اہم ترین خبریںمقالہ جات

آذربائجان اور آرمینیا کے درمیان جنگ میں ایران کا کردار

آذربایجان اور آرمینیا کے درمیان متنازعے علاقے قراباغ پر ہونے والی تینوں لڑائیوں (نوے کی دہائی کے اوائل میں چار سالہ جنگ، 2016 میں چودہ روزہ جنگ اور حالیہ چند روزہ جنگ) میں ایران کسی ایک لڑائی میں بھی آرمینیا کے ساتھ کھڑا دکھائی نہیں دیا البتہ پہلی لڑائی کے بعد آذربائجان کے ساتھ بھی کھڑا دکھائی نہیں دیا۔ وجہ اوپر لکھ دی ہے۔

شیعیت نیوز: آذربائجان اور آرمینیا کے درمیان جنگ کے عنوان سے کل کی پوسٹ میں کہا تھا یہ جنگ مذہبی نہیں ہے بلکہ یہ ایک زمینی تنازعہ ہے جس میں قومیتی رنگ خاصا غالب ہے۔ اس جنگ کے تاریخی پس منظر پر الگ سے نوٹ لکھوں گا۔ آج اس جنگ میں ایران کے سابقہ کردار، مفادات اور مستقبل میں ممکنہ رول پر چند نکات عرض کرنا چاہوں گا۔

آذربائجان اور آرمینیا کے درمیان تنازعے میں ایران نے نوے کی دہائی کے اوائل میں آذربائجان کی غیر مشروط نہ صرف حمایت کی بلکہ بھرپور عملی مدد بھی کی تھی۔ متنازعہ علاقے قراباغ کی آزادی کی چار سالہ جنگ میں ایرانی عسکری مشیر آذربائجان کے ساتھ نہ صرف جنگی کنٹرول روم میں نظر آئے بلکہ فرنٹ لائن پر لڑتے بھی پائے گئے۔ دو نامور ایرانی جنرل نوعی اقدم اور حقیقت پور ایرانی عسکری ماہرین کے اس دستے کی قیادت کررہے تھے جو آرمینیا سے قراباغ کی آزادی کی جنگ میں آذربائجان کو عسکری مشاورت دینے آذربائجان گیا تھا۔ نوے کی دہائی کے اوائل میں قراباغ کی آزادی کے لیے لڑی جانے والی جنگ میں ایرانیوں نے جمہوریہ آذربائجان کی طرف سے لڑتے ہوئے تیس لوگ بھی شہید کروائے تھے جن کی قبور آذربائجان میں ہی ہیں۔ اُس وقت کے آذری صدر حیدر علی اف نے ایرانی عسکری ماہرین کو قراباغ کی جنگ آزادی میں نمایاں کردار ادا کرنے پر تمغہ بھی دیا تھا۔ آذری حکومت کی ناقص حکمت عملی اور عقب نشینی کے باعث اس جنگ کے نتیجے میں نہ صرف قراباغ آزاد نہیں ہوا تھا بلکہ چند مزید آذری علاقے بھی آرمینیا کے قبضے میں آگئے تھے۔ اقوام متحدہ نے ہمیشہ سے ہی متنازعہ علاقے سے ارمنی فوج کے انخلا کا مطالبہ کیا اور مسئلے کے پرامن حل پر زور دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:چہلم امام حسین (ع) کے موقع پر عراق کی جانب سے ہر ملک سے ۱۵۰۰ زائرین کو عراق آنے کی اجازت

اس پہلو سے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ ایران اور آذربائجان کے تعلقات بہت اچھے رہے ہیں یہاں تک کہ آذربائجان اسرائیل اور امریکہ کے زیر اثر چلا گیا۔ نہ صرف زیر اثر چلا گیا بلکہ اس نے اسرائیل کے ساتھ دفاعی تعاون کے غیر اعلانیہ معاہدے بھی کرلیے۔ اسرائیل اور آذربائجان کے درمیان دفاعی تعلقات اب بھی برقرار ہیں جس کا اظہار گزشتہ روز تہران میں تعینات آذربائجانی سفیر نے خبر رساں ادارے تسنیم سے بات چیت کرتے ہوئے ببانگ دہل کیا ہے کہ آذربائجان کے اسرائیل کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں اور وہ اس جنگ میں حسبِ سابق اسرائیل سے تعاون لے رہا ہے۔

آذربائجان اور ایران کے درمیان تعاون اور تعلقات اس کے باوجود اچھے رہے۔ پھر اچانک آذربائجان سے اڑ کر ایک اسرائیلی ڈرون نے ایران کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنا ڈالا۔ دوسری طرف قراباغ کی آزادی کا ایرانی منصوبہ جو انہوں نے آذری صدر حیدر علی اف کو پیش کیا تھا وہ تل ابیب اور واشنگٹن کی میزوں سے برآمد ہوا۔ ادھر آذری فوج کی حساس معلومات آرمینیا کے جنگی کنٹرول روم سے برآمد ہوئیں کیونکہ اسرائیل بیک وقت آذربائجان اور آرمینیا دونوں کے ساتھ رابطے میں تھا۔ اس کے بعد آذربائجان اور ایران کے درمیان اعتماد کی فضا ویسی نہ رہی۔ تجارتی تعلقات اب بھی دونوں ملکوں کے بہت اچھے ہیں لیکن اعتماد کی وہ فضا نہیں بن سکی جو نوے کی دہائی میں تھی۔ آذربائجان ایران پر جمہوریہ آذربائجان کے اندر شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والی آذری اکثریت میں اثرورسوخ بڑھانے کے لیے سرمایہ کاری کا الزام لگاتا ہے جبکہ ایران آذربائجان کو دشمن کے بلاک میں شامل ہوجانے خصوصاً اسرائیل کے ساتھ لائن سیدھی کرلینے پر ناقابل اعتماد ہمسایہ تصور کرتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:امریکی صدر ٹرمپ، سعودی بن سلمان سمیت ۱۰ افراد کو موت کی سزا، ۱۰ ارب ڈالر ادا کرنے کا حکم

آذربایجان اور آرمینیا کے درمیان متنازعے علاقے قراباغ پر ہونے والی تینوں لڑائیوں (نوے کی دہائی کے اوائل میں چار سالہ جنگ، 2016 میں چودہ روزہ جنگ اور حالیہ چند روزہ جنگ) میں ایران کسی ایک لڑائی میں بھی آرمینیا کے ساتھ کھڑا دکھائی نہیں دیا البتہ پہلی لڑائی کے بعد آذربائجان کے ساتھ بھی کھڑا دکھائی نہیں دیا۔ وجہ اوپر لکھ دی ہے۔

ایران آذربائجان میں کیا چاہتا ہے؟ امن! کیوں؟ کیونکہ مغربی ایشیا میں بیک وقت چار محاذوں (فلسطین، شام، عراق اور یمن) پر وہاں کی حکومتوں کی درخواست پر لڑنے والا ایران نہیں چاہتا اس کے لیے مزید ایک محاذ کھل جائے۔ ایران کی سرحد کے تین اطراف میں دشمن کا اثر ورسوخ ہے اور تینوں سرحدیں ناامن ہیں لہذا وہ نہیں چاہتا کوئی چوتھا بارڈر بھی ناامن ہو جہاں اسے اپنی توانائیاں لگانا پڑیں۔ ایران کبھی نہیں چاہے گا کہ کوئی ایسا بہانہ بنے (جیسے قراباغ جنگ) کہ جس کے باعث اس کے دیرنیہ دشمن (خصوصاً اسرائیل) اس کے ہمسائے میں پڑاو آن ڈالے جہاں سے ایران کی تنصیبات اور نقل و حرکت کو کنٹرول کرنا تل ابیب کی نسبت کئی گنا زیادہ آسان ہوگا۔ اور ایران کے خلاف کوئی کاروائی کرنا تو اور بھی آسان ہوجائے گا۔

آذربائجان کے ساتھ ایران کی سرحد وہ واحد سرحد ہے جو کوڈ وبا کے دوران بھی تجارت کے لیے کھلی رہی ہے اور ایرانی تاجر آذربائجان کے ذریعے قفقاز اور دیگر روسی علاقوں تک نقل و حرکت کرتا رہا ہے جو ایران اور آذربائجان کے درمیان تجارتی تعلقات کی بے پناہ اہمیت کی دلیل ہے لہذا اس اہمیت کے پیش نظر ایران اس خطے میں کسی بھی ممکنہ طویل جنگ کے حق میں کبھی نہیں ہوگا کیونکہ پابندیوں میں جکڑی ایرانی معیشت کو کسی نئی جنگ کے نتیجے میں مزید بحران میں پھنسانا دانشمند نہیں ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں:مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس سمیت دیگر قائدین اربعین امام حسین ؑپاکستان میں کرینگے

آذربائجان ایران سے کیا چاہتا ہے؟ اس جنگ میں غیر مشروط حمایت اور تعاون۔ اور اس کے لیے آذربائجان ایران پر اپنے ماضی کے تمام احسانات جتا رہا ہے۔ ممکنہ طور پر کیا ہوسکتا ہے؟ ایران اس جنگ میں آذربائجان کی سائیڈ نہیں لے پائے گا۔ کیونکہ ایران کا دشمن اسرائیل اور ترکی کے حمایت یافتہ شدت پسند گروہ اس جنگ میں آذربائجان کے اتحادی ہیں۔ پس ایران دشمنوں کے ساتھ ایک کنٹرول روم میں کھڑے ہونے کا رسک نہیں لے سکتا اور وہ بھی خصوصاً اس وقت جب جنگ ایسی کوئئ مجبوری بھی نہ ہو۔ اور یہی وجہ ہے اب تک ایران نے آذربائجان اور آرمینیا کی جنگ میں ہر دو فریق کو صبر و تحمل اور مسئلے کو مینسک کے مینڈیٹ اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور جنگ کو فورا روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔

اگلی پوسٹ میں اس جنگ میں ترکی کے رول اور مفادات پر بات کریں گے۔

تحریر: سید ابن حسن

متعلقہ مضامین

Back to top button