اہم ترین خبریںپاکستان

22ذوالحجہ شہادت جناب میثم تمار

شیعیت نیوز : سالم نامی ایک عجمی شخص غلام بن کر کوفہ کی عورت کے پاس پہنچا تو اس کی فصاحت و بلاغت اور علم دوستی نے اسے بہت جلد مشہور کردیا، امام علیؑ نے اسے کوفی عورت سے خرید کر آزاد کردیا، آپ نے جب اس سے نام پوچھا تو اس نے کہا میرا نام سالم ہے، امامؑ نے فرمایا مجھے میرے آقا رسولِ اکرمؐ نے خبر دی ہے کہ تمہارے والدین نے تمہارا نام میثم رکھا ہے، تو سالم یعنی میثم نے اپنے نام کی تصدیق کردی، اس کے بعد میثم نے کوفہ میں کھجوروں کا کاروبار شروع کیا تو مشہور ہوگئے میثمِ تمار اسدی کوفی۔

میثمِ تمار کو تین آئمہِ اہل بیتؑ امام علیؑ، حسنؑ و حسینؑ کے صحابی ہونے کا شرف حاصل ہے، آپ امام علیؑ کے قریب ترین اصحاب میں سے تھے، آپ کو امام علیؑ نے بہت سے پوشیدہ علوم سے فیض یاب کیا، میثم تمار کوفہ میں مشہور خطیب کے طور پر بھی مشہور تھے، میثمِ تمار کی پیشن گوئیاں ہمیشہ سچی ثابت ہوتی تھیں، آپ نے مکہ کی ایک عورت کو امام حسینؑ کی شہادت کی پیش گوئی کی جو کہ سچ ثابت ہوئی اس کے علاوہ امیر شام کی وفات اور مختار ثقفی کی قید سے رہائی اور حکومت کرنا بھی مشہور پیشین گوئیوں میں سے ہیں۔

جنابِ اُمِ سلمہ فرماتی تھیں کہ رسولِ اکرمؐ اپنی حیات مبارکہ میں میثم کو بہت اچھے الفاظ سے یاد کیا کرتے تھے۔ایک دن میثم امام علیؑ کے ساتھ جارہے تھے کہ ایک کھجور کے درخت کے پاس امام رُک گئے اور میثم کو درخت کی جانب اشارہ کرکے فرمایا میثم اس درخت پر تمہیں میری محبت میں لٹکایا جائے گا اور تمہارے ہاتھ پیر اور زبان کاٹ دی جائے گی، اس کے بعد میثم اس درخت کے پاس جاکر نماز پڑھا کرتے تھے اور اس کھجور کے درخت کے ساتھ باتیں کیا کرتے تھے۔

یہ بھی پڑھیں حکمران سن لیں، پاکستان کو طالبانی تفکر کی آماجگاہ نہیں بننے دیں گے، سید ناصر شیرازی

میثم علومِ آلِ محمدؑ پر مشتمل بہت ساری کتب کے مصنف بھی تھے، آپ امام حسینؑ کی مکہ آمد سے قبل کوفہ سے مکہ عمرہ کے لئے گئے تو حضرت عبداللہ بن عباس سے ملاقات ہوئی اور انہیں بتایا کہ وہ قرآنی تفاسیر جانتے ہیں اور بہت ساری احادیث جو امام علیؑ سے مروی ہیں ان کا بھی علم رکھتے ہیں، عبداللہ بن عباسؓ نے کاغذ قلم منگوا کر میثم سے تمام روایات لکھ لیں، جب میثم نے آپ کو اپنی موت کی خبر دی تو عبداللہ بن عباسؓ نے سمجھا شاید آپ غلط بیانی کر رہے ہیں تو انہوں نے وہ لکھا ہوا سب پھاڑنا چاہا میثم نے آپ کو روک دیا اور کہا اگر چند دن بعد میری یہ بات سچی ثابت ہوگئی تو یہ روایات سنبھال لینا ورنہ پھاڑ دینا۔

ابن زیاد جب یزید کے حکم پر کوفہ کا گورنر بنا تو آہستہ آہستہ تمام شیعانِ علیؑ کو گرفتار کرنا شروع کردیا، ان افراد میں میثم بھی شام تھے جب کہ مختار ثقفی کو بھی قید خانہ میں ڈال دیا گیا تھا، ابن زیاد نے جب میثم کو گرفتار کروا کے دربار بلوایا تو میثم کی فصاحت و بلاغت سے بہت متاثر ہوا جب میثم نے ابن زیاد کو امام علیؑ کی طرف سے ملنے والی موت کی خبر سنائی تو ابن زیاد زور سے ہنسا اور کہا میں اس بات کو جھوٹا ثابت کروں گا، میں تمہیں سولی چڑھاوں گا مگر ہاتھ پاوں اور زبان نہیں کاٹوں گا، میثم کو اسی کھجور کے درخت پر لٹکا دیا گیا جس کے بارے امام علیؑ بتلا گئے تھے، میثم نے زور زور سے چلانا شروع کردیا اور لوگوں کو پکار کر کہا لوگو آو میرے قریب آو میں تمہیں اہل بیتؑ اطہار کی وہ پوشیدہ احادیث سناتا ہوں جو راویوں نے تم سے چھپا دی تھیں، لوگ جمع ہونا شروع ہوگئے اور میثم تمار نے آلِ رسولؐ کی شان میں احادیث بیان کرنا شروع کردیں یہ دیکھ کر سپاہیوں نے ابن زیاد کو خبر دی تو ابن زیاد نے غصے میں آکر حکم دیا کہ اس کے ہاتھ پیر اور زبان کاٹ ڈالو، زبان کٹوانے سے پہلے میثم نے اپنے آقا و مولا علی ابن ابی طالبؑ کی خبر کو سچا ثابت ہونے پہ شکر ادا کیا، ہاتھ، پاوں اور زبان کٹنے کے بعد جنابِ میثمِ تمار شہادت نوش فرما گئے۔

آپ کی لاش کو وہیں لٹکے رہنے دیا گیا اور پھر رات کی تاریکی میں چند کھجور فروشوں نے درخت سے آپ کی لاش کو اتار کر مسجدِ کوفہ کے سامنے دفن کردیا جہاں آج تک آپ آرام فرما رہے ہیں۔

جنابِ میثمِ تمار جانیں
علیؑ کے نام کا کیا ذائقہ ہے

متعلقہ مضامین

یہ بھی ملاحظہ کریں
Close
Back to top button