ٹرمپ کا مکمل جوہری تنصیبات کی تباہی کا دعویٰ جھوٹ، امریکی رپورٹس نے پول کھول دی
ایران کا جوہری پروگرام چند ماہ مؤخر، مکمل تباہی کا دعویٰ غلط: CNN، NYT، رائٹرز، AP، WSJ

شیعیت نیوز : امریکی صدر کی جانب سے ایران کے جوہری پروگرام کے مکمل خاتمے کا دعویٰ اب خود امریکہ کے اندر ایک بڑے تنازع میں تبدیل ہو چکا ہے، اور امریکی ذرائع ابلاغ ایک کے بعد ایک اس دعوے کو چیلنج کر رہے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے 22 جون کو اعلان کیا تھا کہ امریکی فوج نے ایران کی تین اہم جوہری تنصیبات — فردو، نطنز اور اصفہان — کو نشانہ بنایا ہے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ ان حملوں کے نتیجے میں ایران کا جوہری پروگرام مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔ تاہم ٹرمپ کے اس دعوے کو امریکی میڈیا اور مختلف ذرائع نے "توہم پرست صدر” کا مبالغہ آمیز بیان قرار دیتے ہوئے سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
ٹرمپ نے اس کھلی اور ننگی جارحیت کے بعد دعویٰ کیا تھا کہ ایران کی جوہری تنصیبات مکمل طور پر تباہ کر دی گئی ہیں۔ ان کے نائب جی ڈی ونس نے بھی اسی دعوے کو دہراتے ہوئے کہا تھا کہ یہ حملہ تاریخ کے کامیاب ترین فوجی حملوں میں سے ایک تھا۔ تاہم امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے مختلف لہجہ اختیار کرتے ہوئے ٹرمپ کے دعوے کو دہرانے سے گریز کیا اور کہا تھا کہ ایرانی اب اس مقام سے مزید دور ہو چکے ہیں جہاں وہ جوہری ہتھیار حاصل کر سکتے تھے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ مختلف شعبوں کو خاصا نقصان پہنچا ہے، اور ہم اس بارے میں مزید معلومات اکٹھی کر رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں : ایرانی پارلیمنٹ کا بڑا فیصلہ: IAEA سے تعاون معطل کرنے کا بل منظور
ٹرمپ کے دعوے پر امریکی میڈیا نے اپنے ردعمل میں کہا کہ ایران کا جوہری پروگرام تباہ نہیں ہوا، صرف چند ماہ مؤخر ہوا ہے۔ امریکی نشریاتی ادارے سی این این نے تین باخبر ذرائع کے حوالے سے رپورٹ کیا کہ امریکی فضائی حملے ایران کے جوہری پروگرام کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کرنے میں ناکام رہے اور زیادہ سے زیادہ چند ماہ کی تاخیر کا سبب بنے۔
اس کے بعد نیویارک ٹائمز نے ایک اعلیٰ امریکی عہدیدار کے حوالے سے لکھا کہ فردو کی جوہری تنصیبات تباہ نہیں ہوئیں بلکہ صرف جزوی نقصان پہنچا ہے۔
ان انکشافات پر وائٹ ہاؤس نے شدید ردعمل ظاہر کیا۔ صدارتی ترجمان کیرولین لیوٹ نے سی این این کی رپورٹ کو غلط اور بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایک انتہائی خفیہ رپورٹ تھی جسے ایک گمنام اور کم حیثیت فرد نے لیک کیا۔ اس کا مقصد صدر ٹرمپ کو بدنام کرنا اور ان بہادر پائلٹوں کی قربانیوں کو کم تر دکھانا ہے جنہوں نے ایران کے جوہری پروگرام کو تباہ کرنے کے لیے ایک بے مثال آپریشن انجام دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب 30 ہزار پاؤنڈ وزنی 14 عدد بم اپنے ہدف پر گرتے ہیں تو نتیجہ صرف ایک ہوتا ہے یعنی مکمل تباہی۔
ایسوسی ایٹڈ پریس نے بھی امریکی انٹیلیجنس رپورٹ کے حوالے سے تصدیق کی کہ حملوں سے ایران کے جوہری پروگرام کو نمایاں نقصان نہیں پہنچا بلکہ صرف چند ماہ کی تاخیر ہوئی ہے۔
اسی طرح وال اسٹریٹ جرنل نے بھی ابتدائی انٹیلیجنس رپورٹس کے حوالے سے لکھا کہ واشنگٹن کے حملے ایران کے جوہری پروگرام کو صرف چند ماہ پیچھے لے جا سکے، مکمل طور پر ختم نہیں کر سکے۔
برطانوی خبر رساں ادارے رایٹرز نے باخبر ذرائع کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ امریکہ کے حالیہ فضائی حملے ایران کے جوہری پروگرام کو تباہ کرنے میں ناکام رہے اور صرف چند ماہ کی تاخیر کا باعث بنے ہیں۔ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر تین ذرائع نے بتایا کہ یہ ابتدائی تجزیہ امریکی دفاعی انٹیلیجنس ایجنسی نے تیار کیا ہے۔ دو دیگر ذرائع کے مطابق، ایران کے افزودہ یورینیم کے ذخائر تباہ نہیں ہوئے اور ممکنہ طور پر ایران کا جوہری پروگرام صرف ایک سے دو ماہ پیچھے گیا ہے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ، ان رپورٹس کے منظر عام پر آنے اور معلومات کے افشا ہونے پر برہم ہو گئے۔ انہوں نے ذاتی سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر دعویٰ کیا کہ سی این این جعلی خبریں پھیلا رہا ہے اور نیویارک ٹائمز کے ساتھ مل کر تاریخ کے کامیاب ترین فوجی حملے کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
ٹرمپ کے مشرقِ وسطیٰ کے لیے خصوصی ایلچی اسٹیو وِٹکاف نے بھی ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ایسی معلومات کا افشا ہونا، چاہے اس کا ماخذ کچھ بھی ہو، شرمناک اور غداری کے مترادف ہے۔ اس پر تحقیقات ہونی چاہئیں اور ذمہ داروں کو جوابدہ ٹھہرایا جانا چاہیے۔
اسی دوران امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے بھی ٹرمپ کے مکمل تباہی کے دعوے سے فاصلہ اختیار کرتے ہوئے کہا کہ اصفہان کی جوہری تنصیبات قابلِ مرمت ہیں۔
اس سے قبل رایٹرز نے ایک اعلیٰ ایرانی ذریعے کے حوالے سے بتایا تھا کہ فردو میں موجود زیادہ تر افزودہ یورینیم حملے سے پہلے ہی کسی اور مقام پر منتقل کر دیا گیا تھا۔
چند دن گزرنے کے بعد، جب کہ امریکہ کے حملے پر عالمی سطح پر شدید مذمت کی جا رہی ہے، واشنگٹن کی ناکامی کے مزید پہلو سامنے آ رہے ہیں۔ تاہم توقع کے مطابق امریکہ کے اتحادی ممالک نے ان حملوں کی مذمت سے گریز کیا۔