اہم ترین خبریںمقالہ جات

روس اور یوکرائن کے درمیان جنگ، وجوہات اور اہدافات

اس بارے میں آج ہی کریملن نے ایک بیانیہ جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے: "روس یوکرین سے مذاکرات اور بات چیت کیلئے تیار ہے

شیعیت نیوز: یوکرائن میں بحران کی ابتدا سے ہی ماسکو اس بات پر زور دے چکا ہے کہ وہ جنگ کے درپے نہیں لیکن مغربی ممالک سے یوکرائن سے متعلق اپنے سکیورٹی تحفظات دور کرنے کا پرزور مطالبہ کرتا ہے۔ روس کا سب سے بڑا مطالبہ یہ ہے کہ مغربی فوجی اتحاد "نیٹو” سرد جنگ کے بعد 1997ء میں اپنے کئے گئے وعدوں کی پابندی کرے۔ یہ وعدے مغربی فوجی اتحاد نیٹو کو مشرق اور روس کے سرحدی علاقوں کی جانب نہ پھیلانے پر مشتمل تھے۔ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے تین دن پہلے اپنی تقریر میں مشرقی یوکرائن کی نئی ریاستوں دونتیسک اور لوہانسک کی خودمختاری تسلیم کرتے ہوئے کہا تھا: "آج یہ سمجھنے کیلئے کہ مغربی ممالک نے مشرق کی جانب نیٹو کو وسعت نہ دینے کے وعدے پر کس حد تک عمل کیا ہے، نقشے پر ایک نظر ڈالنا ہی کافی ہے۔ ہم نیٹو کے پھیلاو پر مبنی مسلسل پانچ لہروں کا مشاہدہ کر چکے ہیں۔”

انہوں نے مزید وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ 1999ء میں پولینڈ، جمہوریہ چیک اور ہنگری، 2004ء میں بلغاریہ، ایسٹونیا، لیتھوانیا، رومانیہ، اسلوواکیہ اور اسلووانیہ، 2009ء میں البانیہ اور کروشیا، 2017ء میں مونٹی نیگرو اور 2020ء میں شمالی مقدونیہ کو فوجی اتحاد نیٹو میں باقاعدہ رکنیت دے دی گئی۔ اب اس وعدہ شکنی کو جاری رکھتے ہوئے، نیٹو یوکرائنکو بھی اپنی رکنیت دینے کی کوشش میں مصروف ہے۔ اس اقدام کا نتیجہ مغربی فوجی اتحاد نیٹو کے فوجی سامان اور فورسز کا روس کی سرحد کے ساتھ تعیناتی کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ یوں پوٹن حکومت کے گھیراو اور اسے کنٹرول کرنے کا منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچ جائے گا۔ نیٹو میں یوکرین اور جارجیہ کی رکنیت روس کی ریڈ لائن ہے کیونکہ یوں اس کی قومی سلامتی براہ راست خطرے سے روبرو ہو جاتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا نے ماضی سے سبق نہیں سیکھا اور ایک اور جال میں پھنس گیا،صدر مملکت عارف علوی

اپنی خودمختاری کا اعلان کرنے والی مشرقی یوکرین کی دو ریاستوں دونتیسک اور لوہانسک کے سربراہان مملکت بارہا روس سے یوکرین کے مقابلے میں اپنی مدد کرنے کی اپیل کر چکے تھے۔ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اب تک مینسک معاہدے پر اعتماد کا اظہار کر چکے تھے۔ یہ معاہدہ نئی خودمختار ریاستوں اور یوکرین کے درمیان انجام پایا تھا اور اس میں جنگ بندی پر زور دیا گیا تھا۔ لیکن حال ہی میں یوکرین کی جانب سے جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کا مشاہدہ کیا جا رہا تھا۔ لہذا روسی صدر نے ان ریاستوں میں فوجی بھیجنے کا حکم جاری کر دیا۔ ان کی نظر میں دونتیسک اور لوہانسک میں مقیم روس نژاد باشندوں کی جانیں خطرے میں تھیں اور یوکرین ان علاقوں میں ان کی نسل کشی کرنے میں مصروف تھا۔

جیسا کہ چینی حکام نے بھی واضح کیا ہے، یوکرائن کے خلاف روس کی فوجی کاروائی کو جارحیت قرار نہیں دیا جا سکتا۔ دوسری طرف مغربی میڈیا اسے فوجی جارحیت قرار دینے کی بھرپور کوشش میں مصروف ہے۔ اس کی ایک دلیل یہ ہے کہ روس کی مسلح افواج صرف نئی خودمختار ریاستوں دونتیسک اور لوہانسک تک ہی آگے بڑھی ہیں۔ دونتیسک اور لوہانسک کے سیاسی رہنماوں کی جانب سے روس کو اپنے دفاع کی دعوت دی گئی ہے جس کی روشنی میں وہاں روسی افواج کی موجودگی مکمل طور پر قانونی اور بین الاقوامی قوانین کے مطابق ہے۔ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اپنی تقریر میں واضح کر چکے ہیں کہ یوکرین کے خلاف فوجی کاروائی کا مقصد یوکرین پر فوجی قبضہ کرنا نہیں بلکہ یوکرین کی فوجی طاقت ختم کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مغربی ممالک اور نیٹو نے ان کے سامنے اس کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں چھوڑا۔

یہ بھی پڑھیں: امریکہ نے یوکرین کو اپنی جغرافیائی سیاسی کارروائیوں کا آلہ کار بنا دیا، ڈاکٹر عمار قانہ

اس بارے میں آج ہی کریملن نے ایک بیانیہ جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے: "روس یوکرین سے مذاکرات اور بات چیت کیلئے تیار ہے۔ اس کی صرف ایک شرط ہے کہ کیف غیر جانبدار رہے اور اپنے ملک میں نیٹو کی فوجی تنصیبات نصب ہونے کی اجازت نہ دے۔ ہمارا اصل مقصد کیف کی فوجی صلاحیتوں کا خاتمہ ہے کیونکہ موجودہ حالات میں یوکرین ہماری قومی سلامتی کیلئے خطرہ بن چکا ہے۔ اگر یوکرین ہمارا یہ مطالبہ قبول نہیں کرتا تو ایسی صورت میں اسے بھرپور جنگ کا سامنا کرنا پڑے گا اور ہماری زمینی افواج کیف پر قبضہ کر کے وہاں کی موجودہ حکومت کا تختہ الٹ دیں گی۔” یہاں یہ اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ مغربی فوجی اتحاد نیٹو کا یوکرین کے خلاف روس کی اس فوجی کاروائی پر ممکنہ ردعمل کیا ہو گا؟ کیا نیٹو اس جنگ میں شریک ہو گا یا نہیں؟

نیٹو نے اعلان کیا ہے کہ وہ یوکرین فوجی بھیجنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ یوکرین کے خلاف روس کی فوجی کاروائی کے آغاز سے پہلے تک یورپی یونین نے فوجی مشیر یوکرین بھیجنے پر اتفاق کیا تھا لیکن انہیں اس کا موقع نہ مل سکا۔ برطانیہ نے بھی گذشتہ چند ہفتوں کے دوران یوکرین کو کچھ تعداد میں ٹینک فراہم کئے اور ان کی ٹریننگ کیلئے فوجی مشیر بھی بھیجے لیکن ساتھ ہی اس بات پر بھی زور دیا کہ اس کے فوجی وہاں زیادہ عرصہ نہیں رکیں گے۔ نیٹو اتحاد کا سربراہ ہونے کے ناطے امریکہ بھی اعلان کر چکا ہے کہ وہ یوکرین اور روس کے درمیان جاری فوجی تنازع میں شامل نہیں ہو گا اور صرف روس کے خلاف پابندیاں عائد کرنے تک محدود رہے گا۔ نیٹو ماضی کی طرح مشرقی یورپ میں اپنی فوجی پوزیشن مضبوط بنانے میں مصروف ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ روس یوکرین کی مغرب نواز حکومت کا تختہ الٹ کر ہی رہے گا۔

تحریر: تحریر: مریم خرمائی

متعلقہ مضامین

Back to top button