اہم ترین خبریںپاکستانپاکستان کی اہم خبریں

پاکستان میں اربعین کی تڑپ، لیکن سرحد بندی سے ہزاروں زائرین کا سفر ادھورا

ایران و عراق کی مہمان نوازی اور پاکستانی حکومت کے اچانک فیصلے کے درمیان تضاد

شیعیت نیوز : ہر سال کی طرح اس سال بھی جیسے ہی ماہِ صفر قریب آیا، پاکستان کے طول و عرض سے عشاقِ اہلِ بیت علیہم السلام کے دلوں میں زیارتِ اربعین کی تڑپ جاگ اٹھی۔ کوئٹہ سے لاہور، کراچی سے گلگت بلتستان تک، ہر زبان پر "لبیک یا حسین” کی صدا تھی اور ہر دل میں ایک ہی تمنا کہ کربلا پہنچا جائے، نجف کے صحن میں قدم رکھا جائے، اور سامرا و کاظمین کے مقدس آستانوں سے اپنی روح کو سیراب کیا جائے۔ زائرین نے ویزے حاصل کیے، قافلے ترتیب دیے، اور ایران کے راستے عراق میں داخل ہونے کے انتظامات مکمل کر لیے۔

ایران و عراق کی سرزمین پر مہمان نوازی کی جھلک

جب زائرین ایران میں داخل ہوتے ہیں تو وہ صرف ایک پڑاؤ پر نہیں اترتے بلکہ ایک ایسے میزبانوں کی آغوش میں آتے ہیں جو عشاقِ حسینؑ کے لیے اپنے دروازے کھول دیتا ہے۔ ہمدردی، محبت، خلوص اور ایثار ایرانی اور عراقی قوم کا وہ جوہر ہے جو اس سفر کو صرف جغرافیائی نہیں بلکہ روحانی بناتا ہے۔ راستے کے زائر سرا، راہداریاں، مساجد، حتیٰ کہ عام عوامی جگہیں بھی زائرین کے لیے وقف ہوجاتی ہیں۔ دسترخوان سجے ہوتے ہیں، رضاکار خدمت کے لیے بے تاب ہوتے ہیں اور "خوش آمدید زائرینِ امام حسینؑ” کی صدائیں گونج رہی ہوتی ہیں۔

تین ملکوں کے عوام کے درمیان تعلقات کا سنہری موقع

یہ سفر صرف ایک مذہبی فریضہ نہیں بلکہ ایران، پاکستان اور عراق کے عوام کے درمیان ثقافتی و روحانی رابطے کی ایک زندہ مثال بھی ہوتا ہے۔ مختلف زبانیں، مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ ایک ہی مقصد کے تحت قدم سے قدم ملا کر کربلا کی جانب رواں دواں ہوتے ہیں۔ نجف سے کربلا تک کا وہ 80 کلومیٹر کا راستہ محض ایک جسمانی سفر نہیں بلکہ روحانیت کی معراج کا منظر پیش کرتا ہے۔ موکب، خدمت کار اور زائرین سب مل کر وحدتِ اسلامی کا عظیم نمونہ بن جاتے ہیں۔

ایک غیر متوقع صدمہ: پاکستانی حکومت کا اچانک فیصلہ

تاہم اس بار کی اربعین کا منظر کچھ مختلف تھا۔ جب زائرین نے ایران کی جانب روانگی کی تیاریاں مکمل کر لیں، ویزے حاصل کرلیے اور قافلے مقررہ وقت پر سرحد پر پہنچنے کو تھے، تب حکومت پاکستان نے ایک حیران کن فیصلہ کرتے ہوئے زمینی سرحد بند کرنے کا اعلان کردیا۔ اس فیصلے نے نہ صرف ہزاروں زائرین کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی بلکہ ایران اور عراق میں ان کے منتظر میزبانوں کو بھی مایوسی میں مبتلا کر دیا۔

موکب اور زائر سرا میں سناٹا

وہی موکب اور زائر سرا جو عام طور پر اربعین کے دنوں میں زائرین سے کھچا کھچ بھرے ہوتے تھے، اس سال سنّاٹے اور اداسی کی تصویر بن گئے۔ رضاکار جو مہینوں سے تیاری میں مصروف تھے، جنہوں نے خیمے لگائے تھے، راشن اکٹھا کیا تھا اور قافلوں کی راہ دیکھ رہے تھے، ان کی نگاہیں اب افق پر زائرین کی آمد کے بجائے بند دروازے دیکھ رہی تھیں۔ ایک خاموشی، ایک ٹوٹی ہوئی امید اور ایک نامکمل مہمان نوازی کی کسک ہر چہرے پر نظر آرہی تھی۔

زیارت کی راہ میں رکاوٹیں نئی نہیں، لیکن…

تاریخ گواہ ہے کہ مقدس مقامات کی زیارت کی راہ کبھی بھی ہموار نہیں رہی۔ عباسیوں سے لے کر بعثی دور تک، اور اب موجودہ عالمی و علاقائی سیاست تک، ہمیشہ کوششیں کی جاتی رہی ہیں کہ زائرین کو روکا جائے، زیارات کو محدود کیا جائے اور عشق حسینؑ کو زبان حال سے خاموش کرایا جائے۔ لیکن عشق وہ شعلہ ہے جو دبانے سے اور بھڑکتا ہے۔ ہر بندش، ہر پابندی، اور ہر دیوار کے بعد زائرین کی تعداد اور جذبے میں اضافہ ہوا ہے۔

اگرچہ اس سال کا سفر ہزاروں پاکستانیوں کے لیے ادھورا رہ گیا، لیکن یہ سفر رکا نہیں۔ دلوں میں کربلا کی تڑپ باقی ہے، آنکھوں میں روضۂ حسینؑ کا منظر موجود ہے اور زبان پر "لبیک یا حسین ع” کی گونج جاری ہے۔ ایران اور عراق کے مہمان نواز عوام بھی جانتے ہیں کہ یہ عارضی رکاوٹ ہے۔ آنے والے برسوں میں ان کے دروازے پھر سے پاکستانی زائرین کے استقبال کے لیے کھلیں گے اور قافلے پھر سے حرم کی جانب روانہ ہوں گے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button