اہم ترین خبریںایرانمقبوضہ فلسطین

ایران پر اسرائیلی حملے اور اعلی قیادت کو نشانہ بنانے کی ناکام سازش

صہیونی حکومت کی تاریخ میں سب سے زیادہ دہرایا جانے والا لفظ شاید ٹارگٹ کلنگ ہے۔ اگرچہ دہشتگردی صہیونی فکر کی جڑوں میں پیوست ہے،

شیعیت نیوز : ایران اور صہیونی حکومت کے درمیان 12 روزہ جنگ کئی ایسے واقعات پر مشتمل ہے جو وقت کے ساتھ آہستہ آہستہ منظر عام پر آئیں گے۔ ان میں سے ایک اہم واقعہ اسرائیل کا وہ حملہ ہے جس میں تہران کے تجریش اسکوائر جیسے مصروف اور گنجان آباد علاقے کو نشانہ بنایا گیا۔ اس واقعے میں متعدد عام شہری جاں بحق ہوئے اور اس نے اس حقیقت کو عیاں کر دیا کہ اسرائیل نہ صرف ایران کے حساس مراکز، سائنس دانوں اور فوجی کمانڈروں کو نشانہ بناتا ہے بلکہ عوام بھی اس کے نشانے پر ہیں۔ صہیونی حملوں میں 700 سے زائد بے گناہ افراد، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے، شہید ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں : غزہ میں شہدا کی تعداد 67 ہزار سے تجاوز، عالمی ادارے خاموش

اسرائیل کی سب سے خطرناک کارروائی ایران کی اعلی قیادت کو ہدف بنانے کی کوشش تھی جب اس نے تہران کے مغرب میں قومی سلامتی کونسل کے اجلاس کو نشانہ بنانے کا منصوبہ بنایا، جہاں ایران کے اعلی سیاسی و عسکری حکام موجود تھے۔ اس حملے کا مقصد ایران کی سیاسی اور عسکری قیادت کو نشانہ بناکر ملک کا نظام مفلوج کرنا تھا۔

نتن یاہو کابینہ نے حزب اللہ لبنان کے خلاف ستمبر 2024 میں کی گئی دہشتگردانہ کارروائیوں کا تجربہ مدنظر رکھتے ہوئے ایک خطرناک فیصلہ کیا۔ انہوں نے سفارتی اصولوں اور بین الاقوامی قوانین کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے براہ راست اسلامی جمہوری ایران کی اعلی ترین قیادت کو نشانہ بنانے کی سازش تیار کی۔ تاہم ایرانی سلامتی اداروں کی بروقت تدبیر اور ہوشیاری کے باعث یہ منصوبہ ناکام رہا اور دشمن کی یہ سازش اپنی تکمیل سے پہلے ہی خاک میں مل گئی۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے کھلے اور ننگے جرم کے مقابلے میں ایران کا کیا ردعمل ہونا چاہیے؟ اسرائیل اور امریکہ نے ایران کے ایٹمی پروگرام کو بہانہ بنا کر، جو کہ "این پی ٹی” کے دائرے میں ایک جائز حق ہے، بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑائیں۔ انہوں نے قبل از وقت حملے کے مبہم اصول کے تحت ایران کی خودمختاری اور سرزمین پر حملہ کر کے بین الاقوامی نظام کو چیلنج کیا۔

اسرائیلی حملے کا وقت نہایت حساس تھا۔ دنیا کی نظریں اس وقت ایران اور امریکہ کے درمیان عمان کی ثالثی میں جاری بالواسطہ مذاکرات کے چھٹے دور پر تھیں کہ اچانک اسرائیل نے جنگ چھیڑ دی۔

ابتدائی لمحات میں نتن یاہو نے اعلان کیا کہ یہ حملے ایران کے ایٹمی اور میزائل پروگرام کو ختم کرنے کے لیے ہیں۔ بعدازاں اسرائیلی حکام نے وضاحت کی کہ ان کا مقصد ایران کے طاقت کے مراکز کو تباہ کرکے اندرونی بغاوت اور سیاسی نظام کی تبدیلی کی راہ ہموار کرنا ہے۔ سلامتی کونسل کی عمارت کو نشانہ بنانے کی کوشش اسی بڑے منصوبے کا حصہ تھی۔

امریکہ صرف ایران کے ایٹمی پروگرام کو محدود کرنے کا دعوی کرتا ہے جبکہ نتن یاہو اور اس کی انتہا پسند حکومت کی نظر اس سے بھی کہیں آگے ہے۔ اسرائیل ایران کی وسیع سرزمین اور اہم جغرافیائی مقام کے پیش نظر نہ صرف تہران حکومت کو کمزور کرنا چاہتا ہے، بلکہ ملک کے مختلف گوشوں میں علیحدگی پسند تحریکوں کو ورغلا کر دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک ایران کو مکمل طور پر تقسیم کرنا چاہتا ہے۔

ایران نے اس کے جواب میں صہیونی دفاعی نظام کو چیرتے ہوئے اہم ترین اہداف کو میزائل حملوں کا نشانہ بنایا۔ ان اہداف میں تل نوف کا ہوائی اڈہ، گلیلوت انٹیلی جنس سینٹر، موساد کی عمارت، وائزمن ریسرچ انسٹیٹیوٹ اور حیفا کی آئل ریفائنری شامل ہیں۔ سپاہ پاسداران انقلاب کی اس کامیاب کارروائی نے اسرائیل کے تمام اہداف خاک میں ملا دیے اور بالآخر صہیونی حکام کو جنگ روکنے کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور خطے کے عرب ممالک خصوصا قطر سے مدد مانگنے پر مجبور ہوگئی۔

صہیونی حکومت کی تاریخ میں سب سے زیادہ دہرایا جانے والا لفظ شاید ٹارگٹ کلنگ ہے۔ اگرچہ دہشتگردی صہیونی فکر کی جڑوں میں پیوست ہے، لیکن جدید دور میں یہ طریقہ خطرناک حد تک منظم اور پیچیدہ ہو چکا ہے خاص طور پر "موساد”، "آمان” اور "شین بٹ” جیسے اداروں کے لئے ایسی کاروائیاں معمول بن چکی ہیں۔

اسلامی جمہوری ایران کے اعلی حکام پر قاتلانہ حملے کی ناکام کوشش نہ صرف سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کی دانستہ کوشش تھی، بلکہ ایران کے اندر خانہ جنگی بھڑکانے کی سازش بھی تھی۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ عالمی برادری نہ صرف ان اقدامات پر خاموش ہے، بلکہ اسرائیل کے خلاف کوئی رسمی مذمت یا سزا بھی سامنے نہیں آتی۔ اقوام متحدہ اور عالمی سطح پر امن کا دم بھرنے والے اداروں کے لئے یہ انتہائی لمحہ فکریہ ہے کیونکہ ان واقعات پر چپ کا روزہ رکھنے سے نہ صرف ان کی عالمی ساکھ کو بری طرح نقصان پہنچے گا بلکہ دنیا کا امن بھی خطرات سے دوچار ہوگا۔

متعلقہ مضامین

Back to top button