شیعت نیوز اسپیشل

پڑھے لکھے شیعہ سماج میں چند رائج اصطلاحات کا تعارف

نذر حافی کی تحریر

شیعیت نیوز :انسانی معاشرے کا ایک اہم مسئلہ کسی بھی شئے کی درست شناخت اور معرفت ہے۔ دیگر مسائل اپنی جگہ، تاہم شیعہ علمائے کرام کے حوالے سے ہمارے ہاں کا عام شیعہ ابھی تک یہ نہیں جانتا کہ حوزہ علمیہ میں شیعہ علماء کرام کیلئے کون سی اصطلاحات مستعمل ہیں۔ عوام اور عام شیعہ حضرات کو چھوڑیئے بعض خواص بھی ایک مرجعِ تقلید اور ایک ولی فقیہ کے باہمی فرق کو نہیں جانتے۔ یاد رکھئے! عُرف اور انسان کی اپنی اختراع کی ہوئی باتیں اصطلاح نہیں کہلاتیں۔ ہر علم کے مخصوص ماہرین اصطلاحات کی تعریف طے کرتے ہیں۔  اس سے پہلے کہ ہم ولی فقیہ اور مرجعِ تقلید کی اصطلاحات پر بات کریں، اپنے سماج کی معلومات کی خاطر چند دیگر اصطلاحات کا ذکر بھی کئے دیتے ہیں۔ صاحبانِ دانش جانتے ہیں کہ یہ اصطلاحات ماضی میں دیگر معانی کیلئے بھی استعمال ہوتی رہی ہیں۔ چنانچہ یہ مضمون ماضی کی قیل و قال کے بجائے محض آج کے دور میں ان اصطلاحات کی درست تفہیم اور تطبیق پر مبنی ہے۔

ثقۃ الاسلام:
ماضی میں یہ اصطلاح انتہائی برجستہ اور محقق علماء کیلئے استعمال ہوتی تھی۔ جیسے ثقۃ الاسلام کلینی۔ مقبولیت عام کی وجہ سے اس اصطلاح کو مقدمات سے لمعہ تک یعنی کسی دینی مدرسے میں چھ سال پڑھنے والے افراد کے لئے فنّی طور پر منتخب کیا گیا، تاہم ماضی میں اس کے خاص تقدس اور وزن کی وجہ سے آج کل اس کا استعمال نہ ہونے کے برابر ہے۔
حجت الاسلام:
یہ اصطلاح ان شیعہ علماء و طلباء کیلئے استعمال کی جاتی ہے، جو رسائل، کفایة الاصول اور مکاسب تک تعلیم حاصل کرتے ہیں۔

حجت الاسلام والمسلمین:
جب شیعہ علماء اور طالب علم "رسائل، کفایة الاصول اور مکاسب” کے بعد اگلے مرحلے "درسِ خارج” میں داخل ہو جاتے ہیں تو اُن کیلئے یہ اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ درسِ خارج کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ درس، کتاب یا متن محور ہونے کے بجائے نظریہ محوّر ہوتا ہے اور اس میں کتابیں پڑھنے کے بجائے نظریات کی جانچ پرکھ کیلئے جرح و تعدیل اور کانٹ چھانٹ کے بعد نظریہ پردازی کی جاتی ہے۔

آیت اللہ:
"آیت اللہ” کا مصداق وہ شخص ہے، جو کامیابی کے ساتھ درسِ خارج مکمل کرکے اجتہاد کے درجے پر پہنچ جاتا ہے۔ اجتہاد کے درجے پر پہنچنے کا مطلب یہ ہے کہ ایسا شخص فقہی اصولوں کو استعمال کرکے ادلّہ اربعہ (قرآن، سنت، عقل اور اجماع) سے شرعی قوانین اخذ کرنے کی مہارت حاصل کر لیتا ہے۔ اس صلاحیّت کے بعد اُس کیلئے ضروری ہے کہ وہ چند سال علمِ فقہ اور علمِ اصول کا درسِ خارج بھی دے۔ اس کے بعد اُسے آیت اللہ کہا جاتا ہے۔

مجتہد:
اس کے علاوہ آپ نے اہلِ تشیع کے ہاں مجتہد کی اصطلاح بھی سُنی ہوگی۔مجتہد وہ عالم ہے، جو برس ہا برس کی تعلیم اور ریاضت یعنی محنتِ شاقہ کے بعد ادلہ اربعہ (قرآن، سنت، عقل اور اجماع) سے خدا کے حکم کو اخذ کرنے کی استعداد اور صلاحیّت حاصل کر لے۔
شیعہ مجتہدین کی اقسام:۔
مجتہدین کی دو قسمیں ہیں:
۱۔ ایک یا چند فقہی ابواب کا مجتہد
۲۔ تمام فقہی ابواب کا مجتہد
"وہ عالم جو فقہ کے کسی ایک یا بعض ابواب میں مجتہد ہو، اُسے مجتہد متجزی کہا جاتا ہے اور وہ عالم جو فقہ کے تمام ابواب میں مجتہد ہو، اسے مرجع تقلید اور آیت اللہ العظمیٰ کہا جاتا ہے۔

مرجع تقلید اور آیت اللہ العظمی:
اہلِ تشیع کے ہاں مرجع تقلید ایسا مجتہد ہوتا ہے، جو کئی سالوں کے درس و تدریس کے بعد اس مقام تک پہنچتا ہے کہ اپنے اجتہاد سے حاصل ہونے والے احکام کو عوام کیلئے بیان کرتا ہے، تاکہ لوگ اُن احکام پر عمل کرکے خدا کا قُرب حاصل کریں۔ سارے مجتہد اس مقام پر فائز نہیں ہوتے بلکہ ہر زمانے میں صرف چند انگشت شمار مجتہدین اس مقام تک پہنچتے ہیں۔

مجتہد اور مرجع تقلید میں فرق:
مجتہد، فقیہ یا آیت اللہ ہونے کیلئے کافی ہے کہ وہ ادلہ اربعہ (قرآن، سنت، عقل اور اجماع) سے خدا کے حکم کو اخذ کرنے کی صلاحیّت حاصل کر لےو جبکہ مرجع تقلید کیلئے یہ کافی نہیں۔ ایک مرجع تقلید کو مجتہد، فقیہ یا آیت اللہ ہونے کے ساتھ ساتھ مرد، بالغ، عاقل، شیعه اثناء عشری، حلال زاده، زنده، عادل، دنیا کا حریص نہ ہونا اور اعلم ہونے جیسی شرائط کا حامل ہونا بھی ضروری ہے۔ مختصراً یہ کہ ہر مرجع تقلید مجتہد ہوتا ہے، لیکن ہر مجتہد مرجع تقلید نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر اپنی، اپنے اساتذہ اور اپنے والدین کی خصوصی محنت کے باعث کوئی بچہ آٹھ دس سال کی عمر میں مجتہد بننے کی صلاحیّت حاصل کرسکتا اور ایک مجتہد کے علمی مرتبے کو پا سکتا ہے، لیکن وہ مرجع تقلید نہیں بن سکتا، چونکہ مرجع تقلید کی ایک شرط عاقل اور بالغ ہونا ہے۔ اسی طرح کوئی خاتون علمی مدارج طے کرنے کے بعد اجتہاد کے درجے پر فائز ہوسکتی ہے، لیکن وہ مرجع تقلید نہیں بن سکتی، چونکہ مرجع تقلید کی ایک شرط مرد ہونا ہے۔

ولی فقیہ:
مجتہد اور مرجع تقلید سے الگ ایک منصب کا نام ولی فقیہ ہے۔ ولی فقیہ کیلئے حکم خدا کو نافذ کرنے کی صلاحیّت ہونا ضروری ہے۔ یعنی اس کے ماتحت ایک حکومت، پارلیمنٹ اور عدلیہ کا ہونا لازمی ہے۔ اس کے بغیر کوئی فقیہ اس مقام تک نہیں پہنچ سکتا۔ پس مجتہد اور مرجع تقلید کی شرائط جدا ہیں اور یہ شرائط تقلید و بابِ تقلید تک محدود ہیں جبکہ ولی فقیہ کی شرائط  اسلامی معاشرے کی سرپرستی، مدیریت اور الہیٰ قوانین کے نفاذ کے باب سے تعلق رکھتی ہیں۔

رہبر معظم آیت اللہ خامنہ ای نے کاشان میں امام جمعہ اور نمائندہ ولی فقیہ مقرر کردیا :یہ بھی پڑھیں
ولی فقیہ اور مرجع تقلید کا فرق:
اسلامی معاشرے کو جس طرح مجتہد اور مرجع تقلید کی ضرورت ہے، اسی طرح ولی فقیہ کی بھی اشد ضرورت ہے۔ انسانی صلاحیتیں مختلف ہونے کی وجہ سے جیسے سب علماء حجۃ الاسلام والمسلمین نہیں بنتے اور سب مجتہد مرجع تقلید نہیں ہوتے، اسی طرح سب مراجع تقلید، ولی فقیہ نہیں ہوتے۔ مجتہد اور مرجع تقلید کے پاس قوانین الہیٰ کو اخذ کرنے کی صلاحیّت تو ہوتی ہے، لیکن اُن کے پاس قُوّتِ نفاذ اور قوّت اجرا نہیں ہوتی۔ وہ فقط حُکمِ الہیٰ کو بیان کرتے ہیں، تاکہ لوگ اس پر عمل کریں، لیکن وہ حکمِ الہیٰ کے مطابق کسی کو سزا نہیں دے سکتے، کوڑے نہیں مار سکتے یا پابندِ سلاسل نہیں کرسکتے۔ مجتہدین اور مراجع کرام کا مسائل بیان کرنا معاشرے کیلئے ضروری ہے، لیکن کافی نہیں۔ اس سے مجرمین اپنے کیفرِ کردار تک نہیں پہنچتے۔ پس معاشرے کو ضرورت ہے ایسے فقیہ کی کہ جس کے پاس قوّتِ نفاذ ہو، تاکہ وہ مطیع افراد کو رُشد، ایوارڈ اور انعام جبکہ مجرمین کا تعاقب کرکے اُنہیں سزا دے سکے۔

واضح رہے کہ قوّتِ نفاذ سے مراد یہ ہے کہ پارلیمنٹ، عدلیہ اور حکومت اس کے ماتحت ہو۔ ایک ولی فقیہ کا دائرہ کار ایک مرجع تقلید سے سو فیصد مختلف ہے۔ مقلد کسی بھی وقت ایک مرجع تقلید کی طرف سے دوسرے مرجع تقلید کی طرف رجوع کرسکتا ہے، اسی طرح ایک شہر یا ایک ملک میں ایک ہی وقت میں کئی مجتہد اور مراجع تقلید ہوسکتے ہیں اور وہ آپس میں اختلاف بھی کرسکتے ہیں، لیکن یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک حکومت، ایک پارلیمنٹ اور ایک عدلیہ کے بیک وقت کئی سربراہ ہوں، اس طرح کوئی بھی ملک اور معاشرہ نہیں چل سکتا۔ پس ایک ملک میں کئی مجتہد اور مراجع کرام پائے جا سکتے ہیں، لیکن ولی فقیہ فقط ایک ہی ہوگا۔

ولی فقیہ ایک مرجع تقلید کی مانند فقط فتویٰ دینے تک محدود نہیں بلکہ ملکی اداروں کے نظم و نسق اور ان کی مدیریت کرنے کے ساتھ ساتھ ریاستی اداروں کے وسیلے سے ملک میں بھرپور طریقے سے قوانینِ الہیٰ کا اجرا کرنا اُس کی مسئولیّت ہے۔ پس کسی ملک کی پارلیمنٹ، عدلیہ اور حکومت کی اطاعت، مرجعِ تقلید بننے کیلئے ضروری نہیں۔ کوئی اطاعت کرے یا نہ کرے، مرجع تقلید اپنی جگہ پر مرجعِ تقلید ہے، لیکن ولی فقیہ کیلئے پارلیمنٹ، عدلیہ اور حکومت کا ولی فقیہ کا مطیع ہونا ضروری ہے۔ پارلیمنٹ، عدلیہ اور حکومت کی اطاعت کے بغیر ولی فقیہ کا تصوّر ہی نہیں۔ ولی فقیہ کوئی کاغذی یا برائے نام منصب نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں ملک کی الہیٰ مدیریّت اور معاشرے کو الہیٰ قوانین پر چلانے کا نام ہے۔

ایک کُلّی فتوے کے ساتھ لوگوں کی ہدایت اور رہنمائی کرنا، یہ مرجع تقلید کا کام ہے۔ اس کے بعد لوگ مرجع تقلید کی ہدایت اور فتوے پر عمل کرتے ہیں یا نہیں، یہ لوگوں پر منحصر ہے، اس کی ذمہ داری مرجعِ تقلید پر نہیں۔ مرجعِ تقلید ایک حُکم کُلّی دیتا ہے، جسے فتویٰ کہتے ہیں۔ مثلاً مرجع تقلید فقط یہ فتویٰ دیتا ہے کہ شراب پینا حرام ہے۔ اب لوگ شراب پئیں یا چھوڑ دیں، اس کی مرجعِ تقلید پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی، لیکن ولی فقیہ شرابی کو طبقِ قوانینِ الہیٰ سزا دے گا، یہ ولی فقیہ کی مسئولیّت ہے۔

اسی طرح حالتِ جنگ میں مرجع تقلید یہ فتویٰ دے گا کہ جب کسی اسلامی ملک پر حملہ ہو جائے تو دفاع واجب ہے۔ اب لوگ دفاع کیلئے جائیں یا نہ جائیں، اس کا کوئی تعلق مرجع تقلید سے نہیں۔ لیکن ولی فقیہ جب یہ تشخیص دے گا کہ دفاع واجب ہے تو وہ مرجع تقلید کی مانند صرف فتویٰ نہیں دے گا بلکہ جہاد کا حکم صادر کرے گا۔ ولی فقیہ کا یہ حکم ساری ریاست کے ہر فرد اور حکومت کے ہر ادارے پر نافذ ہوگا۔ ریاست کا کوئی ادارہ یا شخص یہ نہیں کہہ سکے گا کہ میں کسی اور مرجعِ تقلید کی تقلید کرتا ہوں، اس لئے جہاد کیلئے نہیں جاوں گا۔ یہ مرجعِ تقلید اور تقلید کا باب ہی نہیں، یہ ولی فقیہ کا باب ہے، جو سیاسی و ریاستی نظم و نسق سے تعلق رکھتا ہے۔ اگر ولی فقیہ کے حکم جہاد کے بعد ریاست کا کوئی ادارہ اس حکم سے سرتابی کرتا ہے تو اُس کا حساب کسی مرجع تقلید کی تقلید تبدیل کرنے والا نہیں ہے بلکہ اسے ایسا کرنے پر سزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ہم نے اپنے مطالعات کا خلاصہ انتہائی سلیس انداز میں اپنے قارئین کیلئے پیش کر دیا ہے۔ آگے چل کر یہ مباحث اُس وقت عملی طور پر ثمر آور ہوسکتی ہیں کہ جب حکم اور فتوے، ملزم اور مجرم، مجرم اور گنہگار، دین اور شریعت، اسلام اور الحاد، ریاست اور معاشرے، قانون سازی اور ادلہ اربعہ سے کشفِ قانون، عام مقننہ اور مسلمان مقننہ کی شرعی حدود، عام جج اور مسلمان قاضی کے شرعی اختیارات، جہادِ ابتدائی اور جہادِ دفاعی، اسلامی جمہوریت اور مسلمان بادشاہت، نیز تھیوکریسی اور ولایت فقیہ کے فرق کو عام فہم انداز میں بیان کیا جائے۔ اسی کا نام سیاسی شعور ہے اور اسی کی ہمارے وطنِ عزیز میں انتہائی کمی ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button