امام حسینؑ کی جدوجہد، تمام مظلوموں کے لیے مشعلِ راہ ہے، علامہ ساجد نقوی
28 رجب کی شب امام عالی مقام نے مدینہ سے ہجرت کا فیصلہ کیوں کیا؟

شیعیت نیوز: علامہ سید ساجد علی نقوی نے قافلہ کی 28 رجب المرجب کو مدینے سے روانگی کی مناسبت سے کہا کہ نواسہ رسول ۖ کی جدوجہد کے پہلے مرحلے پر اسلام کے آفاقی اور عادلانہ نظام کی سربلندی کے لیے یزید کی ناجائز خلافت پر بیعت نہیں کی، دوسرے مرحلے پر حق کی سربلندی کے لیے آباؤ اجداد کا وطن مدینہ چھوڑ دیا اور چھوڑتے وقت یہ پیغام دیا کہ میں نانا کی امت میں طلبِ اصلاح کے لیے جا رہا ہوں۔
علامہ ساجد نقوی کا مزید کہنا ہے کہ 28 رجب 60 ہجری کی شب امام عالی مقام نے یزید کے کھلم کھلا اعلانیہ فسق و فجور اور ناسازگار ماحول کے سبب وطن کو خیر باد کہنے کا فیصلہ کیا اور اپنے خاندان کے اکثر افراد اور بعض انصار کے ساتھ اپنے جد امجد، رسول خدا ۖ کو الوداع کہہ کر مدینہ سے مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔ مدینہ سے نکلتے وقت جس آیہ کریمہ کی تلاوت کی، اس سے سفر کی کیفیت واضح ہو جاتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں : سپاہ پاسداران کی مصنوعی ذہانت میں پیش رفت، جدید نقشے کی رونمائی
”پیغمبر خدا موسیٰ اپنے شہر سے خوف کے عالم میں نکل گئے اور ہر آن کسی حادثہ کا انتظار کر رہے تھے اور کہا خدایا! مجھے ظالم قوم سے نجات دے۔” اسی طرح امام حسینؑ کا یہ فرمان ”میں اپنے نانا رسول خدا ۖ کی امت میں طلب اصلاح کی غرض سے نکلا ہوں” آپ کے سفر کی علت کو واضح کرتا ہے۔ اگلے مرحلے پر سفر کے دوران اپنے مقاصد اور اہداف کو واضح کیا۔ آخری مرحلے پر کربلا میں اپنے عزیز و اقارب اور اصحاب کی قربانی دی۔
علامہ ساجد نقوی نے کہا کہ نواسہ رسول اکرم ۖ حضرت امام حسینؑ نے واقعہ کربلا سے قبل مدینہ سے مکہ اور مکہ سے حج کے احرام کو عمرے میں تبدیل کر کے کربلا کے سفر کے دوران اپنے قیام کے اغراض و مقاصد کے بارے میں واشگاف انداز میں اظہار کیا اور دنیا کی تمام غلط فہمیوں کو دور کر دیا۔ موت جیسی اٹل حقیقت کے یقینی طور پر رونما ہونے کے باوجود بھی اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہ ہوئے، یہی وجہ ہے کہ حکمرانوں کی طرف سے ہر قسم کی مالی، دنیاوی، حکومتی اور ذاتی پیشکش کو ٹھکرا دیا اور صرف قرآن و سنت اور اسلام کے نظام کے نفاذ کو ترجیح دی۔
علامہ ساجد نقوی نے کہا کہ امام عالی مقام کی بے مثال جدوجہد اور تحریک ہم سب کے لیے مشعل راہ اور رہنمائی کا باعث ہے۔ ان کی جدوجہد نے خصوصاً محروم، مظلوم اور پسے ہوئے طبقات کے خلاف ہونے والی سازشوں کو بے نقاب کیا۔ حکمرانوں کی بے قاعدگیوں، بے اعتدالیوں، بدعنوانیوں، کرپشن، اقرباء پروری، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور شہریوں کے بنیادی حقوق کی پامالی کی طرف بھی نشاندہی فرمائی۔ دنیا میں جو طبقات فرسودہ، غیر منصفانہ، ظالمانہ اور آمرانہ نظاموں کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں، امام کی جدوجہد ان کے لیے سب سے بڑی مثال اور مینارِ نور ہے۔
موجودہ معاشروں کے تمام حکام طبقات اور محروم و مظلوم طبقات امام حسینؑ کی جدوجہد سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ امام حسینؑ کے اس اجتماعی انداز سے آج دنیا کا ہر معاشرہ اور ہر انسان بلا تفریق مذہب و مسلک استفادہ کر سکتا ہے۔ آج بھی دنیا میں چلنے والی آزادی و حریت کی تحریکیں ان سے رہنمائی حاصل کر رہی ہیں، اور چونکہ امام حسینؑ کی جدوجہد ایک تحریک اور نظام کا نام ہے، اس لیے یہ سب کے لیے مشعلِ راہ اور رہنمائی کا باعث ہے۔