مشرق وسطی

کویت کے امیر شیخ صباح الاحمد الصباح 91 برس کی عمر میں انتقال کر گئے

کویت کے سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق خلیجی ریاست کے امیر شیخ صباح الاحمد الصباح اکانوے برس کی عمر میں فات پا گئے ہیں۔

توقع کی جا رہی تھی کہ شیخ صباح کے انتقال کے بعد ان کے 83 سالہ سوتیلے بھائی اور ولی عہد شیخ نواف الاحمد امیر بن جائیں گے۔

یاد رہے کہ اس سال جولائی میں شیخ صباح کو اس وقت علاج کے لیے امریکہ لیجایا گیا تھا جب کویت میں ان کے ایک آپریشن کے بعد ان کی طبیعت زیادہ خراب ہو گئی تھی۔ کویتی ذرائع نے یہ نہیں بتایا تھا کہ شیخ صباح کو کس مرض کا سامنا ہے۔

شیخ صباح اگرچہ سنہ 2006 میں تیل کی دولت سے مالا مال کویت کے امیر بنے تھے تاہم وہ پچاس سال سے زیادہ عرصے تک اس کی خارجہ پالیسی کی نگرانی کرتے رہے ہیں۔

سنہ 1990 میں کویت میں عراق کی فوجی کارروائی کے وقت جن ممالک نے عراق کی حمایت کی تھی، ان کے ساتھ تعلقات بحال کرنے میں شیخ صباح نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ اسی حوالے سے انہیں ’عرب سفارتکاری کا استاد‘ کہا جاتا تھا۔

ان ممالک سے تعلقات بحال کرنے کے علاوہ شیخ صباح نے کئی مواقع پر علاقائی جھگڑوں میں ثالث کا کردار بھی ادا کیا، جن میں سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں اور قطر کے درمیان جاری سفارتی لاتعلقی بھی شامل ہے۔

شیخ صباح کے دور میں کویت نے خود کو نہ صرف شام کی خانہ جنگی سے دور رکھا، بلکہ وہ شام کے لیے انسانی امداد کے حوالے سے کئی مرتبہ امدادی اداروں اور تنظیموں کی میزبانی بھی کر چکا ہے۔

شیخ صباح نے جنوری 2006 میں عنان حکومت اس وقت سنبھالی تھی جب شیخ سعد العبداللہ محض نو دن امیر رہنے کے بعد مستعفی ہو گئے تھے۔ کویتی پارلیمان نے ایک قرارداد میں شیخ سعد سے مطالبہ کیا تھا کہ ان کی صحت اجازت نہیں دیتی کہ وہ امارت کی ذمہ داریاں ادا کر سکیں۔

امیر بننے سے پہلے شیخ صباح اس وقت کے امیر شیخ جابر الاحمد الجابر الصباح کے عہد میں کویت کے وزیر اعظم رہ چکے تھے اور کئی برسوں تک عملی طور پر شیخ صباح کو ہی کویت کا حاکم سمجھا جاتا تھا۔

وزارت عظمیٰ سے قبل وہ 1963 سے 1991 تک اور پھر 1992 سے 2003 تک کویت کے وزیر خارجہ بھی رہ چکے تھے۔

کویت کی آبادی 48 لاکھ ہے جس میں 34 لاکھ غیر ملکی شامل ہیں اور یہ ریاست دنیا میں تیل کے چھٹے بڑے ذخیرے کی مالک ہے۔

صباح خاندان کی کویت پر حکمرانی کو 260 برس ہو چکے ہیں۔

کویت کے سیاسی معاملات میں امیر کا حکم حرف آخر ہوتا ہے اور امیر کو اختیار حاصل ہے کہ وہ پارلیمان کے کسی فیصلے کو رد کر سکتا ہے اور اسے تحلیل کر کے نئے انتخابات کا حکم دے سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button