مقالہ جات
حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی با برکت ذات، ایک مکمل اسوہ

قرآن کریم میں چار خواتین کے نام مذکور ہیں جو نمونہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ دو خواتین نیکوکاروں کے لئے نمونہ ہیں اور دو بدکاروں کے لئے۔ "ضرب الله مثلاً للّذين کفروا امرأة نوح و امرأة لوط” حضرت نوح اور حضرت لوط علیھما السلام کی ازواج جو "کانتا تحت عبدين من عبادنا صالحين فخانتاهما” یہ دونوں عورتیں تاریخ کے کفار کے لئے نمونہ ہیں۔ خدا وند عالم قرآن میں جب کفر آمیز وجود کا نمونہ پیش کرنا چاہتا ہے تو فرعون اور نمرود یا دیگر ارباب کفر کے بجائے ان دونوں عورتوں کی مثال پیش کرتا ہے۔ حضرت نوح اور حضرت لوط علیھما السلام کی بیویوں کی مثال کہ جن کے لئے رحمت الہی کے دروازے کھلے ہوئے تھے اور ان کی سعادت و خوشبختی کی راہ ہموار تھی، حضرت نوح اور حضرت لوط جیسے عظیم پیغمبروں کی زوجیت میں ہونے کا انہیں شرف بھی حاصل تھا اس طرح ان کے پاس کسی طرح کا کوئی عذر نہیں تھا لیکن ان دونوں عورتوں نے ان عظیم نعمتوں کی قدر نہیں پہچانی اور انہوں نے اپنے شوہروں سے خیانت کی۔ کجروی اختیار کی۔ نبوت کے عظیم مرتبے پر فائز ان کے شوہر بھی انہیں کوئی فیض نہیں پہنچا سکے۔ "فلم يغنيا عنهما من الله شيئا” اللہ تعالی کو کسی سے نہ تو کوئی تکلف ہے اور نہ ہی کسی سے اس کی کوئی رشتہ داری۔ اگر کوئی اس کے لطف و کرم اور رحمت و الفت کا مستحق قرار پاتا ہے تو اس کی کوئی بنیادی وجہ ہوتی ہے۔ اس میں تکلفات کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ اللہ تعالی کسی کا رشتہ دار نہیں ہے۔ ان دونوں خواتین کے شوہر پیغمبر الہی تھی لیکن وہ بھی انہیں اللہ تعالی کے عتاب سے نجات نہیں دلا سکے اور یہ عورتیں تاریخ کے کفار کا نمونہ بن گئيں۔ دوسری طرف اللہ تعالی نے قرآن میں ایسی بھی دو خواتین کا ذکر فرمایا ہے جو مومنوں کے لئے نمونہ ہیں۔
"و ضرب الله مثلا للّذين امنوا امرأة فرعون اذ قالت ربّ ابن لي عندک بيتا في الجنّة و نجّني من فرعون و عمله” ایک فرعون کی زوجہ اور دوسرے حضرت مریم۔ فرعون کی زوجہ کا کمال یہ تھا کہ فرعون کا محل اور وہاں کی پر تعیش زندگی انہیں راہ حق سے منحرف نہیں کر سکی۔ جو خاتون فرعون کی زوجہ ہے ظاہر ہے اس کے والدین بھی انہیں طاغوتوں میں سے ہوں گے اور اس میں بھی دو رای نہیں کی اس کی پرورش ناز و نعم میں ہوئی ہوگی لیکن حضرت موسی کا پیغام ان کے دل میں اتر گیا اور آپ حضرت موسی کے دین پر ایمان لائيں۔ جب نور ایمان آپ کے دل میں اتر گیا اور آپ نے حق کے راستے کو نگاہ بصیرت سے دیکھ لیا تو اس کے سامنے محل کی رنگینیاں بے وقعت اور ہیچ ہوکر رہ گئیں اور آپ کی زبان پر یہ دعا آ گئی "ربّ ابن لي عندک بيتا في الجنّة” اے میرے پروردگار مجھے تو باغ بہشت میں تیری بارگاہ میں کاشانہ چاہئے۔ حضرت مریم کا بھی تذکرہ موجود ہے "و مريم بنت عمران الّتي احصنت فرجها فنفخنا فيها من روحنا»؛ آپ نے پاکدامنی کو اپنا شیوہ بنایا، ظاہر ہے، یہ اعلی انسانی اقدار ہیں۔ یہ چار خواتین صرف عورتوں کے لئے نمونہ نہیں ہیں بلکہ مردوں اور عورتوں دونوں کے لئے نمونہ اور عبرت ہیں۔ اول الذکر دونو خواتین ایسی تھیں جن کے سامنے رحمت الہی کے دروازے کھلے ہوئے تھے لیکن انہوں نے ان میں داخل ہونے سے گریز کیا انہوں نے پست و فرومایہ چیزوں کے لئے معنویت و روحانیت کے خزانے کو ٹھکرا دیا۔ قرآن کریم نے اس کے اسباب و علل کا ذکر تو نہیں کیا ہے لیکن بہرحل اس کی وجہ ان کی بری خصلتیں ہو سکتی ہیں یا ان کا برا اخلاق۔ کسی معمولی چیز کے لئے وہ راہ حق سے منحرف ہو گئیں اور بن گئیں کفر و الحاد اور نا شکری کا مظہر۔ جبکہ دوسری دونوں خواتین اعلی اقدار کا مظہر ہیں، ان کے لئے حق و صداقت میں اتنی کشش ہے کہ وہ پورے فرعونی نظام اور بادشاہت سے منہ پھیر کر اس کی جانب قدم بڑھاتی ہیں۔ حضرت مریم کا عالم یہ ہے کہ آپ اپنی پاکدامنی و پاکیزگی کی اس انداز سے حفاظت فرماتی ہیں کہ اللہ تعالی آپ کو نمونہ قرار دے دیتا ہے۔
اب ایک نظر ڈالتے ہیں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کی ذات اقدس پر، یہ ذات تمام فضائل و کمالات کا مجموعہ نظر آتی ہے۔ حضرت مریم کے لئے ارشاد ہوتا ہے "و اصطفاک علي نساء العالمين” اسی طرح احادیث میں بھی ذکر ہے کہ آپ اپنے زمانے کی عورتوں کی سردار تھیں لیکن حضرت زہرا سلام اللہ علیھا کا مقام یہ ہے کہ آپ پوری تاریخ انسانیت کی عورتوں کی سردار اور ان کے لئے نمونہ عمل ہیں۔ برادرانی گرامی! آج ہمیں اس نمونہ عمل کی اشد ضرورت ہے۔ اس وقت دنیا کے تشہیراتی ادارے ہر خطے میں انسانی معاشروں کے سامنے نئے نئے گمراہ کن نمونے پیش کر رہے ہیں۔ حالانکہ ان نمونوں میں کشش نہیں ہے اور یہ کامیاب نہیں ہیں لیکن پھر بھی گمراہ کن کوششیں جاری ہیں۔ اس مقصد کے لئے اداکاروں کا استعمال کیا جا رہا ہے مصنفین کو خریدا جا رہا ہے۔ ظاہری شان و شوکت والی شخصیتوں سے استفادہ کیا جا رہا ہے۔ لوگوں کے سامنے فرومایہ نمونے پیش کئے جا رہے ہیں تاکہ ان کے ذریعے لوگوں کو کسی خاص سمت میں لے جایا جا سکے۔ اس سازش کے تحت بڑے پیمانے پر دولت خرچ کی جاتی ہے۔ ہالیوڈ کی فلمیں اور ان کے جیسے دیگر پروگرام خاص مقصد کے تحت تیار کئے جا رہے ہیں۔ وہ کہتے تو ضرور ہیں کہ فن و ہنر، سیاسی افکار و نظریات سے آزاد رہنا چاہئے لیکن عملی میدان میں فن و ہنر، سنیما و تھئيٹر، فلم و ڈراما، شعر و تحریر اور (مغالطہ آمیز) فلسفیانہ استدلال سمیت ہر ممکن حربہ اور ذریعہ سامراجی طاقتوں کے مفادات کی حفاظت کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ دنیا کا سرمایہ دارانہ نظام اس کی واضح مثال ہے۔ اس نظام کی فوجی طاقت امریکہ ہے تو اقتصادی طاقت وہ کمپنیاں ہیں جو امریکی حکومت کے پیچھے پیچھے ریشہ دوانیاں کر رہی ہیں۔ وہ (اپنے مد نظر) نمونوں کا پروپیگنڈہ کرنے کے لئے تمام وسائل سے استفادہ کرتی ہیں۔ قوموں کا عالم یہ ہے کہ ان کے پاس ایسے نمونوں کا فقدان ہے جنہیں وہ اپنی طرف سے پیش کر سکیں۔ ہاں ہم مسلمانوں کے پاس نمونہ عمل ہے۔ ہمارے سامنے عظیم ہستیوں کے کردار ہیں۔ عورتوں کے موضوع پر گفتگو کی جائے تو اسلام میں بڑی با عظمت خواتین مل جائيں گی جن میں سب سے عظیم صدیقہ کبری حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی ذات گرامی ہے۔ حضرت زینب کبری اور حضرت سکینہ کی شخصیتیں بھی اہل نظر اور با بصیرت افراد کے لئے بڑی گراں قدر اور قابل تقلید ہیں۔ امام حسن اور امام حسین علیھما السلام کو جوانان جنت کا سردار قرار دیا گيا ہے۔ یہاں قابل غور نکتہ یہ ہے کہ یہ دونوں بزرگوار ہمیشہ تو جوان نہیں رہے، ان پر بڑھاپا بھی آیا لیکن آپ کا لقب "جوانان جنت کے سردار” بدستور برقرار ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان ہستیوں کی جوانی کے ایام رہتی دنیا تک تمام نوجوانوں کے لئے نمونہ عمل رہیں گے۔ پیغمبر اکرم اور حضرت امیر المومنین علیھما السلام کے جوانی کے ایام بھی ایسے ہی ہیں۔