اہم ترین خبریںپاکستان

محسن ملت ؒ، قم و نجف اداس ہے

،فرمایا کرتے تھے، ہم نے بی بی (ع) کے نام پر جو بھی کام شروع کیا، پروردگار نے اس میں برکت ڈال دی اور وہ کبھی ادھورا نہیں رہا۔ڈاکٹر ندیم عباس کا خراج تحسین

سمجھ نہیں آرہی کہاں سے شروع کروں؟ بعض اوقات شخصیات بڑی اور الفاظ چھوٹے پڑ جاتے ہیں۔ زبانیں تمام تر وسعتوں کے باوجود عقیدت اور خراج تحسین تک ہی محدود ہیں۔ بلتستان کے دور افتادہ گاوں میں پیدا ہونے والی شخصیت نے ناصرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کی ملت اسلامیہ پر گہرے نقوش چھوڑے۔محنت، لگن، جدوجہد مسلسل، توکل بر خدا، آئمہ اہلبیتؑ سے توسل اور جو کچھ لوگوں کے ہاتھوں میں ہے، اس سے بے نیازی جیسے اصولوں پر زندگی گزاری۔ ان کی موجودگی میں یوں لگتا تھا جیسے شدید گرمی میں سایہ دار درخت مسیر ہے، جس کی چھاوں میں زندگی آرام سے گزر رہی ہے۔ قوم پر جب بھی مشکل پڑی، قوم آپ کی طرف ہی دیکھتی تھی۔ آپ عملی طور پر سیاست سے دور رہتے تھے اور شیعہ جماعتوں کی اندرونی سیاست میں بھی فعال نہیں تھے، مگر آپ قوم کی مشکل وقت رہنمائی کرتے تھے۔ یہ آپ کی شخصیت  ہی تھی کہ تمام تر اختلافات کے باوجود ساری شیعہ جماعتیں ایک جگہ پر جمع ہو جاتی تھیں۔

اکتیس دسمبر کو جامعۃ الکوثر میں علماء و مشائخ کانفرنس تھی، انتظامات مکمل تھے۔ میں کوئٹہ میں تھا، حکم ہوا کہ فوراً اس کانفرنس کے انتظامات کے لیے اسلام آباد پہنچوں۔ اسی رات ٹکٹ لی اور اگلے دن کانفرنس کے انتظامات سنبھال لیے۔ شیخ صاحب قبلہ بچیوں کے حجاب پروگرام میں شرکت اور کافی دیر بیٹھنے کی وجہ سے کافی تھکے تھکے لگ رہے تھے۔ خطاب بھی نہیں فرمایا، حالانکہ اس کانفرنس سے خطاب فرمایا کرتے تھے۔ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری صاحب شدید علالت کے باوجود کانفرنس میں شریک ہوئے۔ وہ تصویر بڑی وائرل ہوئی، جس میں ایک طرف قائد ملت جعفریہ علامہ سید ساجد علی نقوی ہیں، درمیان میں محسن ملت تشریف فرما ہیں اور ڈائس کے ساتھ راجہ صاحب بیٹھے ہیں۔ ہر کسی نے اس تصویر کو اپنی اپنی سوچ کے حساب سے دیکھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ یہ تصویر عملی طور پر بتا رہی تھی کہ قوم کو اکٹھے کرنے والی شخصیت کا نام شیخ محسن علی نجفی ہے۔

سادگی ان کی زندگی کا حصہ تھی، مختصر سے کمرے میں رہتے تھے۔ میں نے دو ہزار دو اگست میں جامعہ اھل البیت ؑ میں داخلہ لیا، آغا کو  بنقشی رنگ کے جوتے پہنے دیکھا، پتہ نہیں کب سے پہن رہے تھے؟ جب ہم تین سال گزار کر جانے لگے تو دیکھا کہ ہلکے پیلے رنگ کے جوتے آگئے ہیں۔ اس وقت دوستوں سے اظہار کیا تھا کہ مجھ جیسا طالب علم بھی ہر سال جوتوں کے دو جوڑے ضرور لیتا ہے، یہ محسن ملت ہیں، جو پچھلے کئی سال سے ایک ہی جوڑا پہنے ہوئے تھے۔ ان کے جنازے کے بعد کشمیر کے بزرگ مفتی کفایت حسین فرما رہے تھے، میں شیخ صاحب کے پاس کچھ عرصے بعد ان کے ذاتی استعمال کے لیے کچھ چیزیں لے جاتا تھا اور بتاتا تھا کہ آغا یہ مال امام یا شرعی وجوہات سے نہیں خریدی گئیں، یہ میرے ذاتی پیسوں سے خریدی گئیں ہیں۔

اس پر ایک بیٹی کا نام لیتے اور مفتی صاحب کا نام لے کر فرماتے کہ ان دونوں کو احساس ہے کہ شیخ محسن ایک غریب آدمی ہے، دنیا پتہ نہیں کیا سمجھتی ہے۔ یہ سن کر اور اب لکھتے وقت آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں، وہ لاکھوں لوگوں کو کپڑے اور جوتے دینے والی شخصیت، ہزاروں لوگوں کو چھت فراہم کرنے والا محسن، وہ لاکھوں لوگوں کے لیے سکول، کالج اور یونیورسٹی بنانے والا معلم، وہ ہزار سے زیادہ مساجد کی تعمیر کرنے والا خدا کا دوست، وہ جن کی تصدیق پر لوگ کروڑوں روپے دے دیا کرتے تھے، وہ جن کی تفسیر پر پاکستان کی یونیورسٹیز میں پی ایچ ڈی اور ایم فل کے تھیسز لکھے جا رہے ہیں، وہ جن کی پانچ منٹ کی تقریر نے فرقہ پرستوں کی سالوں کی محنت پر پانی پھیر دیا، وہ جو غلو و شرک کے بڑھتے قدموں کا خطرہ بھانپ کر اس کے خلاف قیام کرے۔

وہ مسجدوں کے آباد کاروں اور علی ولی اللہ کی صدا لگانے والوں کے لیے سوچنے والا، جسے نہ خریدا جا سکتا تھا اور نہ ہی جھکایا جا سکتا تھا۔ انیس سو چوہتر سے لے کر وفات تک ہر اہم قومی فیصلوں میں متحرک اور قائدانہ کردار ادا کرنے والا، الحاد کے بڑھتے قدموں کے سامنے سد علمی کی کاوش کرنے والا، پاکستان انٹرنیشنل یونیورسٹی کے نقشے میں اپنے وژن کے رنگ بھرنے والا، جب لوگ جائز ناجائز کی بحث میں پڑے تھے، اس وقت ہادی ٹی وی کی صورت میں گھر گھر ہدایت کا بندوبست کرنے والا، وہ جن کے اسوہ حسنہ میں بذریعہ اسوہ ہزاروں لوگوں کو سکالر شپ کا کار خیر بھی شامل ہے۔ وہ الکوثر کا خواب دیکھ کر بے سرو سامانی کے عالم میں اس کی تکمیل لگ جانے والا، وہ الکوثر کے فیوض برکات کو سیدہ کائنات کے توسل کا نتیجہ قرار دے کر اس پر فخر کرنے والا، وہ الکوثر کو قوم کا مستقبل قرار دینے والا، بین المسالک مکالموں میں فوقیت مذہب اہل بیت ؑ کی موثر آواز اور طلاب کو اس کی راہ دکھانے والا۔

قارئین کرام میں صرف ان کے کاموں کے عناوین کی فہرست بناوں تو اسی میں تحریر مکمل ہو جائے گی۔ قوم کا کتنا بڑا نقصان ہوا ہے؟ اس کا قوم کو شائد احساس نہیں، جس گھر سے بزرگ چلے جاتے ہیں، وہاں مسائل بڑھ جاتے ہیں۔اپنے دروس میں بار بار اس بات کا ذکر کیا کرتے تھے کہ لوگ پوچھتے ہیں، اتنا کچھ کیسے ممکن ہوگیا؟ فرماتے تھے، اللہ سے طلب میں استمرار پیدا کرو، بار بار مانگو، بار بار دروازہ کھٹکھٹانے سے ایک دن کھل ہی جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کی زندگی میں حضرت سیدہ کائنات فاطمہ زہراء (س) سے بے پناہ توسل تھا۔ فرمایا کرتے تھے، ہم نے بی بی (ع) کے نام پر جو بھی کام شروع کیا، پروردگار نے اس میں برکت ڈال دی اور وہ کبھی ادھورا نہیں رہا۔

یہ بھی پڑھیں: محسن ملت مفسر قرآن شیخ محسن نجفی کون تھے؟

محبت اہلبیتؑ کا دریا ان کے سینے میں موجزن تھا، زندگی کی پہلی کتاب بھی ولایت امیر المومنین ؑ کے اثبات میں لکھی اور آخری سے پہلی کتاب بھی اثبات ولایت امیر المومنین ؑ میں لکھی۔ ان کی زندگی پر ایک تفصیلی انٹرویو کیا تھا، جسے ہادی کی ٹیم نے ریکارڈ بھی کیا، پارلیمنٹ کا گھراو اور مدرسہ اہلبیتؑ کا قیام سمیت کئی اہم معاملات پر استاد محترم سے تفصیلی بات چیت رہی، کچھ کو اسی وقت کہیں سپرد قرطاس کیا تھا اور کچھ یاداشت میں محفوظ ہے، خدا بحق سیدہ کائنات (ع) موقع دے، ان شاء اللہ اس پر تفصیل سے لکھوں گا۔

جاتے تو سبھی ہیں، مگر محسن ملت کا جانا پاکستان بھر کے مومنین کو حزین کر گیا ہے، بلا تفریق تمام مدارس میں تعزیتی پروگرام ہو رہے ہیں۔ آپ کے جانے پر قم و نجف کے حوزہ ہائے علمیہ بھی اداس ہیں۔ کل جس طرح سے آیت اللہ العظمیٰ سید علی سیستانی کی میزبانی میں نجف اشرف میں مجلس ترحیم منعقد کی گئی، یہ دراصل حوزہ کا اپنے عظیم سپوت کو خراج تحسین تھا۔ رہبر معظم آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کے پیغام اور اظہار تسلیت نے غمزدہ قوم کو حوصلہ دیا۔ رئیس حوزہ علمیہ قم آیت اللہ اعرافی، جامعۃ المصطفیٰ العالمیہ کے سربراہ ڈاکٹر علی عباسی اور دیگر مراجع کے پیغامات میں غم کا اظہار بھی تھا اور اس نقصان کا بیان بھی جو شیخ الجامعہ، محسن ملت کے جانے سے ہوا ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button