اہم ترین خبریںپاکستان کی اہم خبریں

نثار شاہ جی: ایک مرد مجاہد کی جدوجہد اور قربانی کی داستان

حسن ظفر نقوی کے قلم سے نثار شاہ جی کی قید و بند، قربانیوں، انقلاب اسلامی سے وابستگی اور کینسر سے جدوجہد کے بعد شہداء کی محفل میں شمولیت کی کہانی۔

شیعیت نیوز : ہماری پہلی ملاقات حیدرآباد سنٹرل جیل میں ہوئی تھی۔ کراچی سنٹرل جیل میں کوڑے کھانے کے بعد ہمیں کراچی سے حیدرآباد منتقل کیا گیا تھا۔ یہ بات ہے اپریل 1983 کی۔

1982 کے آخر میں مسجد سکینہ گودھراں کیمپ کراچی سے شروع ہونے والے المناک واقعات جن میں لیاقت آباد کی امام بارگاہوں سمیت تقریباً مومنین کے چار سو گھر اور دکانیں جلائی اور لوٹی گئی تھیں۔ اسی تسلسل میں غالباً 15 اپریل 1983 کو قومی رہنماؤں نے مارٹن کی مسجد و امام بارگاہ سے احتجاج شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔ پھر ایک رات پہلے یہ کال واپس لے لی گئی، لیکن مومنین کی اکثریت لاعلم رہی اور لوگ بڑی تعداد میں مارٹن روڈ پہنچ گئے۔

ضیاء الحق کے مارشل لاء کا دور تھا۔ مسجد و امام بارگاہ کے مرکزی دروازے پر تالا ڈال کر وہاں فوجی جوان، ملیشیا اور پولیس تعینات کر دی گئی تھی۔ لیکن مومنین تالا توڑ کر مسجد میں داخل ہو گئے۔ نماز کے بعد فورسز نے مسجد میں گھس کر بدترین تشدد کرتے ہوئے تقریباً تین سو کے قریب مومنین کو گرفتار کر لیا اور شہر کے مختلف تھانوں میں بند کر دیا۔

میں دیگر تیس چالیس مومنین کے ساتھ کلفٹن تھانے میں بند تھا۔ پھر دو دن بعد ہمیں فوجی بیرکس میں منتقل کردیا گیا۔ وہاں سمری ملٹری کورٹ کے تحت برائے نام مقدمہ چلایا گیا۔ لسٹیں تیار کی گئیں، آدھے چھوڑ دیے گئے اور آدھوں کو دس دس کوڑوں اور ایک ایک سال کی سزا سنا دی گئی۔ میں سزا پانے والوں میں تھا۔ وہاں سے ہمیں سنٹرل جیل کراچی منتقل کر دیا گیا۔ چار چار آدمیوں کی کھولی میں دس دس اور بارہ بارہ افراد کو ٹھونس دیا گیا۔ دوسرے دن صبح ہوتے ہی کوڑے برسنا شروع ہوئے اور اسی زخمی حالت میں کراچی جیل سے حیدرآباد جیل بھیج دیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں : کربلا میں بین الاقوامی کانفرنس، کرامت و عدالت کے قیام پر عالمی شخصیات کے خطابات

حیدرآباد جیل میں ساٹھ افراد کی بیرک میں سو سے زیادہ قیدیوں کو بھر دیا گیا۔ اسی بیرک میں میری ملاقات نثار علی ذیدی المعروف نثار شاہ جی سے ہوئی۔ ایک دلیر اور بہادر جوان جس سے پہلی ہی ملاقات میں احساس ہوگیا تھا کہ قوم و مذہب کا درد رکھنے والا یہ جوان آگے چل کر بہت کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جیل میں ہونے والی یہ دوستی پھر طویل ساتھ کا سبب بن گئی۔

رہائی کے بعد پھر ہم ہمیشہ ایک دوسرے سے رابطے میں رہے۔ میں قم پڑھنے چلا گیا مگر رابطہ برقرار رہا۔ اسی دوران شاہ جی نے کراچی کے جوانوں کو منظم کرنا شروع کیا۔ پہلے پاسبان اسلام کی ذمہ داریاں سنبھالیں، پھر پیام ولایت فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی اور پھر پیام ولایت اسکاؤٹس کو سامنے لائے۔

اسکاؤٹس کی سخت تربیت کی اور خاص طور پر سیکیورٹی کے انتظامات کا بیڑا اٹھایا۔ یہاں تک کہ وہ وقت بھی آگیا کہ ایام عزا اور دوسرے ایام میں جلسے جلوسوں کی سیکیورٹی خصوصاً علماء اور خطبا کو بہترین سیکیورٹی فراہم کرنے کے فرائض انجام دیے۔ واضح رہے کہ ان تمام مشاغل کو انقلاب اسلامی اور ولایت فقیہ پر غیر متزلزل یقین کے ساتھ انجام دیا۔

انقلاب اسلامی سے یہی وابستگی اسٹیبلشمنٹ کی آنکھوں میں خار بن کر چبھ رہی تھی۔ اسی لیے اس مرد مومن اور مرد مجاہد کو بار بار قید و بند کی صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس قید و بند کے دوران بدترین تشدد اور شکنجوں کو بھی برداشت کرنا پڑا، لیکن اس مرد جری نے ہمت نہیں ہاری۔

آخری بار جب گرفتار کیا گیا غالباً ڈھائی تین سال قبل، تو چھ مہینے تک بدترین تشدد ہوا کہ رہائی کے بعد چلنے پھرنے میں بھی مشکل پیش آ رہی تھی۔ مسلسل علاج کے دوران کینسر جیسے موذی مرض کی تشخیص ہوئی۔ لیکن یہ دلیر انسان لڑتا رہا۔ کئی آپریشن ہوئے۔ معمولی سی صحتیابی بھی ہوتی تھی تو پھر وہی فعالیت۔ بستر پر لیٹے ہونے کے باوجود قومی اور تنظیمی ذمہ داریاں ادا کی جا رہی تھیں۔ جوان اس مرد مجاہد کے عزم و ہمت سے جذبہ اور حوصلہ لے رہے تھے۔ پیام ولایت صرف کراچی نہیں بلکہ سندھ کی سطح پر فعال ترین تنظیموں میں شامل تھی اور ہے۔

یہ بھی پڑھیں : حزب اللہ کے سربراہ شیخ نعیم قاسم کا امریکی نواز لبنانی حکومت کو آخری انتباہ

ایام عزا ہیں اور میں کراچی سے باہر ہوں۔ جب 18 صفر کو مجھے لاہور میں اطلاع ملی کہ شاہ جی کینسر سے لڑتے لڑتے اس جہان فانی کو وداع کر کے اپنے سید و سردار، سالار شہیدان امام حسینؑ کی بارگاہ میں حاضری کے لیے روانہ ہو گئے ہیں۔ میں اس لیے بھی اس مجاہد کو شہید سمجھتا ہوں کہ یہ بدترین تشدد کے نتیجے میں ایسے حالات کا شکار ہوا کہ اسے پھر صحت میسر نہ آ سکی۔

میں کراچی میں نہیں لیکن شاہ جی ہمیشہ سے میرے ساتھ تھے اور ہمیشہ ساتھ رہیں گے۔ ایک انقلابی شخصیت جس نے کئی ہزار جوانوں کو انقلاب کے راستے سے آشنا کیا اور انھیں آگاہی دی۔ ایک ایسا ہر دل عزیز انسان جو تنظیمی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر قومی خدمات انجام دیتا تھا۔ اسی لیے سب اس سے محبت کرتے تھے اور وہ سب کے دلوں میں رہتا تھا۔

آج اس کی جدائی میں ہر آنکھ اشکبار ہے۔ اور میرا تو وہ ہانڈی وال تھا۔ وہ اپنا عہد و پیمان پورا کر کے چلا گیا۔ باقی اپنی اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔

اچھا شاہ جی! جاؤ خدا حافظ، اب تم شہداء کی محفل میں ہو۔ حق شفاعت میسر ہو تو ہم گناہگاروں کا خیال کر لینا۔

تمہارا اسیری کا ساتھی: حسن ظفر نقوی۔

متعلقہ مضامین

Back to top button