مذمت کافی نہیں، غزہ پر اسرائیلی جارحیت روکنے کے لیے عملی اقدامات ضروری ہیں: ڈاکٹر صابر ابو مریم
احتجاج، ریلیاں اور بیانات اسرائیلی نسل کشی کو نہیں روک سکے، مسلم ممالک کو سنجیدہ اقدامات کرنے ہوں گے

شیعیت نیوز : ڈاکٹر صابر ابو مریم، سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان کا کہنا ہے کہ طول تاریخ کا مطالعہ کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ہمیشہ بڑے بڑے سانحات پر ایک طبقہ محض مذمت کرتا ہے اور اپنی ذمہ داری سے فراغت حاصل کر لیتا ہے۔ یعنی ایک ایسا تاثر دیا جاتا ہے کہ کسی بھی انسانی المیے یا حادثے پر صرف مذمت کر دینا کافی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ آج کی مادّی دنیا میں، جہاں نیشن اسٹیٹ کا تصور پیش کیا گیا ہے، وہاں ریاستوں کے سربراہان بھی صرف مذمتی بیانات دے کر دامن بچاتے نظر آتے ہیں، حالانکہ سربراہان مملکت کو محض مذمت پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے بلکہ انہیں عملی اقدامات اٹھانے چاہییں۔ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج کی دنیا ایسی ہی ہے جہاں ریاستی و فوجی سربراہان صرف مذمت پر اکتفا کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں : یورینیم افزودگی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا: ایرانی وزیر خارجہ
ڈاکٹر صابر ابو مریم کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں یہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا غزہ میں جاری قتل عام پر محض مذمت کافی ہے؟ کیا عالمی حکمرانوں کی ذمہ داری صرف ایک جملہ مذمت کہہ دینا ہے؟ جبکہ سات اکتوبر سے غاصب صہیونی گینگ اسرائیل، امریکہ اور مغربی طاقتوں کی مدد سے نہتے فلسطینیوں کا قتل عام کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ عالمی عدالت انصاف بھی اس ظلم کو نسل کشی قرار دے چکی ہے، عوام مظاہروں کے ذریعے آواز بلند کر رہے ہیں، لیکن یہ سب غاصب صہیونیوں کو روکنے کے لیے کافی نہیں ہو سکا۔
ڈاکٹر صابر کے مطابق، اسرائیل کو یقین ہے کہ امریکہ اور مغربی حکومتیں اس کے ساتھ کھڑی ہیں، اسی لیے وہ بلا خوف و خطر فلسطینیوں کا قتل عام جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس کے علاوہ، مسلم دنیا کے کئی عرب و غیر عرب حکمران بھی اسرائیل کی کسی نہ کسی انداز میں مدد کر رہے ہیں، جس کا فائدہ اٹھا کر اسرائیل نسل کشی جاری رکھے ہوئے ہے۔
انہوں نے زور دیا کہ ان حالات میں مایوس نہیں ہونا چاہیے بلکہ ہر ممکنہ عملی اقدام کے لیے اپنی اپنی حکومتوں پر دباؤ ڈالنا چاہیے تاکہ غزہ میں اسرائیلی جارحیت اور نسل کشی کو روکا جا سکے۔
ڈاکٹر صابر نے چند عملی تجاویز بھی پیش کیں:
-
شمالی افریقی ممالک کو غاصب اسرائیل کے لیے بحیرہ روم کے راستے بند کرنے چاہییں، جیسا کہ یمن نے بحیرہ احمر میں کیا۔
-
لیبیا، الجزائر، مصر، تیونس، اور مراکش کی جانب سے اردن، مصر اور شام میں فلسطین کی سرحدوں کی طرف مشترکہ مارچ کیا جائے۔
-
اردن اور مصر میں بڑے پیمانے پر مارچ ہوں تاکہ امریکی اثر و رسوخ ختم کیا جا سکے۔
-
عوام حکومتوں پر دباؤ ڈالیں کہ امریکہ سے تعلقات ختم کیے جائیں۔
-
دنیا بھر میں امریکی سفارت خانوں کے سامنے بھوک ہڑتالی کیمپ لگائے جائیں۔
-
رفح کراسنگ پر بین الاقوامی علماء اور شخصیات دھرنا دیں۔
-
اسرائیل سے براہ راست تعلق رکھنے والے مسلمان ممالک سے تعلقات ختم کرنے کا مطالبہ شدت سے کیا جائے۔
-
صہیونیوں اور امریکہ سے وابستہ کمپنیوں کے خلاف بائیکاٹ مہم چلائی جائے۔
-
اسلامی ممالک سے فوجی مداخلت کا مطالبہ بھی کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ یہ تمام اقدامات "عمل” کے محتاج ہیں، مذمت کے نہیں۔ غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس پر محض مذمت کرنا کافی نہیں، بلکہ عملی اقدامات اٹھانے کی اشد ضرورت ہے۔