اہم ترین خبریںمقالہ جات

کرپٹو یا ڈیجیٹل کرنسی کا شرعی حکم کیا ہے؟

یہ سوال کسی فورم پر پوچھا گیا، ہم نے کچھ عرائض پیش کئے جن کو یہاں کچھ ترمیمات کے ساتھ پیش کر رہے ہیں۔ کرپٹو یا ڈیجیٹل کرنسی عصر جدید کی مشکل ابحاث میں سے ہے۔ یہ ہوتا کیا ہے؟ اس پر آپ کو کافی مواد انٹرنیٹ پر مل سکتا ہے، لیکن فقہ جعفریہ کے مطابق اس کا حکم کیا ہے؟ میں اس سوال پر بات کروں گا۔
کرپٹو کرنسی ایک ڈیجیٹل کرنسی ہے۔ فقہی لحاظ سے کرنسی کا حکم یہ ہے کہ جب وہ کسی بازار یا مارکیٹ میں بطور زر تبادلہ (Medium of Exchange) قبول کیا جائے تو اس کی بنیاد پر ٹرانزیکشن کرنے میں حرج نہیں۔ چنانچہ اگر پاکستان میں کسی بھی ڈیجیٹل کرنسی کو سرکاری طور پر قبول کر لیا جاتا ہے تو اس سے آپ معاملہ کر سکیں گے۔ اگر آپ کسی ایسے ملک میں ہیں جہاں اس کو بازار میں معاملے کے لئے قبول کیا جاتا ہے تو آپ اپنی مختلف پیمنٹ کرپٹو کرنسی میں کر سکتے ہیں۔
یہاں ایک سب سے بڑی مشکل ہے جس کی وجہ سے دنیا کے اکثر ممالک اس کو قبول کرنے سے گریز کر رہے ہیں، لہذا مشکل فقہی سے زیادہ معاشی ہے۔ اس طرح کی کرنسیوں کو مینیج کرنے کا کوئی سینٹرل ادارہ نہیں ہے۔ اس میں بہت آرام سے سٹے بازی ہو سکتی ہے، کچھ بڑی مچھلیاں اس میں مصنوعی ڈیمانڈ پیدا کر کے ایک دم سے اس کی قیمت بڑھا سکتی ہیں یا ایک دم رسد کو بڑھا کر قیمت کو گرا سکتی ہیں۔ اگر اس قسم کی کوئی مشکل پیش آئے تو آپ کہاں جائیں گے؟ کیسے اس کو ریگولیٹ کیا جا سکتا ہے؟

مثلا اسٹاک ایکسچینج میں انویسٹمنٹ ہوتی ہے تو اس کو ریگولیٹ کرنے کی مارکیٹ ہوتی ہے، اسی طرح گولڈ اور باقی کرنسی جیسے ڈالر یا یورو میں معاملہ کریں تو سینٹرل باڈی موجود ہوتی ہے۔ جو کرپٹو کرنسیاں اس وقت رائج ہیں ان کی کوئی باڈی نہیں ہے لہذا اس میں انویسٹمنٹ کرنا کسی بھی لحاظ سے محفوظ نہیں ہے۔

اس وقت کرپٹو کرنسی کے نام پر عالمی سٹے بازوں کو اپنی سٹّے بازی کے لئے بہترین فیلڈ مل گیا ہے، دنیا بھر کے سٹے باز دھڑا دھڑ اس میں انویسٹ کر رہے ہیں۔ ابھی کچھ دن قبل بٹ کوئین کی قدر میں ایک دم کمی واقع ہوئی ہے جس کی وجہ سے کافی لوگ اب سنبھل رہے ہیں کہ منافع کا جھانسہ دے کر کہیں بڑے بڑے سٹے باز چھوٹی موٹی جمع پونجی رکھنے والوں کا مال تو ہڑپ نہیں کر رہے؟

چنانچہ فقہی لحاظ سے کرپٹو کرنسی کے معاملے میں غرر اور جہالت پائی جاتی ہے۔ شرعی لحاظ سے غرر والے معاملات کی ممانعت وارد ہوئی ہے۔ لہذا اس معاشی غرر کی وجہ سے شرعی غرر پیدا ہو رہا ہے۔ ہاں اگر کوئی سینٹرل بینک اس قسم کی کرنسی خود جاری کرے، اور اس کی پشت پر حکومت کی ضمانت موجود ہو تو یہ تمام اشکالات خود بخود رفع ہو جائیں گے۔ لیکن وہ ڈیجیٹل کرنسی جن کی کوئی سینٹرل باڈی نہیں اس میں سرمایہ کاری یا معاملہ کرنا اشکال رکھتا ہے۔
تمام شیعہ مراجع اس کرنسی میں سرمایہ کاری کو مورد اشکال قرار دے رہے ہیں یا اس معاملے میں توقف فرما رہے ہیں کیونکہ اس کی حیثیت ابھی کھل کر سامنے نہیں آسکی، بلکہ قرائن کی رو سے اس کی مشکوک حیثیت سامنے آ رہی ہے۔ آیت اللہ صافی گلپایگانی نے اس کو "اکل مال بہ باطل” قرار دیا اور حرام کہا ہے۔ آیت اللہ وحید خراسانی نے اس قسم کے معاملات کو باطل قرار دیا۔ آیت اللہ مکارم شیرازی نے کرپٹو کرنسی کے معاملے میں موجود بہت زیادہ ابہامات کی وجہ سے مورد اشکال قرار دیا۔ آیت اللہ سیستانی کے نزدیک احتیاط اس کے اجتناب میں ہے البتہ اعلم فی الاعلم کا خیال رکھتے ہوئے کسی اور مرجع سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای نے اس معاملے میں توقف کیا ہے اور فتوی نہیں دیا۔ ہماری نگاہ سے کوئی مرجع ایسا نہیں گزرا جنہوں نے اس کی مکمل اجازت دی ہو۔

بہرکیف احتیاط اسی میں ہے کہ اس سے اجتناب کیا جائے تاآنکہ دنیا کے معاشی گرو اس کو درست قرار نہ دیں۔ سب سے اہم یہ کہ جب تک ہمارا سینٹرل بینک اس کو قبول نہ کر لے اور کوئی پروٹیکشن کا نظام نہ بنا لے اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔

والسّلام
تحریر: سید جواد حسین رضوی

متعلقہ مضامین

Back to top button