اہم ترین خبریںشیعت نیوز اسپیشلمقالہ جات

علامہ اقبال کیسا پاکستان چاہتے تھے؟

علامہ اقبال کیسا پاکستان چاہتے تھے

علامہ اقبال کیسا پاکستان چاہتے تھے، یہ سوال آج بھی ریلیوینٹ ہے، گوکہ انکی رحلت کو بیاسی برس گذر چکے ہیں۔ 9نومبر 1877ع کو پیدا ہونے والے محمد اقبال کے یوم پیدائش کے موقع پر انتہائی اختصار کے ساتھ انکے چند افکار کی روشنی میں اس سوال کا جواب تلاش کرتے ہیں۔ محمد اقبال سے ڈاکٹر محمد اقبال تا علامہ اقبال، حکیم الامت تا نظریہ ساز پاکستان تک انکا ارتقائی سفر انکے افکار کو سمجھنے میں مددکرتا ہے۔

آل انڈیا مسلم لیگ سے وابستگی

مسلمانان بر صغیر کے حقوق کے حصول کے لیے سیاسی جدوجہد کے وہ شروع سے قائل تھے۔ اور اس پرامن سیاسی جدوجہد کے لیے انہوں نے آل انڈیا مسلم لیگ سے وابستگی اختیار کی۔ ایک سنی خانوادے کے اس چشم و چراغ نے ایک اثناعشری شیعہ محمد علی جناح کی قیادت میں جدوجہد کی۔

مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس1930ع منعقدہ الہ آباد میں صدارتی خطبہ

اس وقت کے غیر منقسم ہند میں کہ جس پر برطانیہ سامراج قابض اور مسلط تھا، علامہ اقبال نے مسلمانوں کی آزادی و خود مختاری سے متعلق تجاویز پیش کرنا شروع کیں۔ خاص طور پر مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس1930ع منعقدہ الہ آباد میں انکا صدارتی خطبہ انکے سیاسی و دینی افکار کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

علامہ اقبال کیسا پاکستان چاہتے تھے؟

یہ جو آج کل فتنہ گر بے لگام مولوی حضرات کبھی رافضی اور کبھی کافر کے تکفیری و ناصبی نظریے کا رٹا لگاتے ہیں، ان کو اور انکے سرپرستوں کی موت کا پروانہ ہے علامہ اقبال کہ جس کا قائد و رہنما محمد علی جناح تھا۔

علامہ اقبال کا قائد و رہنما محمد علی جناح

جیسا کہ اکیس جون 1937ع کو لکھے گئے خط میں علامہ اقبال نے اس وقت جناح صاحب کو ان الفاظ سے یاد کیا تھا:

……as you are the only Muslim in India today to whom the community has a right to look up for safe guidance through the storm which is coming to North­ West India and perhaps to the whole of India.

پاکستان کے دشمن منافقین

نظریہ پاکستان کے دشمن منافقین اس تاریخی حقیقت کو مسخ نہیں کرسکتے کہ مسلمانان برصغیر کے لیے آزاد و خودمختار مملکت کے حصول کی جدوجہد میں علامہ اقبال کے بھی قائد محمد علی جناح صاحب تھے۔ اوریہ حقیقت بھی تاریخ میں محفوظ ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح کی نظر میں علامہ اقبال انکے ایک مخلص دوست اور وفادارترین ساتھی تھے۔

اقبال کے اشعارلافانی،ہمیشہ رہنما اور متاثر کن

بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے علامہ اقبال کو سال1944ع ہی میں قومی شاعرکے عنوان سے یاد کیاتھا۔ جناح صاحب نے اقبال کے اشعار کو لافانی،ہمیشہ رہنما اور متاثر کن قراردیا۔ انہوں نے علامہ اقبال کو اول تا آخر مسلمان اور خاتم الانبیاء حضرت محمد ﷺ کا سچا پیروکار بھی کہا۔ ساتھ ہی یہ عہد بھی کیا کہ جب مسلمانوں کی آزاد مملکت قائم ہوگی تو علامہ اقبال کے آئیڈیلز کو عملی روپ دیں گے۔ جناح صاحب نے بھی وضاحت و صراحت کے ساتھ علامہ اقبال کو اسلامی آئیڈیلز پر غیر متزلزل ایمان رکھنے والا عظیم فلسفی اور عملی سیاستدان کہا۔

خود انحصاری کی منزل پر تیزی سے سفر

پاکستانیوں کو اور خاص طور پر نوجوان پاکستانیوں کو چاہیے کہ علامہ اقبال کے افکار کی روشنی میں اپنی خودی کو تلاش کریں، مشرق و مغرب کے اسلام دشمن افکار کے باطل سحر سے نکلیں، عالمی سامراج کی غلامی کی زنجیریں توڑیں، پاکستان کو واقعی آزاد و خود مختار فلاحی ریاست بنانے کے لیے دوسروں پر انحصار کو یکسر ختم کرکے خود انحصاری کی منزل پر تیزی سے سفر کریں۔

اتحاد امت کی عملی تصویر

علامہ اقبال اور قائد اعظم محمد علی جناح امن و آشتی اور محبت کے امین تھے۔ وہ اتحاد امت کی عملی تصویر تھے۔ سنی شیعہ اتحاد کی زندہ مثال تھے۔ اس دور میں بھی تنگ نظر فسادی و فتنہ گر مولوی اسی نوعیت کی خائنانہ شرارتوں میں مصروف تھے جیسی کہ پاکستان میں بھی انکی باقیات کرتی آئی ہے۔ ایسے خائن مولویوں اور انکے آقاؤں نے برصغیر کے مسلمانوں کو اس دور میں بھی تقسیم کرنے کے لیے مسلکی نفرت پھیلائی تھی۔ اس وقت وہ برطانوی سامراج کے ایجنڈا کو تقویت دیا کرتے تھے۔

پاکستانی قوم کے اجلے چہرے کو مسخ کرنے پر تلے ہوئے منافقین

آج کل یہ فتنہ گر زایونسٹ امریکی امارارتی و سعودی ناصبی ایجنڈا کے تحت پاکستانی قوم کے اجلے چہرے کو مسخ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ علامہ اقبال تفضیلی تھے اور آج کا فتنہ گر مولوی تفضیلیوں کے خلاف زہر اگلتا ہے۔ علامہ اقبال تفضیلی کے قائد محمد علی جناح شیعہ تھے، لیکن آج کا مولوی شیعوں کے خلاف زہر اگلتا ہے۔ بہت واضح ہے کہ ان فتنہ گروں کا ہدف پاکستان اور نظریہ پاکستان کے دشمنوں اور مخالفین کے مفادات کی تکمیل کرنا ہے۔

مغربی سامراج اور مغربی افکار کے سخت ناقد

علامہ اقبال نے بہت تیزی سے فکری ارتقائی مراحل کو طے کیا۔ انکے افکار پر جلال وجمال دونوں ہی چھائے ہوئے نظر آئے۔ جلال سے مراد جلال الدین رومی عرف مولانا روم اور جمال سے مراد جمال الدین افغانی۔ علامہ اقبال نہ تو مغربی بلاک سے اور نہ ہی مغربی افکار سے متاثر تھے۔ بلکہ وہ مغربی سامراج اور مغربی افکار کے سخت ناقد رہے۔ اسی طرح بادشاہی نظام کے بھی مخالف تھے۔

اگر علامہ اقبال کے اصل اسلامی نظریے کا سمجھنا ہے تو انکے چند اشعار ہی کافی ہیں۔

قوت عشق سے ہر پست کو بالا کردے
دہر میں اسم محمد ﷺ سے اجالا کردے

خاک مدینہ و نجف

خیرہ نہ کرسکا مجھے جلوہ دانش فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف

اسلام کے دامن میں اور اسکے سوا کیا ہے
اک سجدہ شبیری، اک ضرب یداللہی

پاکستانی قوم دنیا کی ایک منفرد مسلمان ملت

ہر شے اپنی اصل کی طرف لوٹتی ہے۔ پاکستان کو بھی اپنی اس اصل کی برف لوٹنے کی ضرورت ہے۔ یہ پاکستانی قوم دنیا کی ایک منفرد مسلمان ملت ہے۔ اس جغرافیائی حدود میں پاکستان دنیا کے نقشے پر وہ واحد ملک ہے کہ جس کے بانیان نے قیام پاکستان سے پہلے اسلام کی بنیاد پر جو سیاسی افکار اور نظریات بیان کیے، آج ہم دنیا میں اسی کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ آجکا ایران بانیان پاکستان کی فلسطین پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ ریاست پاکستان اورعلمائے کرام کو علامہ اقبال کے اس قول زریں سے رہنمائی حاصل  کرنے کی ضرورت ہے

:
فتنہ ملت بیضا ہے امامت اسکی
جو مسلماں کو سلاطیں کا پرستار کرے

محمد عمار شیعیت نیوز اسپیشل
علامہ اقبال کیسا پاکستان چاہتے تھے
United States witness fraud presidential election of the century

 

متعلقہ مضامین

Back to top button