔اب بتا دو کے پیروان حسین ابن علی علیہ السلام حسینیت کی آبیاری اپنے خون سے کرنا جانتے ہیں۔۔۔۔۔ حسینیت کے پرچم تلے جمع ہو کر اب خود کرنا ہے جو کرنا ہے۔۔۔۔۔

ہم سب ایک ہیں۔۔۔۔ہم علی ابن ابیطالب علیہ السلام کے شیعہ ہیں۔۔۔۔اپنی طاقت کا اظہار کرو۔۔۔۔۔جیسے ۸۰ کی دہائیوں میں کیا تھا، شہید قائد (رح) کی بابصیرت قیادت کے سنہری اصولوں پر عمل کرتے ہوئے نکل پڑو گھروں سے اور اپنا حق حاصل کرو۔۔۔۔۔سب سے زیادہ ذمہ داری نوجوانان ملت پر عائد ہوتی ہے، نوجوان بابصیرت ہیں، دشمن اور آستین کے سانپوں کی سازشوں کو پنپنے نہ دیں، قوم کی سربلندی کیلئے دن رات ایک کر دیں ۔۔۔۔۔اور قوم کے وہ ناسور بھی سن لیں اور سمجھ جائیں کے اب قوم تمہاری سازشوں سے گمراہ نہیں ہونے والی۔۔۔۔۔تمہارے چہرے آشکار ہو چکے ہیں، ہم جان چکے ہیں کہ تمہاری ڈوریں کون ہلاتا ہے۔۔۔۔۔بس۔۔۔۔۔۔۔بس اب بہت ہو چکا!

متعلقہ مضامین

Back to top button