ایران اور امریکہ کے مذاکرات، لیکن اعتماد کی فضا ناپید
تہران کا کہنا ہے کہ مذاکرات کا مقصد صرف معاہدہ نہیں بلکہ دنیا کو امن کا پیغام دینا ہے

شیعیت نیوز : ایران اور امریکہ نے عمان میں بالواسطہ مذاکرات شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ تہران کا کہنا ہے کہ اگرچہ مغرب کے وعدوں پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا، تاہم مذاکرات کا مقصد دنیا کو امن کی حمایت کا پیغام دینا ہے۔
ایران اور امریکہ کے تعلقات کی تاریخ دراصل واشنگٹن کی سیاسی وعدہ خلافیوں سے بھری ہوئی ہے، جو صرف انقلاب اسلامی تک محدود نہیں بلکہ اس سے پہلے بھی نظر آتی ہے۔
ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان 2015 میں طے پانے والا ایٹمی معاہدہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی توثیق کے باوجود اس وقت ناکام ہو گیا جب 2018 میں ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت نے معاہدے سے یکطرفہ طور پر علیحدگی اختیار کر لی اور ایران پر دوبارہ سخت پابندیاں عائد کر دیں۔ اس اقدام نے نہ صرف ایران میں امریکہ کے تئیں عدم اعتماد کو گہرا کر دیا بلکہ دنیا کو بھی یہ باور کرایا کہ امریکہ، خواہ کوئی بھی صدر ہو، اپنے بین الاقوامی وعدوں کا پابند نہیں۔
یہ بھی پڑھیں : یمن پر زمینی حملے کا خواب دیکھنا چھوڑ دو، انصاراللہ کی امریکہ کو دوٹوک وارننگ
صدر جو بائیڈن کی حکومت نے اگرچہ معاہدے میں واپسی کی بات کی، لیکن نئی شرائط اور پابندیوں کے تسلسل سے یہ ظاہر کیا کہ اس کی حکمت عملی بھی بنیادی طور پر ٹرمپ جیسی ہی ہے۔ یہاں تک کہ امریکی جاسوسوں کی رہائی کے بدلے ایران کے منجمد اثاثوں کی بحالی کا معاہدہ امریکہ کی وعدہ خلافی کے باعث ناکام ہوا اور ایرانی عوام کو کوئی فائدہ نہ پہنچ سکا۔
اگرچہ ایران ایک بار پھر مذاکرات کی میز پر بیٹھ رہا ہے لیکن اس بار مقصد صرف معاہدہ کرنا نہیں، بلکہ عالمی سطح پر ایک اخلاقی اور سفارتی مقام برقرار رکھنا ہے۔ تہران یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ وہ اب بھی بات چیت اور پرامن حل کا حامی ہے، جبکہ امریکہ بدستور دباؤ، پابندی اور دھمکی کی پالیسی پر قائم ہے۔
ایران نے اس بار مذاکرات کے لیے عمان کا انتخاب کیا ہے، جو ایک متوازن اور غیر جانبدار ثالث کے طور پر جانا جاتا ہے۔ یہ اقدام ایران کی یورپی ثالثوں پر عدم اعتماد کا بھی اظہار ہے۔
ایران اب اپنی پالیسی کو محض مذاکرات پر منحصر نہیں رکھتا بلکہ وہ مزاحمت اور مذاکرات کے درمیان توازن پیدا کر رہا ہے۔ اس کا مقصد اپنے ایٹمی اور دفاعی مفادات کا تحفظ کرنا اور مغرب کے وعدوں پر اندھا اعتماد کرنے کی پالیسی سے اجتناب برتنا ہے۔
مبصرین کے مطابق اگرچہ ایران نے مذاکرات کا دروازہ کھلا رکھا ہے، تاہم دونوں فریقوں کے درمیان گہرے اختلافات کے باعث معاہدے کا امکان بہت کم ہے۔ حتی کہ اگر کوئی سمجھوتہ ہو بھی جائے، تو ماضی کے تجربات سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ اسے کسی بھی وقت ختم کر سکتا ہے۔
ایران موجودہ مذاکراتی عمل میں اس امید کے ساتھ شامل ہے کہ اگر پابندیوں کے خاتمے کی کوئی چھوٹی سی گنجائش بھی نکلے تو اس سے فائدہ اٹھایا جائے۔ یہ طرز عمل کمزوری نہیں بلکہ ایران کی اسٹریٹجک پختگی کی علامت ہے، جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ مایوسی کے باوجود تہران نے سفارت کاری کا دروازہ بند نہیں کیا۔