اہم ترین خبریںایرانمقبوضہ فلسطین

ایران-صہیونی جنگ بندی: امن کی امید یا نئی سازش کی تیاری؟

ایران نے ثابت کیا کہ داخلی یکجہتی، علمی خودکفالت اور عوامی حمایت، مزاحمت کی اصل طاقت ہے

شیعیت نیوز : ایران اور صہیونی حکومت کے درمیان جاری جنگ ظاہری لحاظ سے ختم ہوگئی ہے۔ ہر جنگ بندی امن کا ایک موقع ہوتی ہے اور امن انسانی زندگی کے لیے ایک بنیادی ضرورت ہے۔ ہم جینے کے لیے سیکھتے ہیں؛ ہم اس لیے سیکھتے ہیں تاکہ درست انداز میں زندگی گزار سکیں؛ اور ہم اس لیے درست زندگی گزارنا چاہتے ہیں تاکہ غلطیوں سے بچ سکیں۔ ہم اس لیے غلطیوں سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ اپنی انسانی ذمہ داری کو پورا کر سکیں۔ چاہے وہ خدا کے سامنے ہو یا آئندہ نسلوں کے سامنے۔

تاریخ بارہا یہ ثابت کرچکی ہے کہ بعض مغربی ممالک، جب انہوں نے مشرقی ممالک کے ساتھ جنگیں شروع کیں یا اپنی پالیسیاں نافذ کرنے کی کوشش کی، تو انہیں مسائل کا سامنا اس لیے کرنا پڑا کہ وہ مشرق کو صحیح طور پر سمجھنے میں ناکام رہے۔ مغرب کے برعکس، مشرق کی یہ صفت ہے کہ جو کچھ بظاہر نظر آتا ہے، وہی حقیقت نہیں ہوتا۔ حقیقت پوشیدہ ہوتی ہے، بالکل انسان کی باطنی طاقت کی مانند، جو صرف حرکت میں آکر ظاہر ہوتی ہے۔

اس بار بھی کچھ مختلف نہ تھا۔ لیکن گیارہ دن کے خونریز تصادم کے بعد کچھ وقفہ آیا۔ یہ جانے بغیر کہ آیا یہ جنگ بندی دیرپا ہوگی یا لبنان کی طرز پر ایک وقتی وقفہ، یا صرف مخالف فریق کو سانس لینے اور نئی اشتعال انگیزی کی تیاری کا موقع فراہم کرنے کا ذریعہ ملے گا۔

یہ بھی پڑھیں : ایران و مصر کے صدور کی اہم گفتگو؛ خطے میں امن کی کوششوں پر زور

ایران کے لیے یہ ایک موقع تھا کہ ثابت کرے کہ اسلامی جمہوریہ ایران اور اس کے عوام قدیم فارس کے وارث ہیں؛ یہ دکھائے کہ حکومت کو عوام کی حمایت حاصل ہے اور اپنی داخلی صلاحیتوں کا درست تجزیہ کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔ جو حکومت عوامی حمایت سے محروم ہو، وہ زیادہ دیر تک باقی نہیں رہتی؛ اس لیے عوام کی قدردانی ضروری ہے۔ عوام کو یہ سمجھنے کا موقع دے کہ کسی ملک اور قوم کی سلامتی کی سب سے بڑی ضمانت علم، صبر، اتحاد اور یکجہتی میں ہے اور یہ کہ داخلی مسائل کا حقیقی حل ملک کے اندر ہی موجود ہوتا ہے۔

یاد رکھیں کہ سائنسدانوں کو قتل کرکے علم کو ختم نہیں کیا جا سکتا کیونکہ علم کبھی مرتا نہیں۔ یہ جنگ اس بات کا ثبوت ہے کہ اکیسویں صدی میں بھی، سفارتکاری اور بین الاقوامی قوانین اس وقت تک مؤثر نہیں ہوسکتے جب تک کسی کے پاس اعلی درجے کی عسکری ٹیکنالوجی موجود نہ ہو۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ انسانوں کو ہنگامی اور غیرمعمولی حالات میں ہی پہچانا جاتا ہے۔ یہی بات اقوام پر بھی صادق آتی ہے۔ اسی میں دوست اور دشمن کی شناخت ہوتی ہے۔ افسوس کہ اسلامی دنیا میں بھی اب تک ایسے ممالک موجود ہیں خاص طور پر بعض نوآزاد اور ہمسایہ ریاستیں جو اسلامی اخوت، عزت اور وفاداری سے زیادہ اپنی قومی مفادات، اقتصادی فائدے اور خاندانی حکمرانی کو اہمیت دیتی ہیں۔ ہمیں معلوم نہیں کہ اس کی اصل وجہ کیا ہے۔ شاید انہیں ہماری ہمسائیگی میں مزید دو یا تین ہزار سال رہنے کی ضرورت ہے تاکہ ہمسائیگی کی حقیقی قدر کو سمجھ سکیں۔ کیونکہ جب کسی ہمسائے کے گھر میں آگ لگتی ہے، تو وہاں پانی کا ڈول لے کر جانا چاہیے نہ کہ دشمن کی طرف سے اس گھر کو جلانے کے لیے لڑاکا طیارے کا ایندھن فراہم کریں کیونکہ وہ آگ بالآخر آپ کے گھر تک بھی پہنچ جائے گی۔

ایران کی گزشتہ چالیس برس کی سب سے بڑی کامیابی مکمل خودمختاری اور خودانحصاری کا حصول ہے۔ علاقائی اور ہمسایہ ممالک کے لیے یہ موقع تھا کہ ایران کی اصل صلاحیت اور اس کی سنجیدہ پالیسی کو بخوبی سمجھیں، اور اس فہم کو اپنی پالیسیوں میں درست طور پر استعمال کریں؛ اپنی داخلی صلاحیتوں پر نظرِثانی کریں اور ان پر اعتماد کرنا سیکھیں؛ یہ تسلیم کریں کہ عدل و انصاف تک رسائی کا انحصار ہماری اندرونی تیاری اور مزاحمت کی قوت پر ہے؛ عدل و انصاف کے لیے جدوجہد بھی مزاحمت ہی ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button