خیبرپختونخوا کی نااہل حکومت پارہ چنار میں جنگ بندی کروانے میں ناکام ! ایک ہفتے میں درجنوں مومنین شہید درجنوں افراد تاحال یرغمال
انھوں نے کہا کہ یرغمال بنائے گئے افراد اور لاشوں کی منتقلی کے بعد ایک گرینڈ جرگہ منعقد کیا جائے گا جس میں مقامی عمائدین کے علاوہ کوہاٹ ڈویژن کا گرینڈ جرگہ بھی شریک ہو گا تاکہ علاقے میں مکمل امن قائم کیا جا سکے۔

شیعیت نیوز: پختونخوا کے قبائلی ضلعے کرم میں مسافر گاڑیوں کے قافلے پر حملے کے بعد ایک ہفتے قبل شروع ہونے والی کشیدگی پر تاحال قابو نہیں پایا جا سکا ہے اور پولیس کا کہنا ہے کہ اس دوران مختلف واقعات میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد اب 100 سے بڑھ گئی ہے۔
صوبائی حکومت کی جانب سے سُنی اور شیعہ قبائل کے درمیان لاشوں اور قیدیوں کی واپسی کی غرض سے سیزفائر کے اعلان کے باوجود مخالف گروہوں میں مختلف مقامات پر جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے مشیرِ اطلاعات بیرسٹر سیف نے اتوار کو دعویٰ کیا تھا کہ فریقین نے لاشوں اور قیدیوں کو واپس کرنے کے علاوہ سات روزہ سیز فائر پر اتفاق کیا ہے۔
تاہم مقامی پولیس کا کہنا ہے کہ مختلف قبائل کے مابین جھڑپوں کا سلسلہ تھم نہیں سکا ہے۔
یہ بھی پڑھئیے: نااہل وزیر اعلیٰ خیرپختوانخوا کو ہوش آگئی!سانحہ پارہ چنار پر آئی جی سے اجلاس میں بریفنگ لی
ولیس کا کہنا ہے کہ ان ہلاکتوں کے بعد ایک ہفتے میں حملوں اور فرقہ وارانہ تشدد میں مرنے والوں کی تعداد 102 ہو گئی ہے جبکہ 138 افراد زخمی ہیں۔
ضلع کرم میں موبائل اور انٹرنیٹ سروس بدستور معطل ہے جبکہ علاقے کی مرکزی شاہراہیں اور تعلیمی ادارے بھی بند ہیں۔
ڈپٹی کمشنر جاویداللہ محسود کا کہنا ہے کہ قیامِ امن کے لیے مختلف اقدامات جاری ہیں اور گرینڈ امن جرگہ مذاکرات کے لیے علاقے میں بھیجا جا رہا ہے۔
اس سے قبل سیزفائر کے اعلان کے باوجود اتوار کی شب علی زئی اور بگن کے علاقوں میں جھڑپوں کی اطلاعات ملی تھی جبکہ صدہ ہسپتال میں ایک ہلاک اور تین زخمی لائے گئے تھے۔
ایک پولیس اہلکار کے مطابق علاقے میں حالات مکمل معمول پر نہیں ہیں اور ایک بے یقینی کی صورتحال برقرار ہے۔
کرم سے تعلق رکھنے والے سابق رکن قومی اسمبلی ساجد طوری نے میڈیا کو بتایا کہ وہ خود اس وفد میں شامل تھے جس میں صوبائی وزیر آفتاب عالم، صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف ، چیف سیکریٹری خیبرپختونخوا اور انسپکٹر جنرل پولیس سمیت دیگر انتظامی افسران شامل تھے۔
انھوں نے بتایا کہ ملاقاتوں کے دوران دونوں جانب سے گلے شکوے کیے گئے لیکن وفد نے جنگ بندی کا مطالبہ کیا جسے اہل تشیع نے قبول کیا اور اس کے بعد وفد اہل سنت کے عمائدین کے پاس گئے اور وہاں بھی گلے شکوے تھے لیکن وہ بھی جنگ بندی پر راضی ہو گئے ہیں۔
جب ان سے کل رات ہونے والی فائرنگ اور جھڑپوں کی اطلاعات سے متعلق پوچھا گیا تو اُن کا کہنا تھا کہ جس شدت سے پہلے فائرنگ اور بھاری اسلحہ استعمال ہو رہا تھا، اب ویسی صورتحال نہیں ہے۔
ساجد طوری نے بتایا کہ فریقین یرغمال افراد اور لاشوں کو لواحقین کے حوالے کرنے پر راضی ہوئے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ان کی اطلاع کے مطابق مجموعی طور پر 18 افراد یرغمال ہیں یعنی ایک جانب سے 12 اور دوسری جانب کے چھ افراد۔
انھوں نے کہا کہ یرغمال بنائے گئے افراد اور لاشوں کی منتقلی کے بعد ایک گرینڈ جرگہ منعقد کیا جائے گا جس میں مقامی عمائدین کے علاوہ کوہاٹ ڈویژن کا گرینڈ جرگہ بھی شریک ہو گا تاکہ علاقے میں مکمل امن قائم کیا جا سکے۔