دنیا

امریکی پالیسی آئی اے ای اے کی ایران کے جوہری پروگرام کی نگرانی کو کم کرنے کی وجہ ہے

شیعیت نیوز: ویانا میں پابندیاں ہٹانے کے لیے ہونے والے مذاکرات میں روسی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ نے آج ایک ٹویٹ میں ایران کے جوہری پروگرام پر بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کی نگرانی میں کمی کی وجہ امریکی پالیسی کو قرار دیا۔

میخائیل اولیانوف نے CNN کے رافیل گروسی کے ساتھ انٹرویو کا ایک حصہ دوبارہ شائع کرتے ہوئے لکھا ہے کہ امریکی پالیسی کی وجہ سے ایران کے جوہری پروگرام پر ایجنسی کی نگرانی کی سطح میں کمی آئی ہے اور اس معاملے کو "ناقابل تردید حقائق” سے ثابت کیا جا سکتا ہے۔

دریں اثناء رافیل گروسی نے سی این این کے کرسچن امان پور پروگرام کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ایجنسی کی ایران کے جوہری پروگرام کی نگرانی میں کمی آئی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ صورتحال مزید پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے۔

اس سال جون میں، کونسل آف گورنرز کی ایران مخالف قرارداد کی منظوری کے بعد، ایران نے ایجنسی کے ساتھ کچھ تعاون روک دیا، جو کہ تحفظات سے بالاتر تھا اور صرف خیر سگالی کی بنیاد پر کیا گیا تھا۔

ہمارے ملک کی اٹامک انرجی آرگنائزیشن کے سربراہ محمد اسلمی نے اس لنک میں کہا ہے کہ کیمروں کی ریکارڈ شدہ تصاویر تک بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کی رسائی JCPOA کی قسمت پر منحصر ہے۔

یہ بھی پڑھیں : ناجائز اسرائیل ریاست کے گوداموں سے یوکرین کو امریکی فوجی امداد

دوسری جانب امریکہ میں روسی سفیر آنتونوف نے کہا ہے کہ امریکی وزارت خارجہ کریمیہ کے بارے میں اشتعال انگیز بیان دے کر یوکرینی حکام کو روس میں دہشت گردانہ اقدامات کی ترغیب دلا رہی ہے۔

تاس نیوز کے مطابق واشنگٹن میں روسی سفیر آناتولی آنتونوف سے جب واشنگٹن میں پوچھا گیا کہ وہ یوکرینی افواج کی جانب سے امریکی ہتھیاروں سے کریمیہ جزیرے پر حملے کے بارے میں کیا کہتے ہیں تو روسی سفیر نے کہا کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ امریکی حکام کی لفاظی ہر گزرتے دن جارحانہ ہوتی جا رہی ہے۔

روسی سفیر نے کہا کہ امریکی وزارت خارجہ کا یہ بیان کہ جزیرہ کریمیہ یوکرین کی ملکیت ہے اور یوکرینی فوج کو اجازت ہے کہ وہ اپنی سرزمین کی حفاظت کے لئےامریکی ہتھیاراستعمال کرسکتی ہیں، دراصل یہ کی ایف حکومت کو روس میں دہشت گردانہ حملے کرنے کی ترغیب اور دباؤ ڈالنے کے کوششیں ہیں۔

آناتولی آنتونوف نے مزید کہا کہ امریکی وزارت خارجہ کی جانب سے ایسے بیانات سے کی ایف میں دہشت گردوں کو حوصلہ ملے گا اور اس سے جنگ کا خطرہ مزید بڑھ جائے گا۔

متعلقہ مضامین

Back to top button