اہم ترین خبریںمقالہ جات

غزہ والوں کی مقاومت اور استقامت میں صاحبان عقل کے لئے نشانیاں ہیں

اس وقت ہر وہ فلسطینی خراج تحسین کا مستحق ہے، جو میدان جہاد میں کھڑا ہوکر صہیونیوں کو شکست کے مزے، اور ذلت کے کڑوے گھونٹ پلا رہا ہے، خدا سب کا حامی و ناصر ہو۔

شیعیت نیوز: غزہ پر ایک ہفتے سے صہیونی فوج کی جارحیت جاری ہے، جس کی وجہ سے اب تک سینکڑوں فلسطینی جام شہادت نوش کر چکے ہیں، جن میں چھوٹے معصوم بچے، عورتیں، اور عمر رسید افراد بھی شامل ہیں، اس جارحیت کے مقابلے میں فلسطینی عوام کی استقامت اور خصوصا غزہ میں مقیم سالوں سے محصور مقاومتی تنظیموں کا رد عمل حیرت کن، اور دندان شکن ہے۔ اس منہ توڑ جواب نے صہیونیوں کے دانت کھٹے کر دیے ہیں، اور ان کے غرور و تکبر اور برتری کے زعم کو باطل قرار دیا ہے، اس استقامت، صبر و تحمل، قربانی و فدا کاری، اور شجاعت و بہادری میں صاحبان فہم و فراست اور عقلمندوں کے لئے کئی حوالوں سے درس و عبرت ہے۔ جسے سمجھنے کی بے حد ضرورت ہے، اس لئے مناسب ہے، کہ اس درس و عبرت پر اختصار لیکن دقت کے ساتھ بحث ہو، کیونکہ یہ ہم سب کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے لئے بہت اہمیت کا حامل ہے۔

اس استقامت کا سب سے پہلا درس یہ ہے، کہ اگرچہ عدد کی کثرت کئی حوالوں سے کسی بھی فوج کے لئے نیک شگون ہے، اور اسی طرح اسلحے کی نوعیت بھی تاثیر رکھتی ہے، لیکن یاد رکھیے، کہ کبھی بھی عدد کی قلت و کثرت، یا اسلحے کی نوعیت فتح و شکت کا تعین نہیں کرتی، کوئی بھی عقلمند اس کا انکار نہیں کرتا، کہ افرادی قوت ضروری ہے، اور یہ جتنی زیادہ ہو، اچھی بات ہے، اور اسی طرح ہر صاحب فہم و فراست اس بات کا ادراک رکھتا ہے، کہ متنوع، جدید، اور اچھی نوعیت کے اسلحے کا حصول جس قدر ممکن ہو ضروری ہے، کیونکہ اس سے فتح و نصرت کا زمانہ مختصر ہو جاتا ہے، اور جانی نقصان کم سے کم ہوتا ہے، لیکن آپ یقین جانیے کہ فتح ونصرت کا انحصار نہ تو کثرت فوج پر ہے، اور نہ ہی اسلحے کی نوعیت پر، بلکہ قرآنی اصول یہ ہے، کہ کئی بار ایسا ہوا ہے، کہ باذن خدا، کم عدد والے گروہ زیادہ عدد والے گروہوں پر غالب آئے ہیں۔

کیونکہ فتح ونصرت اسی کے گرد طواف کرتی ہے، جو حق پر ہو، میدان استقامت میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند ڈٹا ہوا ہو، صبر و تحمل سے آراستہ ہو، اور نصرت حق پر یقین رکھتا ہو، کوئی بھی گروہ اگر ان اوصاف کا حامل ہو، تو پھر عدد کا کم ہونا، یا وسائل کی قلت، اس کی جیت کے سامنے روکاٹ نہیں بنتی، پس اگر دشمن افرادی قوت کے لحاظ سے زیادہ ہو، اور جدید ترین اسلحے سے لیس ہو، لیکن اہل حق نے صبر و استقامت کا مورچہ سنبھالا ہوا ہو، تو یقین رکھیے، ایسا گروہ کبھی شکست نہیں کھاتا۔

باطل کا انحصار ہمیشہ افرادی قوت کی کثرت، اور اسلحے کی نوعیت پر ہوتا ہے، جبکہ اہل حق اگرچہ ان دونوں عوامل کی افادیت سے انکار نہیں کرتے، اور ان کے حصول کے لئے ہمیشہ سرگرم عمل رہتے ہیں، لیکن اہل حق یہ جانتے ہیں، کہ فتح و نصرت کا منبع ذات حق ہے، اس لئے وہ مکمل تیاری کے باوجود بھی بھروسہ صرف اللہ کی ذات پر کرتے ہیں، بقول حکیم شرق رحمہ اللہ کے

اللہ کو پامردی مومن —– پہ بھروسہ
ابلیس کو یورپ کے مشینوں کا سہارا

ایک اور جگہ مجاہد فی سبیل اللہ کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں:

مرد سپاہی ہے وہ، اس کی پناہ لا الہ
سایہ شمشیر میں، اس کی زرہ لا الہ

دوسرا درس یہ ہے، کہ یہ کہنا کہ طاقت و قوت کے اعتبار سے چونکہ دشمن بہت طاقتور ہے، اس لئے استقامت کا کوئی فائدہ نہیں، بالکل بھی درست نہیں، کیونکہ کم وسائل کے باجود محکم منصوبہ بندی، پہلے سے تیاری، اور اللہ کی نصرت پر فتح و یقین رکھتے ہوئے، میدان میں حاضر ہونا، دشمن کے لئے مکمل طور پر میدان خالی چھوڑنے سے کئی گناہ بہتر ہے، دشمن کا ازل سے یہی وتیرہ رہا ہے، کہ وہ اہل حق کے ذہنوں میں یہ تردد پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے، کہ چونکہ اہل حق کم ہیں، اور ان کے پاس وسائل کی کمی ہے، لہذا وہ کچھ بھی نہیں کر سکتے، اور اسی طرح وہ دلوں میں مایوسی پیدا کرتا ہے، اور خوف و رعب پیدا کرنے کی پوری سعی کرتا ہے، لہذا میدان کو خالی چھوڑنا بالکل بھی درست نہیں، حق پرستوں کی کم عدد کے باجود تھوڑی سی استقامت بھی دشمن کی نیندیں اڑا دیتی ہے، غزہ ہی کو دیکھ صہیونی فوج اور غزہ میں موجود مٹھی بھر مجاہدین کا کیا تقابل ہے؟ کوئی موازانہ ہی نہیں، لیکن اس کے باجود غزہ والوں کی استقامت نے صہیونیوں کو سخت پریشان کیا ہوا ہے، کبھی میزائل کی آواز سن کر ساحلوں سے یوں بھاگتے ہیں، جیسے جنگلی گدھے شیر کی دھاڑ سن کر بھاگتے ہیں، کبھی ہوٹلوں سے بھاگتے نظر آتے ہیں، تو کبھی گھروں سے بھاگ کر پناہ گاہوں میں چھپتے ہیں، کچھ تو اتنے شدید خوفزدہ ہیں کہ بھاگتے وقت ان کو یہ احساس بھی نہیں ہوتا، کہ وہ ننگے ہیں، یا کچھ پہنا ہوا ہے۔

لہذا اہل غزہ کی استقامت دلیل ہے، کہ کم تعداد، اور وسائل کی قلت، کی وجہ سے دشمن کے دانت کھٹے کئے جا سکتے ہیں، انہیں پریشان کیا جا سکتا ہے، انہیں یہ سبق دیا جا سکتا ہے، کہ ہمیں مارو گے، تو مار کھاو گے، زخمی کرو گے، زخموں کا تحفہ ملے گا، ہماری عمارتوں کو منہدم کرو گے، تو تمارے شہروں پر بارش کی طرح میزائل برسیں گے، ہماری عوام کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کرو گے، تو تمہاری عوام کی چیخیں پوری دنیا سنے گی، اور ہمارے شہروں کے امن و آمان کو تباہ کرو گے، تو تمہارے شہروں میں وحشت راج کرے گی۔

تیسرا درس یہ ہے، کہ قبلہ اول کی آزادی کا مسئلہ زندہ رکھنا، اس کو اہمیت دینا، اس کی نشر و اشاعت کرنا، اور اس کے لئے کام کرنا بہت سے فوائد سمیت امت مسلمہ میں اتحاد و اتفاق کا باعث ہے، یہ وہ مسئلہ ہے، جو نہ صرف عالم اسلام کے تمام غیرت مندوں کو اکٹھا کر دیتا ہے، بلکہ دنیا کے تمام حریت پسندوں کو ایک خندق میں لا کر کھڑا دیتا ہے، آپ نے دیکھا ہوگا کہ جب سے صہیونی جارحیت کا آغاز ہوا ہے، وقفے وقفے سے دنیا کے مختلف ملکوں میں فلسطینوں کے حق میں مظاہرے ہوئے ہیں، یہ مظاہرے جہاں اسلامی ممالک میں ہوئے ہیں، وہیں یورپی ممالک میں ہوئے ہیں، جو عالم استکبار کی مرضی کے عین مخالف اس بات کی وضاحت کا سبب بنتے ہیں، کہ فلسطین میں صہیونی حکومت ایک دہشت گرد حکومت ہے، یہ نسل پرست سوچ رکھنے والے وحشی لوگ ہیں، انہیں کسی کی پرواہ نہیں، ان کا وجود فلسطین میں بالکل غیر طبیعی ہے، اور جب تک یہ وحشی لوگ یہاں موجود ہے، مشرق وسطی میں کبھی امن و آمان اور استقرار باقی نہیں رہ سکتا، کیونکہ یہ دہشت گرد صہیونی چاہتے ہی نہیں، کہ اس خطے میں استقرار اور استحکام اور پائیدار امن ہو، کیونکہ ایسی صورت میں ان کا وجود باقی نہیں رہتا، اس لئے یہ کبھی دین کے نام پر، تو کبھی نسل پرستی کی وجہ سے اور کبھی رنگ و نسل، قوم و قبیلے، اور فرقہ واریت کو ہوا دے کر اس خطے کی عوام کو آپس میں دست و گریباں کرتے ہیں، آپ یقین جانیے، جب بھی اس غیر طبیعی وجود کا خاتمہ ہوگا، نہ تو شیعہ سنی فسادات ہونگے، نہ ہی کہیں طالبان، داعش، اور القاعدہ جیسی دہشت گرد تنظیموں کا وجود ہوگا، چونکہ ان سب دہشت گردوں کی حمایت عالمی دہشت گرد صہیونی کرتے ہیں۔

لہذا اس ضمن میں عرض یہ ہے، کہ ان حساس دنوں میں جبکہ فلسطین صہیونی فوج کی جارحیت کی زد میں ہے، کوئی بھی ایسی آواز جو فرقہ واریت کو ہوا دے،  ایسی آواز صہیونی آواز شمار ہوگی، کیونکہ ایسے ماحول میں فرقہ واریت کو ہوا دینا مسئلہ فلسطین سے توجہ ہٹانے کے مترادف ہے، لہذا اپنی صفوں میں اتحاد کو برقرار رکھتے ہوئے، صہیونیوں کی سازشوں پہ نظر رکھیں تاکہ ہم ان وحشی، مکار، اور لومڑی صفت دہشت گردوں کے ہاتھوں کا کھلونا نہ بنیں۔

چوتھا درس یہ ہے، کہ حالیہ جارحیت پر اکثر اسلامی ممالک کا شرمسار رد عمل دیکھتے ہوئے، یہ کہنا بیجا نہیں، کہ ان حکمرانوں سے کوئی امید نہ رکھیں، نہ ہی عرب لیگ صہیونیوں کو للکار سکتا ہے، اور نہ ہی OIC، اور نہ ہی ترکی کا صدر رجب طیب اردگان، یہ سارے مل کر بھی صہیونی فوج سے صرف اتنا بھی نہیں کہہ سکتے، کہ جارحیت بند کر دو، ورنہ ہم فسلطینوں کی ہر ممکنہ مدد کریں گے، ابھی تک صہیونی حکومت کا سفارت خانہ، ترکی، اردن، مصر اور چند دیگر ممالک میں کھولا ہے، یہ ممالک کم از کم سفارتی تعلقات تو ختم کر سکتے ہیں، لیکن ان میں یہ جرات کہاں، اور سلام ہو ہمارے بعض ذرائع ابلاغ پر جن میں اردگان کو ایسا پیش کیا جا رہا ہے، کہ بس ابھی یہ صہیونی کو نگل لے، یہ ابھی تک صہیونی سفارت خانہ بند نہیں کر سکا مدد کیا کرے گا۔ لہذا ان جیسے حکمرانوں سے امید رکھنا ایسے ہی ہیں، جیسے کوئی لق دق صحرا میں پانی تلاش کرے، بلکہ ہو سکتا ہے، کہ صحرا میں کہیں پانی مل بھی جائے، لیکن ان میں آپ کو کبھی غیرت نہیں ملے گی، ان تلوں میں تیل نہیں، ان کی جرأت کی تلواریں کند ہو چکی ہیں، اور ان کے ترکش بہادری کے تیروں سے خالی ہو گئے ہیں۔

پانچواں درس یہ ہے، کہ فلسطینیوں کی یہ استقامت، جذبہ شہادت، عزم و حوصلہ، اور شجاعت ہی اس بات کی قوی ضمانت ہے، کہ فلسطین کا مسئلہ نئی نسل میں زندہ رہے، چونکہ اس غاصب وجود کے بانی بن گوریون نے کہا تھا: کہ فلسطین کا مسئلہ کچھ عرصے کے بعد ختم ہو جائے گا، اور مشرق وسطی میں ایک پائدار محکم اور مضبوط صہیونی حکومت باقی رہے گی، کیونکہ اس کے زعم باطل کے مطابق اس نے کہا تھا: کہ سن رسیدہ لوگ مر جائیں گے، اور فلسطین کی نئی نسل بھول جائے گی، کہ ان کا بھی کوئی وطن تھا جس پر  صہیونی نے قبضہ کرکے اپنی حکومت بنائی، پر اس کے خواہش کے عین مخالف اس ناجائز قبضے کو ستر سال سے زائد عرصہ ہو چکا ہے، لیکن اس کے باوجود نئی نسل کے ذہنوں میں یہ مسئلہ ایسے زندہ ہے، جیسے کل ہی صہیونیوں نے اس مقدس جگہ پر قبضہ کیا ہو۔ اور نئی نسل بھی صہیونیوں سے ویسے ہی نفرت کرتی ہے، جیسے اس نسل کے ابا و اجداد کیا کرتے تھے، جنہوں نے اپنی آنکھوں سے فلسطین کو لوٹتے ہوئے دیکھا تھا۔

چھٹا درس یہ ہے، کہ دشمن کے امن و آمان کو ویسے ہی چھینا جا سکتا ہے، جیسے یہ کئی دہائیوں سے فلسطینوں کے امن و امان کو برباد کئے ہوئے ہیں، لہذا اسی تناظر میں غزہ میں مقاومتی تنظیموں نے مقبوضہ فلسطین کے اہم شہروں پر میزائل کی برسات کرکے وہاں موجود آباد کاروں کو یہ پیغام دیا ہے، کہ اب یہ جگہ تم لوگوں کے رہنے کے قابل نہیں رہی، اب تم یہاں امن سے زندگی نہیں گزار سکتے، کیونکہ وہ دن دور نہیں جب محور مقاومت مل کر تمہارے شہروں کو تمہارے لئے جہنم بنا دے گا، جب تم ہمارے میزائلوں کے سامنے نہیں ٹک سکے، تو اس وقت تمہاری کیا حالت ہوگی، جب تمہارے سروں پر، غزہ، لبنان، شام، اور ایران سے بیک وقت میزائل گریں گے، اور جب مجاہدین جلیل میں گھس کر تمہارے فوجیوں کو لوہے کے چنے چبوائیں گے، لہذا تمہاری عافیت اسی میں ہے، کہ مقبوضہ فلسطین چھوڑ کر ادھر ہی واپس چلے جاؤ جہاں سے آئے تھے، یہاں رہو گے، تو بے موت مارے جاؤ گے۔ ابھی تو پھر بھی وقت ہے، کہ تم لوگ فضائی سفر کرو، اور یہاں سے بھاگ نکلو، لیکن جب پورا محور جنگ کا فیصلہ کرے گا، تو اس وقت سوائے تیرنے کے اور کوئی رستہ نہیں بچے گا، لہذا اپنی جانوں کو بچاؤ، اور نتن یاہو جیسے سیاستدانوں کی باتوں پر کان نہ دھرو، ان کی باتوں پہ یقین کرنا تمہارے لئے مرگ مفاجات کا سبب بنے گا۔

ساتواں درس یہ ہے، کہ ان جیسی استقامت، دندان شکن جواب، اور شجاعت و بہادری رائے عامہ ہموار کرنے کے لئے بہت مفید ہے، اور صرف اسی ذریعے سے یہ بات رائے عامہ کے لئے واضح کی جا سکتی ہے، ک صہیونی صرف طاقت کی زبان سمجھتے ہیں، لہذا فلسطین کے مسئلے کا واحد حل راہ مقاومت ہے، یہ بات کرنا، کہ ان وحشیوں اور عالمی دہشت گردوں سے مذاکرات کئے جائیں، یہ سوائے احمقانہ پن کے اور کچھ نہیں، وحشی صرف لاتوں کی زبان سمجھتے ہیں، دہشت گرد صرف طاقت سے روکے جاتے ہیں، اور صیہونیت کی ماضی کی گواہ ہے، کہ اس غاصب گروہ کا مذاکرات سے مطلب صرف یہ ہوتا ہے، کہ فلسطینی ان کے سامنے مکمل طور پر سر تسلیم، خم کر دیں، ان کی ہر بات من و عن و قبول کریں، اور اس کے وجود کا اعتراف کرکے مکمل طور پر باقی علاقوں سے بھی نکل جائیں، جبکہ اصل یہ ہے، کہ یہ عالمی دہشت گرد مقبوضہ فلسطین سے نکل جائیں، اور یہ کبھی بھی مذاکرات سے نہیں نکلیں گے، یہ لاتوں کے بھوت ہیں باتوں سے ہرگز نہیں مانتے، ان سے مذاکرات یعنی مذاق رات۔

آٹھواں درس یہ ہے، کہ کسی جگہ بھی کوئی انسان یا کوئی گروہ ظلم کا شکار ہو، اس کی مدد کا بہترین طریقہ یہ ہے، کہ اس گروہ پر باہر سے کوئی قیادت مسلط کرنے کے بجائے، خود اسی گروہ کو مضبوط کیا جائے، جب بھی کسی مظلوم گروہ پر مدد کے عنوان سے بیرونی قیادت مسلط کرنے کی کوشش ہوئی، کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی، ایران نے لبنان اور فلسطین میں یہی کیا، کہ ان دونوں ممالک میں بیرونی قیادت مسلط کرنے کے بجائے، وہاں کی مقامی قیادتوں کو پھلنے پھولنے کا موقع دیا، انہی قیادتوں پر مکمل اعتماد کیا، اور ان کی کرامت اور عزت نفس کا خیال رکھا، اس کا نتیجہ آج آپ کے سامنے ہے، کہ انہی مقامی قیادت کے زیر سایہ لڑنے والی مقاومتی تنظیموں نے صہیونیوں کی ناک رگڑی، اور انہیں کئی بار ذلیل کیا، شاید کشمیر میں ہم سے ایک غلطی یہ بھی ہوئی ہے، کہ ہم نے وہاں کی مقامی قیادتوں کو مضبوط کرنے کے بجائے، کشمیریوں پر بیرونی قیادتیں مسلط کرنے کی کوشش کی، اور اس کا نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔

نواں درس یہ ہے، کہ علم نفسیات، انسانی معاشروں کے عروج و زوال، اور انسانی کمالات کے حصول کے طور و طریقوں کے بارے بحث و تحقیق کرنے والے اس بات پر متفق ہیں، کہ نا امید ہونا ناکامی کا سب سے اہم سبب ہے، اس لئے تاریخ گواہ ہے، کہ جب کبھی بھی زمانے کے نمردوں، فرعونوں، اور یزیدوں کے خلاف کوئی مزاحمتی تحریک کا آغاز ہوا، تو ان ستمگاروں نے لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات راسخ کرنے کی کوشش کی، کہ ان سے لڑنے والے کامیاب نہیں ہو سکتے، کیونکہ یہ ہر حوالے سے طاقت ور ہیں، اور ان سے مقابلہ کرنے والے بے حد کمزور، یہ پروپیگنڈہ ہر دور میں کیا گیا، تاکہ لوگ مایوس ہو جائیں، اور اس بات کو تسلیم کریں، کہ ان ظالموں کو قبول کرنے کے سوا اور چارہ نہیں، جبکہ اس کے مقابلے میں اسلام تعلیمات نے اس بات پر زور دیا، کہ انسان کو کسی بھی صورت مایوس نہیں ہونا چاہیے، بارہا ایسا ہوا، کہ طاقتور سے طاقتور ظالم، بظاہر کمزور نظر آنے والے گروہ کے ہاتھوں شکست کھا گیا، اس لئے کبھی بھی نا امیدی کو قریب نہیں آنے دینا چاہیے، میدان عمل میں سرگرم رہنا، جہد مسلسل کو اپنا شعار بنانا، اپنے آپ یہ یقین رکھنا کہ ہم کر سکتے ہیں، اور خدا پر توکل کرنا ہر مشکل کو ایسے پگھلا دیتا ہے، جیسے سورج برف کو، آج غزہ پٹی کی استقامت کا اہم ترین درس یہ ہے، کہ دشمن کی طاقت، اور اس کے پاس وسائل کی کثرت کو دیکھ کر مایوس نہیں چاہیے، کیونکہ بقول حضرت اقبال کے

نہ ہو نا امید نا امیدی زوال علم و عرفاں ہے
امید مرد مومن ہے — خدا کے رازدانوں میں

دسواں درس یہ ہے، کہ آپ کا حق اسی وقت تک زندہ رہتا ہے، جب تک آپ اس کے لئے آواز بلند کریں گے، جب آپ نے اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کرنا بند کر دیا، وہ حقوق بھلا دئیے جائیں گے، کئی دھائیوں پر پھیلا یہ فلسطین کا مسئلہ کب کا ختم ہو جاتا، کہ اگر فلسطینی اپنے حقوق کے حصول کے لئے مسلسل کوشش نہ کرتے، اب تک صہیونی پورے فلسطین کو نگل چکے ہوتے، اگر حق فلسطین، قبلہ اول کی آزادی، اور مظلوموں کے حق میں مسلسل آواز نہ اٹھائی جاتی، بار بار ایک سوال کیا جاتا ہے، کہ فلسطین کے مسئلے کو اٹھانا، اس کے لئے کانفرنسوں کا اہتمام کرنا، یوم القدس منانا، احتجاجی مظاہرے کرنا، آخر ان تمام کاموں کا فائدہ کیا ہے، جوابا عرض یہ ہے، کہ اگر اس مسئلے کو یوں زندہ نہ رکھا جاتا، تو آج ہمیں یہ مناظر دیکھنے کو نہ ملتے، کہ وہ اسرائیل جو چھ دنوں میں سب عرب فوجوں کو شکست دیتا ہے، صرف 53 سال بعد غزہ میں محصور مٹھی بھر مجاہدین کے سامنے بے بس نظر آتا ہے۔

اس وقت ہر وہ فلسطینی خراج تحسین کا مستحق ہے، جو میدان جہاد میں کھڑا ہوکر صہیونیوں کو شکست کے مزے، اور ذلت کے کڑوے گھونٹ پلا رہا ہے، خدا سب کا حامی و ناصر ہو۔

محمد اشفاق
18 مئی 2021
دمشق

متعلقہ مضامین

Back to top button