مقبوضہ فلسطین

فلسطینیوں نے خون کے بدلے خون کا اصول اپنا لیا، دانشور بین مناچم

شیعیت نیوز: اسرائیلی مصنف اور سیاسی تجزیہ کار یونی بین مناچم نے کہا ہے کہ حوارہ فائرنگ کیس اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ کارروائیاں ایک خاص ایجنڈے کا حصہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حالیہ مزاحمتی کارروائیوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ فلسطینیوں نے خون کے بدلے خون کا اصول اپنا لیا ہے۔

اسرائیلی دانشور نے اپنے ایک تازہ مضمون مین لکھا ہے کہ فلسطینیوں نے ایک نیا جنگی حربہ اختیار کیا ہے۔ یہ حربہ ’’خون کے بدلے خون‘‘ کا ہے، جس کا مطلب ہے کہ فوجی دستوں کے ہاتھوں کسی بھی فلسطینی کے قتل کے جواب میں اسرائیلی فوجیوں اور آباد کاروں کا قتل کیا جائے گا۔ان کا یہ مضمون ’’عکا‘‘ ویب سائٹ کے برائے اسرائیلی امور صفحے پر شائع ہوا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ فلسطین کی کارروائیاں ’’اسرائیل‘‘ کے ایجنڈے میں شامل ہیں، جہاں شمالی مغربی کنارے میں سکیورٹی کی صورت حال ابتر ہوتی جا رہی ہے اور مزاحمت ماہ رمضان سے پہلے اپنا ایجنڈا مسلط کرتی دکھائی دیتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ قابض اسرائیلی فوج کو پہل کرنی چاہیے اور شمالی مغربی کنارے میں مسلح گروہوں کے خلاف بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن شروع کرنا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں : ایران اور آئی اے ای اے کے درمیان متنازعہ مسئلہ حل ہو گیا، محمد اسلامی

مسٹر بین مناچم نے نشاندہی کی کہ حوارہ کے قریب سیکڑوں فوجی اور آباد کار رہتے ہیں اور وہ دن میں زیادہ تر گاڑیوں سے بھری سڑک پر ایک فلسطینی گاؤں سے گزرتے ہیں اور یہ اس سے گزرنے والے کسی بھی اسرائیلی کے لیے موت کا جال بن سکتا ہے۔ اس لیے پہلی بات یہ ہے کہ حملے کے لیے اس راستے پر اسرائیلیوں کی طرف سے چلائی جانے والی گاڑیوں کی نقل و حرکت کے حوالے سے ٹریفک کے انداز کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

بین مناچم نے اس بات پر زور دیا کہ ’’فلسطینی کارروائیوں کے بنیادی ڈھانچے کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا، یعنی نابلس اور جنین کے علاقوں پر عارضی طور پر قبضہ کرنا، عسکریت پسندوں کو ختم کرنا اور ان کے بنیادی ڈھانچے کو ختم کرنا ضروری ہے۔‘‘

انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ حوارہ میں فائرنگ کے وقت اور 2 آباد کاروں کی ہلاکت کا مقصد اردن کی عقبہ میں ہونے والے سکیورٹی اجلاس کو یہ پیغام دینا تھا کہ فلسطینی اتھارٹی کا اب زمین پر کنٹرول نہیں ہے اور مزاحمت کار جو چاہتے ہیں کرتے ہیں۔

اسرائیل براڈکاسٹنگ کارپوریشن کے ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر فائز رہنے والے بین مناچم نے کہا کہ یہ کارروائی فلسطینی اتھارٹی اور عقبہ میں اجلاس کے انعقاد میں شامل ہر فرد کے منہ پر طمانچہ ہے۔ اس اجلاس نے مردہ بچے کو جنم دیا ہے۔

بین مناچم نے کہا کہ وہ (فلسطینی مزاحمت کار) یوکرین پر روسی فوجی حملے اور اس کے نتائج کے معاملے پر دنیا کی توجہ کے باوجود فلسطینی کاز کو بین الاقوامی ایجنڈے میں سرفہرست رکھنے کے لیے مغربی کنارے میں اپنے آپریشنز کے ذریعے کوشش کر رہے ہیں۔

دریں اثنا عبرانی اخبار’یدیعوت احرونوت‘ نے کل منگل کو ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ اسرائیلی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کو فلسطینی کارروائیوں کی بڑھتی ہوئی لہر سے نمٹنے میں بڑی مشکل کا سامنا ہے اور سکیورٹی اداروں کو درپیش چیلنجز مزید پیچیدہ ہوتے جارہے ہیں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button