ولایت فقیہ: انقلاب اسلامی ایران کی چار دہائیوں کی استقامت کا اصل ستون
نئی نسل کے سوالات اور حوزہ علمیہ کی ذمہ داری — ولایت فقیہ کا پیغام کیسے پہنچے؟

شیعیت نیوز : انقلاب اسلامی ایران نے اپنے قیام کے بعد چار دہائیوں میں مسلط شدہ جنگ، بیرونی دباؤ اور سیاسی و اقتصادی بحرانوں کا سامنا کیا لیکن ان تمام تر چیلنجز کے باوجود اپنی راہ پر قائم اور ڈٹا رہا۔ اس پائیداری کا سب سے بڑا راز دینی قیادت اور ولایت فقیہ کا وہ مقام ہے جس نے ستونِ خیمۂ انقلاب کی حیثیت سے وحدتِ ملی اور سماجی انسجام کو محفوظ رکھا۔
ولایت فقیہ کا تجربہ جمہوریہ اسلامی میں صرف ایک فقہی نظریہ نہیں رہا بلکہ نظامِ سیاسی کی مشروعیت اور کارآمدی کا ضامن ہے۔ رہبری دینی پر عوام کا اعتماد ایک ایسا سرمایہ ہے جس نے ملت کو بے مثال دباؤ کے مقابلے میں استقامت عطا کی ہے۔ جب بھی ملک پر بحرانوں کا سایہ گہرا ہوا ہے، ولایت فقیہ کی رہنمائی نے مشکل گھاٹیوں کو عبور کرنے میں راہ ہموار کی ہے۔
یہ بھی پڑھیں : فلسطین کی تسلیم شدہ ریاست: علامہ ساجد نقوی کا سامراجی کردار بے نقاب کرنے کا مطالبہ
آج معاشرہ پہلے سے کہیں زیادہ ثقافتی اور میڈیا کے تغیرات کے سامنے ہے۔ نسلِ جوان نئے سوالات اور فکری الجھنوں سے دوچار ہے اور واضح و منطقی جوابات کی توقع رکھتی ہے۔ اگر ولایت فقیہ کی تبیین کا انداز صرف روایتی قالبوں تک محدود رہے تو امکان ہے کہ یہ نسل اپنے سوالات کو بے جواب سمجھے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں حوزہ علمیہ کی رسالت آشکار ہوتی ہے؛ حوزہ علمیہ کو چاہیے کہ وہ گفتگو کے نئے اسلوب تلاش کرے اور استدلال، شواہد اور عملی مثالوں کے ذریعے ولایت فقیہ کی اہمیت کو بیان کرے۔
انقلاب اسلامی تہذیبِ نوینِ اسلامی کی تشکیل کے راستے پر گامزن ہے اور یہ راستہ ولایت فقیہ کے بغیر سرگردانی کا شکار ہوگا۔ حوزہ علمیہ اپنی علمی و معنوی سوابق کے ساتھ اس راہ کا ضامن بن سکتا ہے بشرطیکہ فکر و نظر اور میدانِ عمل دونوں میں فعال اور وقت شناس کردار ادا کرے۔
گزشتہ چار دہائیوں کے تجربات نے واضح کر دیا ہے کہ جب بھی معاشرہ بڑے بحرانوں سے دوچار ہوا، ولایت فقیہ کی رہنمائی اور سکون بخش کردار نے انقلاب کے راستے کو ہموار کیا۔ آج حوزہ علمیہ پر پہلے سے کہیں زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ روشن زبان اور اپنی فعال موجودگی کے ساتھ اس مقام کو نئی نسلوں کے لئے تبیین اور پاسداری کرے۔