شہید قاسم سلیمانی (SQS)عراق

شہید قاسم سلیمانی کی شب شہادت سے متعلق سابق عراقی وزیر اعظم عادل عبدالمہدی کی یادیں

شیعیت نیوز: سابق عراقی وزیر اعظم اور شہید جنرل قاسم سلیمانی کے آخری میزبان عادل عبدالمہدی نے مزاحمتی محاذ کے شہید کمانڈروں کی دوسری برسی کے حوالے سے ایرانی خبررساں ایجنسی فارس نیوز کو دیئے گئے اپنے انٹرویو میں شہید جنرل قاسم سلیمانی کی حاج ابومہدی المہندس اور رفقاء سمیت شہادت کی شب پیش آنے والے واقعات سے پردہ اٹھایا ہے۔

عادل عبدالمہدی نے اپنے گفتگو کے آغاز میں شہید جنرل قاسم سلیمانی کے ساتھ اپنے دوستانہ تعلقات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کے ساتھ میرا تعلق سال 2000ء سے شروع ہوا جب وہ آیت اللہ شہید محمد باقر حکیم کے دفتر میں آیا کرتے اور عراق سمیت پورے خطے کے حالات پر ہمارے ساتھ متعدد جلسات منعقد کیا کرتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ وہیں سے شہید قاسم سلیمانی کے ساتھ میرے تعلقات مستحکم ہوئے خصوصا خطے کے بڑے اور اہم مسائل میں.. جبکہ یہ تعلقات صدام کی سرنگونی اور ان کی شہادت تک برقرار رہے۔ انہوں ںے کہا کہ شہید ایک انتہائی دوراندیش شخص تھے اور ہمیشہ مسائل کو تزویراتی نگاہ سے دیکھتے اور اپنی تحلیل میں ہر مثبت و منفی نکتے کا ذکر کرتے۔

سابق عراقی وزیر اعظم نے کہا کہ جب میں تہران میں تھا تو ہم گھنٹوں کوہ پیمائی کرتے اور اسی دوران عراق کے سیاسی مسائل پر بھی گفتگو کرتے.. پھر سال 2003ء سے لے کر داعش کے نفوذ تک، وہ ہمیشہ عراق کی مدد کیا کرتے جبکہ ایران و عراق کے درمیان انجام پانے والے ہر مذاکرے میں ان کا مشورہ اہم ہوا کرتا تھا۔

یہ بھی پڑھیں : شہید سلیمانی کا طرز زندگی آئندہ نسلوں کے لئے ایک بڑا درس اور نمونہ عمل ہے، جنرل باقری

عادل عبدالمہدی نے شہید قاسم سلیمانی کی شب شہادت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایرانی سفارت خانے کے ساتھ ہونے والی ہم آہنگی کے مطابق اسی صبح 8 بجکر 30 منٹ پر میں بغداد میں ان کا میزبان تھا اور ہم نے اکٹھے ناشتہ کرنا اور اسی دوران مختلف موضوعات پر گفتگو بھی کرنا تھی۔

انہوں نے کہا کہ میں آدھی رات تک صبح کی ملاقات کے لئے مختلف اہم نکات کی جمع آوری میں لگا رہا کہ اچانک ہی میرا دفتر سیکرٹری آیا اور انتہائی سراسیمگی کے عالم میں کہنے لگا: انٹیلیجنس چیف (مصطفی الکاظمی جو اس وقت وزیر اعظم ہیں) نے خبر دی ہے کہ بغداد کی ایئرپورٹ میں ایک مہیب دھماکا ہوا ہے جبکہ اس کی ماہیت کے بارے ابھی کچھ معلوم نہیں.. میں پریشان ہو گیا گو کہ نہیں جانتا تھا کہ جنرل قاسم سلیمانی کس سرحد سے ملک میں داخل ہو کر بغداد پہنچیں گے، زمینی سے یا ہوائی سے.. لیکن میرے دل میں ایک دھڑکا لگا ہوا تھا کیونکہ میں جان چکا تھا کہ کچھ دیر قبل ہی دمشق سے آنے والی ایک پرواز بغداد ایئرپورٹ پر لینڈ ہوئی تھی..

عادل عبدالمہدی نے اس رات ایرانی سفارتخانے کے ساتھ اپنے ٹیلیفونک رابطے اور حکام میں سے کسی کے بھی مطلع نہ ہونے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ پھر میں اپنے دفتر میں لوٹ آیا اور لمحہ بہ لمحہ ایئرپورٹ کے حالات کا جائز لیتا رہا۔

انہوں نے کہا کہ حادثے کی تصاویر یکے بعد دیگرے شائع ہو رہی تھیں تا اینکہ میں نے اچانک ہی شہید قاسم سلیمانی کا ہاتھ اور ان کی انگوٹھی دیکھ لی اور پھر مجھے پتہ چلا کہ جنرل قاسم سلیمانی کو حاج ابومہدی المہندس کے ہمراہ نشانہ بنایا گیا ہے۔

سابق عراقی وزیر اعظم نے کہا کہ وقوعے کے بعد مصطفی الکاظمی اور عراق میں ایرانی سفارت خانے کا عملہ فورا ہی میرے دفتر میں پہنچ گیا اور ہم نے ایک ہنگامی جلسہ منعقد کر کے اس ٹارگٹ کلنگ کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس رات میں صبح تک جاگتا رہا جبکہ امریکیوں نے مقامی وقت کے مطابق صبح 6 بجے اعلان کیا کہ وہ خود ٹارگٹ کلنگ کی اس کارروائی میں ملوث تھے۔

یہ بھی پڑھیں : جنرل قاسم سلیمانی کے قتل سے عالمی سلامتی کمزور ہوئی، امریکی مصنف رابرٹ فانٹینا

انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ فرطِ جذبات اور غم و اندوہ کے باعث انہوں نے امریکیوں کی جانب سے کئے جانے والے تمام رابطوں کو کاٹ دیا تھا کہا کہ وائٹ ہاؤں، امریکی وزارت خارجہ اور حتی امریکی وزیر دفاع نے بھی مجھ سے بات چیت کرنے کی کوشش کی لیکن میں نے قبول نہ کیا.. کیونکہ میں ان کی جانب سے پیٹھ میں گھونپے جانے والے خنجر کو ہرگز قبول نہیں کر سکتا تھا.. کیونکہ جب امریکی صدر سرکاری سطح پر کہتا ہے کہ اس نے ایرانی و عراقی اعلی فوجی شخصیات کو نشانہ بنایا ہے تو یہ حقیقی طور پر ایک عظیم جرم ہے..!

عادل عبدالمہدی نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ اس وقت امریکیوں کے رابطے کا جواب دینا، ان کے ساتھ اس عظیم جرم میں شریک ہونے کے مترادف تھا کہا کہ ہم نے سلامتی کونسل میں شکایت کی اور ایرانی ماہرین کے ساتھ مل کر کئی ایک خصوصی گروہ تشکیل دیئے.. یہ جرم چھپائے جانے کے قابل نہیں.. خصوصا اس وقت جب قاتل، خود اعلی ترین رتبے پر اس ٹارگٹ کلنگ کا اعتراف کر رہا ہے.. امریکیوں کا یہ اقدام ایک سنگین جرم ہے.. اب بھی جب کبھی کبھار جوبائیڈن کو ہم یہ کہتے ہوئے سنتے ہیں کہ وہ ٹرمپ کے اس اقدام کا مخالف ہے تو چونکہ یہ امریکہ کا ایک حکومتی اقدام تھا، لہٰذا وہ اس کے خلاف کوئی اعتراض نہیں کر سکتا.. ہمیں حقیقت کو یونہی بیان کرنا چاہئے کہ جیسے وہ ہے.. ان کا جرم ایک حقیقی جرم ہے!

متعلقہ مضامین

Back to top button